کیا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان سب مسخر کر دیا؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12006
سوال: کیا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے زمین و آسمان جو کچھ بھی ہے سب کا سب مسخر کر دیا؟
جواب: بنیادی ضروریات میں سب سے اہم ہوا، پانی، دھوپ، چاند کی چاندنی شامل ہیں۔ اگر انسان اپنی ضروریات کا خود کفیل ہے تو اس کے پاس ایسی کونسی طاقت ہے ایسا کون سا علم ہے کہ وہ دھوپ کو حاصل کرسکے پانی کو حاصل کر سکے۔ زمین کے اندر اگر پانی کے سَوتے خشک ہو جائیں تو انسان کے پاس ایسا کونسا علم ہے، طاقت ہے، عقل ہے کہ وہ زمین کے اندر پانی کی نہریں جاری کر دے۔ یہی حال ہَوا کا ہے۔ ہَوا اگر بند ہو جائے، اللہ تعالیٰ کا نظام، وہ نظام جو ہَوا کو تخلیق کرتا ہے اور ہَوا کو گردش میں رکھتا ہے، اِس بات سے انکار کر دے کہ ہَوا کو گردش نہیں دینی تو زمین پر موجود اربوں کھربوں مخلوق ایک منٹ میں تباہ ہو جائے گی، برباد ہو جائے گی۔
یہ کیسی بے عقلی اور ستم ظریفی ہے کہ بنیادی ضروریات کا جب تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا اُس پر کوئی اختیار نہیں ہے اور جب روٹی کپڑے اور مکان کا تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنا اختیار استعمال نہ کیا تو یہ چیزیں ہمیں کیسے فراہم ہوں گی؟
ان معروضات سے منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھ کر کہ میں بے اختیار ہوں ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے۔ اس کے اعضاء منجمد ہو جائیں۔ منشاء صرف یہ ہے کہ زندگی میں ہر عمل اور ہر حرکت کو مِن جانب اللہ سمجھا جائے۔ جدّ و جہد اور کوشش اس لئے ضروری ہے کہ اعضاء منجمد نہ ہو جائیں، آدمی اپاہج نہ ہو جائیں۔ آدمی جس مناسبت سے جدّ و جہد کرتا ہے، جس مناسبت سے عملی اقدام کرتا ہے، بے شک اُسے وسائل بھی اُسی مناسبت سے نصیب ہوتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قانون قدرت پر اُسے دسترس حاصل ہو گئی۔
قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے زمین آسمان اور زمین آسمان کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کو صرف اور صرف مادّی حدود میں استعمال کیا جائے۔ اور دوسرا اَحسن طریقہ یہ ہے کہ وسائل کو اس لئے استعمال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام وسائل انسان کے لئے پیدا کئے ہیں۔
وسائل کی تقسیم اور اللہ تعالیٰ کی رزّاقیت کی تعریف میں غوث علی شاہ نے ایک واقعہ قلم بند کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شہر میں کساد بازاری اس حد تک پہنچی کہ وہاں کے بازار ویران ہو گئے۔ جب کاروبار چلنے کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی تو لوگوں نے اس شہر سے نقل مکانی کرنا شروع کر دی۔ اس کساد بازاری اور نقل مکانی کی وجہ سے شہر میں رہنے والے غریب مزدور نہایت پریشان اور بدحال ہونے لگے۔ ابھی اس مصیبت کا کوئی حل سامنے نہیں آیا تھا اور کوئی بات ایسی نہیں بن رہی تھی کہ بازار کی ویرانی ختم ہو کر دوبارہ گہما گہمی اور ہما ہمی پیدا ہو جائے۔ ایک روز دو سوداگر بازار میں وارد ہوئے اور ان دونوں نے خریداری کرنا شروع کی۔ حد یہ کہ سوئی سے ہاتھی تک ہر چیز کے دام لگ گئے اور بازار میں چہل پہل اور رونق افزوں تر ہو گئی۔ اس خریداری کے نتیجے میں گھوڑے خچر بیل گاڑیاں مزدور ہر شخص متحرّک ہو گیا۔ ان دونوں سوداگروں نے اعلان کیا کہ ہم پورے ایک ہفتے تک خریداری کریں گے اور اپنی ضروریات کی فہرست کو اتنا طویل کر دیا کہ اس شہر کے سوداگروں نے رات دن کوشش کے بعد دوسرے شہروں سے سامان کی فراہمی کا انتظام اور بندوبست کیا۔ اس ایک ہفتے میں ایسا ماحول پیدا ہو گیا کہ یہ شہر ملک کی سب سے بڑی منڈی بن گیا۔ لوگ خوشحال ہو گئے ان کے چہروں پر تازگی آ گئی۔ جو لوگ نقل مکانی کر چکے تھے ان کو جب یہ خبر ملی تو وہ واپس آنے لگے اور جن لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کر لیا تھا انہوں نے ارادہ ملتوی کر دیا۔ مزدور خوشحال ہو گئے اور اضطراب بے چینی افلاس اور بھوک کا دَور دَورہ ختم ہو گیا۔ ایک ہفتے کی خریداری کے بعد مسئلہ سامان اٹھانے کا اور جہاز میں لوڈ کرنے کا پیش آیا۔ لوڈنگ اَن لوڈنگ کے سلسلے میں بھی ایک مخلوق مصروف ہو گئی۔ اور اِس طرح اجڑتا ہوا شہر دوبارہ بس گیا۔
ان دونوں سوداگروں کے ساتھ بڑے میاں بھی تھے جو محنت مزدوری کے سلسلے میں ان کے ساتھ لگ گئے تھے۔ جب خریدا ہوا سارا سامان جہاز میں رکھ دیا گیا تو دونوں سوداگروں نے اس بزرگ مزدور سے کہا۔ اب تمہارا ہمارا ساتھ نہیں رہے گا۔ بوڑھے مزدور نے ان کے ساتھ چلنے پر اصرار کیا اور کہا کہ میں تنہا ہوں آپ لوگوں کی خدمت کروں گا اور آپ کے ساتھ میری زندگی گزر جائے گی۔ سوداگر اور مزدور جہاز میں سوار ہو گئے اور جہاز چلتے چلتے جب سمندر بیچ پہنچا تو ان سوداگروں نے اس جہاز کو سمندر میں ڈبو دیا اور بوڑھے مزدور سے کہا کہ ہم دونوں فرشتے ہیں چونکہ ایک آباد بستی کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو رہی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے یہ انتظام کیا تا کہ بستی دوبارہ آباد ہو جائے اور یہاں کے لوگوں کو ضرورت کے مطابق رزق ملتا رہے۔ یہ کہہ کر وہ دونوں فرشتے غائب ہو گئے اور بوڑھے مزدور کو سمندر کے کنارے پہنچا دیا۔
یہ واقعہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت میں سنا کر میں نے پوچھا کہ کیا صاحبِ تکوین یعنی اللہ تعالیٰ کے انتظام کو چلانے والے بندے اس قسم کے کام کرتے ہیں؟ حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا۔ یہ کام ان لوگوں کے سپرد ہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں‘‘ فی الأرضِ خلیفہ’’ کہا ہے۔ زمین میں اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ اللہ تعالیٰ کے کن اختیارات کو استعمال کر کے اپنے فرائض پورے کرتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے جو اِن شاء اللہ کسی مناسب موقع پر تفصیل سے بتائی جائے گی۔ اس وقت ہمارے پیش نظر إستغناء اور یقین کی تعریف ہے۔ إستغناء اور یقین میں جو بنیادی باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ انسانی زندگی میں ایسے واقعات پَے در پَے صادر ہوتے ہیں جن واقعات کی وہ کوئی توجیہ پیش نہ کر سکے اور نہ ہی ان واقعات کے صُدور میں اس کی کوئی عملی جدّ و جہد اور کوشش شامل ہو۔ غوث علی شاہ نے جس واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے اس واقعہ میں بھی یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ رزق کی فراہمی کا بندوبست در و بست اللہ کے ذمّہ ہے۔ اب اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے کا کوئی بھی طریقہ اختیار کریں۔ ہم ماں کے پیٹ میں بچے کی پرورش، بچے کی زندگی اور بچے کو مستقل طور پر غذا پہنچنے کی مثال پہلے دے چکے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ غذا حاصل کرتا ہے اور اس غذا سے مسلسل اور متواتر اعتدال کے ساتھ، توازن کے ساتھ پرورش پاتا رہتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی عجیب ہے کہ بچے کو غذا پہنچانے کا جو ذریعہ ہے یعنی ماں، اس ذریعے کو بھی غذا پہنچانے میں کوئی ذاتی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ایک ماں کے طور پر غذا کھاتی ہے۔ اس غذا سے بالکل غیر اختیاری اور غیر ارادی طور پر خون بنتا ہے اور یہ خون شریانوں اور رگوں میں دوڑنے کی بجائے بچے کی غذا بنتا رہتا ہے۔ شریانوں اور رگوں کو خون کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اس مقدار میں شریانوں اور وریدوں کو بھی خون فراہم ہوتا رہتا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی پرورش کس ارادے اور کس اختیار کے ساتھ ہو رہی ہے؟
بندے کا اس میں ذرا سا بھی عمل دخل نہیں ہے۔
بچے کی پیدائش کے بعد بچے کو غذا فراہم ہونے کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے۔ وہی خون جو بچے کو ماں کے پیٹ میں براہِ راست منتقل ہو رہا ہے اب دوسرا صاف شفاف طریقہ اختیار کرتا ہے اور یہی خون ماں کے سینے میں بہترین غذا دودھ بن جاتا ہے۔ یہ بات پھر اپنی جگہ اہم ہے کہ خون دودھ کیسے بنا؟ کس نے بنایا؟ اس میں آدمی کا کون سا اختیار کام کر رہا ہے؟ اور یہ بات کیا عجیب نہیں ہے کہ بچے کی پرورش جب مقصود نہیں ہوتی تو ماں کے سینے میں دودھ نہیں اترتا۔ اس کے بعد بچہ دودھ کی منزل سے ذرا آگے بڑھتا ہے تو اسے دودھ کی مناسبت سے کچھ بھاری غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان بھاری غذاؤں کو چبانے اور پیسنے کیلئے قدرت دانت فراہم کرتی ہے۔
دنیا میں کون سا ایسا علم ہے۔ ایسی کون سی سائنس، ایسا کون سا بندہ ہے جو ارادے اور اختیار کے ساتھ ایسا کر سکے؟
جیسے جیسے بچے کی نشوونما بڑھتی ہے اور بچے کے جسمانی نظام کو بھاری اور قوت بخش غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے اس کی آنتیں معدہ اور دوسرے اعضاء اُسی مناسبت سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عقل و شعور کے پاس ایسا کونسا علم ہے جس علم کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مشین کی نقّالی کر سکے… یعنی وہ آنتیں بنا دے معدہ بنا دے، دل پھیپھڑے تخلیق کر دے۔ چونکہ غذاؤں میں کثافت ہے۔ اور یہ غذائیں وہ غذائیں نہیں ہیں جن غذاؤں کو اللہ تعالیٰ نے لطیف کہا ہے تو ان غذاؤں سے نکلی ہوئی کثافت کے اخراج کا بھی اہتمام ہے۔ آدمی اگر اپنے اندر خود کار مشین کا معائنہ کرے تو اس پر بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی میں انسانی اختیار کو اور انسانی علم کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جب انسان کو زندگی گزارنے پر کوئی اختیار نہیں ہے تو پھر یہ جزا اور سزا کے معاملے میں اختیار کیا چیز ہے؟ سزا اور جزا کے معاملے میں اختیار یا بے اختیاری روحانیت کا ایک بہت بڑا باب ہے۔ اس باب کو اگر اس وقت کھول دیا گیا تو إستغناء والے باب کی پوری طرح وضاحت نہیں ہو سکے گی۔ ہم مسلسل اس باب پر بحث کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اس وقت کامل ہوتا ہے جب آدمی کے اندر وہ قوت متحرّک ہو جائے جس قوت کا نام تصوّف نے شُہود رکھا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 105 تا 109
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔