اللہ کا پسندیدہ بندہ
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12735
سوال: آپ کی ایک تحریر کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ ان کے کانوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیتے ہیں۔ مہر لگنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ صفات نہیں رہیں جن سے آدمی اللہ تعالیٰ کی تجلّی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ان کی سماعت میں وہ صفَت نہیں رہی جس کے ذریعے وہ غیب کی آوازیں سنتا ہے۔ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ آنکھوں پر پردہ ڈال دیا یعنی وہ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی ذاتِ اقدس کی زیارت سے مشرف نہیں ہوتا۔
اس حقیقت کی روشنی میں جب ہم اپنے اطراف دیکھتے ہیں تو مذکورہ صفات کے حامل مسلمان (سوائے اوّلیائے کرام کے) نظر ہی نہیں آتے۔ کیا اللہ کا پسندیدہ بندہ بننا اتنا مشکل کام ہے؟َ کیا ہم کسی طرح مذکورہ صفات کے حامل مسلمان بن سکتے ہیں؟
جواب: ایک آدمی آپ کا دوست ہے، آپ اسے اچھی باتیں سمجھاتے ہیں۔ مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ ترغیب دے کر سمجھاتے ہیں۔ اپنی دوستی کے تعلق کے اظہار سے سمجھاتے ہیں لیکن وہ آپ کی بات نہیں مانتا تو آپ کا یہ طرز عمل ہو گا کہ آپ اس بندے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچانے کے لئے انسان کو اپنی نعمتیں عطا کرنے کے لئے، جنّت میں اعلیٰ مقام عطا کرنے کے لئے پیغمبر بھیجے۔ لوگوں نے پیغمبروں کی بات نہیں سنی، ان کے ساتھ دشمنی کی، مخالفت کی، ان کو مارا پیٹا، قرآن کو بُرا بھلا کہا۔ جب کہ کسی پیغمبر نے اپنی ذات کے لئے قوم سے کچھ نہیں مانگا۔ ان کا کام ہی یہ تھا کہ نوعِ انسانی کو عذاب ناک زندگی سے محفوظ کر کے آرام و آسائش کی جگہ جنّت میں بھیج دیا جائے۔ لوگوں نے اسی بات کو جرم قرار دے دیا کہ یہ ہمیں دوزخ سے نکال کر جنّت میں کیوں بھیج رہے ہیں!
اس ضد اور سرکشی پر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ جب تم سننا ہی نہیں چاہتے تو تمہارے کان حق کی بات نہیں سنیں گے۔ جب تم دیکھنا ہی نہیں چاہتے تو تمہاری آنکھیں اب حق اور سچ کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ اور تمہارے لئے اب تمہاری پسند اور انتخاب کے مطابق درد ناک عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لئے رحیم و کریم ہیں۔ اللہ تعالیٰ گناہوں کو عیبوں کو چھپانے والے ہیں اللہ تعالیٰ سرکشی اور گناہ کو معاف کرنے والے ہیں۔ لیکن جب انسان اتنا سرکش ہو جائے کہ اللہ کی رحمت کا بھی مذاق اڑانے لگے اور اللہ کے فرستادہ محبوب بندوں سے کہے ’’کہاں ہے وہ عذاب جس کی تم وعید دیتے تھے وہ آتا کیوں نہیں ہے۔‘‘
ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سامنے آ گئی اور اللہ نے فرمایا:
’’اب جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تمہارے لئے مقرر کر دیا ہے۔‘‘
’’مہر لگا دی اللہ نے دلوں پر اور دبیز پردے لگا دیئے آنکھوں پر اور ان کے لئے درد ناک عذاب کی بشارت ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 182 تا 183
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔