نماز میں حضورِقلب پیدا ہو
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12806
سوال: ایسی نمازیں جو حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق حضورِ قلب پیدا کریں اور فواحشات، منکرات سے روک دیں کس طرح ادا کی جا سکتی ہیں؟
جواب: نماز کی فرضیت ہمیں حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام سے منتقل ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور پاکﷺ پر نماز کب فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کو نبوت سے پہلے ہی ایسا ذہن عطا فرمایا تھا جس کا رخ نورانی دنیا کی طرف تھا اور نورانی دنیا کی طرف متوجّہ رہنے کے لئے حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے وہ تمام اعمال ترک فرما دیئے تھے جن سے ذہن کثیف دنیا کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔
حضورﷺ کی مقدّس زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی۔ آپﷺ سے کبھی کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوا جو بے حیائی کے زمرے میں آتا ہو۔ آپﷺ نے ہمیشہ بے کَسوں کی دستگیری کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوشہ نشین ہو کر اور ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ رہے اور آپﷺ نے اپنی توجّہ اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی زیادہ مرکوز فرمائی کہ قربت سے سرفراز ہوئے اور معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر اللہ نے بندہ پر وحی نازل فرمائی جو نازل فرمانا تھی دل نے دیکھی ہوئی چیز کو جھٹلایا نہیں۔‘‘ (سورۃ النجم)
نماز میں حضورِ قلب کے لئے ضروری ہے کہ سیدنا حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ جس حد تک حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ پر کسی امّتی کا عمل ہو گا اسی مناسبت سے نماز میں حضوری نصیب ہو جائے گی۔ قلب میں جِلا پیدا کرنے کے لئے ان چیزوں سے دُوری پیدا کرنا ہو گی جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دُور کرتی ہیں۔ ہمیں اس ذہن کو ردّ کرنا ہو گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا ذہن ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کر لیتا اس وقت تک نماز میں حضورِ قلب نصیب نہیں ہوتا۔
روح سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مادّیت سے دلچسپیاں کم کر کے مراقبہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت ذہن کو اللہ کی طرف متوجّہ رکھا جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 195 تا 196
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔