علم کی حیثیت
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12019
سوال: علم کی حیثیت کیا ہے اور یہ نوعِ انسانی میں کس طرح منتقل ہوتا ہے؟
جواب: بحیثیت انسان جب ہم عقل و شعور سے کام لیتے ہیں تو یہ بات ہمارے اوپر پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں یا کائنات میں جو کچھ موجود ہے دراصل اس کی حیثیت علم کی ہے۔ اگر کسی چیز کے بارے میں ہماری عقل یا ہمارا شعور علمی طور پر باخبر ہے تو ہم اس چیز سے براہِ راست یا بالواسطہ متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ علم کی دو حیثیتیں ہیں۔
ایک علم یہ ہے کہ شعور اس سے واقف ہو اور واقفیت کے ساتھ ساتھ وہ چیز وجودی اعتبار سے آنکھوں کے سامنے بھی ہو۔
دوسری حیثیت علم کی یہ ہے کہ وجودی اعتبار سے ظاہرہ آنکھ کے سامنے وہ چیز موجود نہ ہو لیکن نوعِ انسانی کا شعور انفرادی شعور میں منتقل ہو گیا ہو۔
اِن دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت ہو انسان علم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے اس علم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ تعارف میں کہیں راحت سرور اور مسرت کے خاکے نمایاں ہوتے ہیں اور کہیں پریشانی، بے قراری اور اضمحلال موجود ہوتا ہے۔ غم اور خوشی کا جہاں تک تعلق ہے، اُس کی بنیاد بھی علم کے اوپر ہے۔ علم جب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس چیز کے نہ ہونے سے ہمارا نقصان ہے تو ہمارے اوپر تکلیف کی کیفیات مرتّب ہوتی ہیں۔ علم جب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام یا یہ عمل یا یہ چیز ہمارے فائدے کے لئے ہے تو اس علم کے نتیجے میں ہمارے اوپر جو کیفیات مرتّب ہوتی ہیں، ان کا نام ہم خوشی، مسرت، سکون، اطمینانِ قلب وغیرہ وغیرہ رکھتے ہیں۔
یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ آگ ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو ہمیں راحت بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ چونکہ علم میں مثبت اور منفی دونوں رخ موجود ہیں اس لئے آگ سے ہم منفی اور مثبت دونوں قدروں میں متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی سے ہمارے اندر موجود رگوں، پٹھوں اور اعصاب کی سیرابی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ہمارے علم میں موجود ہے کہ اگر پانی اعتدال سے زیادہ ہو جائے تو یہ زمین اور نوعِ انسانی کے لئے بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی سے مثبت اور منفی پہلوؤں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ علٰی ھٰذاالقیاس اس قسم کی مثالیں بے شمار ہیں۔ مختصراً عرض یہ کرنا ہے کہ زندگی کے اندر کام کرنے والے تمام جذبات احساسات میں اسی قسم کی وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ علم کی حیثیت اگر منفی ہے تو دانستہ اور نادانستہ اس سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف یہ ہے کہ وہ پریشان ہوتا ہے۔ اس کی نوع بھی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ علم کی حیثیت اگر مثبت ہے تو اس سے دانستہ یا غیر دانستہ ایسے اعمال ایسی حرکات کا صدور ہوتا ہے جن سے وہ خود بھی راحت محسوس کرتا ہے اور نوعِ انسانی بھی اس کے پرمسرت جذبات سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔ دوسری صورت جو جذبات و احساسات کی تخلیقی حیثیت ہے وہ یہ ہے کہ انسان علم کو معانی پہناتا ہے۔ جس قسم کے وہ علم کے اندر معانی اور مفہوم داخل کر دیتا ہے اسی قسم کے تاثرات اس کے اوپر قائم ہو جاتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 122 تا 123
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔