تعویذ کے اندر کونسی طاقت ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12027
سوال: آج کل جبکہ ہر طرف سائنسی ترقی کا دَور دَورہ ہے۔ نت نئے امراض اور اس کا علاج ممکن ہے۔ پھر یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ بہت سی بیماریوں کے علاج میں تمام ڈاکٹر ناکام ہو جاتے ہیں؟ اور وہی بیماری ایک عامل کے تعویذ اور عمل سے ختم ہو جاتی ہے۔ سوال یہ کرنا ہے کہ تعویذ کے اندر وہ کونسی طاقت ہے جس کے ذریعے سے بیماری دور ہو جاتی ہے اس کی علمی اور روحانی تشریح فرما دیں۔
جواب: انسان کے اندر کام کرنے والی ساری صلاحیتوں کا تعلق اور دارومدار ذہن پر ہے۔ ذہن کی طاقت ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتی ہے۔ جہاں شعور بھی ہراساں اور خوفزدہ نظر آتا ہے۔ انسان کی ایجاد کا یہ کتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ایک ایٹم کو اتنا بڑا درجہ دے دیا ہے کہ اس ایک ایٹم سے لاکھوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ایٹم کو لاکھوں اشرف المخلوقات انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔
جس طرح ایٹم میں مخفی طاقتیں موجود ہیں بالکل اسی طرح کائنات کی ہر تخلیق میں مخفی اور پوشیدہ طاقتوں کا سمندر مؤجزن ہے اور ان ساری طاقتوں کی اصل روشنی ہے۔
عملیات اور تعویذ میں بھی یہی روشنی کام کرتی ہے۔ چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے روشنی پر اس کو تصرّف کا اختیار دیا گیا ہے۔ تعویذ میں جو روشنیاں کام کرتی ہیں وہ ذہنِ انسانی کے تابع ہیں لیکن اس کیلئے اجازت لینا ضروری ہے۔ کسی بھی عمل کے صحیح نتائج اس وقت سامنے آتے ہیں جب ہماری صلاحیتیں دلچسپی اور یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔
قانون یہ ہے کہ دلچسپی اور یکسوئی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے روشنیاں بکھر جاتی ہیں یہی حال تعویذ کے اوپر لکھے ہوئے نقوش اور ہندسوں کا ہے۔
کوئی عامل جب تعویذ لکھتا ہے تو وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی ماورائی قوتوں کو حرکت میں لے آتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 124 تا 125
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔