اِرتکازِ توجّہ
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12858
سوال: روحانی علوم میں بہت سی ایسی مشقیں ہیں جو اِرتکازِ توجّہ کی مشقیں کہلاتی ہیں، جبکہ مراقبہ بھی اِرتکازِ توجّہ کا عمل ہے۔ اس بات کی وضاحت کریں کہ توجّہ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے اور روحانی بیداری کا کیا تعلق ہے؟ نیز ان دونوں مشقوں کے نام اور طریقے الگ الگ کیوں ہیں؟
جواب: آپ کو کبھی نہ کبھی اس بات کا تجربہ ہوا ہو گا کہ آپ بیٹھے ہیں اور بے خیالی میں آپ کی نگاہیں کسی نقطے پر جم جاتی ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ نقطہ نگاہوں کے سامنے سے غائب ہو جاتا ہے۔ اس وقت ماحول کا احساس کسی حد تک دَب جاتا ہے۔ کسی نقطے پر نگاہیں مرکوز کرنے سے وہ نقطہ غائب کیوں ہو جاتا ہے یا ماحول کا احساس مغلوب کیوں ہو جاتا ہے؟ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے۔ بیداری میں آنکھ کے ڈیلوں پر جِلدی غلاف متحرّک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحے کے لئے روشنیوں اور مناظر سے منقطع کر دیتا ہے۔ غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں جس قدر ہیں، آنکھ ان سے بتدریج مطلع ہوتی ہے اور جس طرح مطلع ہوتی جاتی ہے، ذہن کو بھی اطلاع پہنچاتی رہتی ہے۔ اصول یہ بنا کہ مادّی اشیاء کا احساس ہلکی ضرب کے بعد روشنیوں کا اِنقِطاع چاہتا ہے۔ اس اثناء میں وہ ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو ہم مادّی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں ان چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے آنکھوں کے مادّی ڈیلے اور غلاف کی مادّی حرکات ضروری ہے۔
اگر ہم ان چیزوں کی معنوی یا باطنی شکل و صورت کا احساس بیدا رکرنا چاہیں تو اس عمل کے خلاف اہتمام کرنا ہو گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطّل اور غیر متحرّک کر دینا ضروری ہے۔ مادّی اشیاء کا احساس مادّی آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے اور جس نگاہ کے ذریعے مادّی احساس کا یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت میں بھی استعمال ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نگاہ مادّی حرکات اور روحانی حرکات میں ایک مشترکہ آلہ ہے۔ دیکھنے کا کام بہرصورت نگاہ ہی انجام دیتی ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادّی وسائل کو معطّل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجّہ رکھیں گے تو نگاہ معنوی یا روحانی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔
ہمارے شعور کے اندر بہنے والی رَو میں جیسے جیسے ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں کی حرکات بھی ساکت ہونے لگتی ہیں۔ ٹھہراؤ کی مناسبت سے ہماری آنکھ میں واقع ہونے والی بصارت کا عمل بھی تعطّل کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب یہ ٹھہراؤ (اِرتکاز) بڑھ کر ایک خاص حد تک پہنچ جاتا ہے تو نگاہ کی طرز بدل جاتی ہے۔ بصارت کا مادّی عمل، باطنی بینائی یا باطنی نظر سے ردّ و بدل ہو جاتا ہے۔
شعوری طور پر اس کا قانون یہ ہے کہ ذہنی رجحانات یا ذہنی مرکزیت کو زیادہ سے زیادہ دیر تک ایک نقطہ پر مرکوز رکھا جائے۔ مراقبہ میں جب آنکھیں بند کی جاتی ہیں تو ڈیلوں کی حرکات معطّل ہونے لگتی ہیں۔ جب بند آنکھوں سے ذہن ایک خیال یا تصوّر پر متواتر مرکوز رہتا ہے تو رفتہ رفتہ ظاہری حواس یا آنکھ کے ڈیلوں کی حرکات میں ٹھہراؤ واقع ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مادّی آنکھ سے دیکھنے کا عمل ساکت ہو جاتا ہے اور باطنی نظر کام کرنے لگتی ہے۔
ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے اور ڈیلوں کی حرکات کو معطّل کرنے کا دوسرا طریقہ اِرتکازِ توجّہ کی مختلف مشقیں ہیں۔ ان مشقوں میں پلک جھپکائے بغیر کسی ایک نقطے پر نظریں جمائی جاتی ہیں۔ پلک نہ جھپکانے سے آنکھ کے ڈیلوں پر ضرب لگانے کا عمل رک جاتا ہے اور ڈیلے کی حرکات میں سکُوت واقع ہونے لگتا ہے۔ جب متواتر نظریں ایک نقطے پر مرکوز رہتی ہیں تو تصوّر میں اِضمحلال پیدا ہونے لگتا ہے اور اسی مناسبت سے آنکھ کے ڈیلوں کی حرکات کا سکُوت بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس مشق سے نہ صرف ڈیلوں کی حرکات انسان کے قابو میں آ جاتی ہیں بلکہ مشق کرتے ہوئے ڈیلے اس حد تک معطّل ہو جاتے ہیں کہ باطنی نگاہ کام کرنے لگتی ہے۔
اِرتکازِ توجّہ اور مراقبہ کی مشقوں میں فرق یہ ہے کہ مراقبہ میں آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا کہ آنکھ کے پردوں کا دباؤ ڈیلے کی حرکات کے تعطّل میں مدد دے۔ اس کے ساتھ ساتھ بند آنکھوں سے ذہن کو کسی تصوّر پر قائم رکھا جاتا ہے تو یکسوئی کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ اِرتکازِ توجّہ کی دیگر مشقوں میں نگاہوں کو ایک جگہ جما کر، پلک نہ جھپکا کر، ارادے کے ساتھ ڈیلوں کی حرکات کو معطّل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مشق میں اِرتکازِ توجّہ کو نگاہ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 204 تا 206
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔