بخیلی اور سخاوت
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11978
سوال: بخیلی اور کنجوسی کا باوا آدم قارون کو کہا جاتا ہے۔ جب کہ سخاوت اچھائی کے لئے حاتم طائی سے کیوں تشبیہ دی جاتی ہے؟
جواب: دنیا کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ثابت ہے جن لوگوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی اور پیغمبروں کو قتل کیا۔ تاریخ کے صفحات میں ایسے لوگوں کا کردار بھی موجود ہے جس کردار میں سخاوت عام ہے اور ایسے کردار بھی موجود ہیں جس کردار میں کنجوسی اور بخیلی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس بات کو مزید تشریح کے ساتھ اس طرح کہا جائے گا کہ کنجوسی اور بخیلی کے کردار کا باوا آدم قارون ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی قارون کی ذُریّت قارون کی اولاد اور قارون کے کردار سے متاثر لوگ موجود رہیں گے۔
سخات کے بیان میں حاتم طائی کا نام لیا جاتا ہے۔ جب تک دنیا موجود ہے حاتم طائی کے کردار کے لوگ یا حاتم طائی کے گروہ کے لوگ بھی موجود رہیں گے۔ دنیا میں پیغمبروں کا کردار بھی موجود ہے۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم خوردبین نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی۔ یعنی وہ ایسے کردار سے مُتصِف ہیں کہ جس کردار میں لطافت حلاوت کے علاوہ کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہو سکتی۔ کردار کے تعیّن کو اگر مختصر کر کے (Short form) میں بیان کیا جائے تو طرزِ زندگی کی دو قدریں قائم ہوتی ہیں۔ اک طرز وہ ہے جس میں آدمی شیطنیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری انبیاء کی طرز وہ ہے جس طرز کے اندر داخل ہو کر آدمی سراپا رحمت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہو جاتا ہے۔ وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔ پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر پیغمبروں کے اَوصاف منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پیغمبروں کے اَوصاف اللہ تعالیٰ کے اَوصاف ہیں یعنی جب کوئی بندہ پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اپنی ذاتی صفات ہیں اور جب کوئی بندہ ان پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ ان طرزوں میں اور صفات میں زندگی گزارتا ہے جو دراصل تاریک کثیف جہالت سے معمور شیطانی طرزیں ہیں۔ شیطانی طرز یہ ہے کہ آدمی کے اوپر خوف و ہراس مسلّط رہتا ہے۔ ایسا خوف و ہراس جو زندگی کے ہر مقام کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہے۔ اس کا دن ہو یا رات وہ ایک خوف میں بسر ہوتا ہے کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کا خوف ہوتا ہے کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہے، کبھی اس پر بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں، کبھی وہ مسائل کے انبار میں اس طرح دب جاتا ہے کہ اسے اس انبار سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ موت جس کو ہر حال آنا ہے اس کے اوپر خوفناک شئے بن کر مسلّط ہو جاتی ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ موت سے کسی بھی طرح رستگاری حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود اس اٹل حقیقت سے گھبراتا رہتا ہے، بھاگتا رہتا ہے۔
شیطانی طرزوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے وہ چند سو گز سے زیادہ کی چیز نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہی چیزیں اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلّط نہیں ہوتا وہ عدم تحفّظ کے احساس سے دور رہتا ہے۔ موت چونکہ ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے وہ مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور جب وہ مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو موت اس کے لئے دنیا کی سب سے زیادہ خوشنما چیز بن جاتی ہے۔ اسے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ موت کوئی بھیانک شئے نہیں ہے بلکہ موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ جس طرح اس رنگ و بو کی دنیا میں وہ زندگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد کے عالم میں وہ کھاتا پیتا ہے، جاگتا ہے، سوتا ہے۔ روحانی اور جسمانی تمام ضروریات پورا کرتا ہے اور یہ بات محض اس کے قیاس میں داخل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شگفتہ زندگی کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ایک طرزِ فکر کے آدمی دوسری طرزِ فکر کے آدمیوں سے ممتاز رہتے ہیں۔
شیطانی طرزِ فکر میں زندگی گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور انبیاء کی طرزِ فکر سے آشنا بندہ شیطانی گروہ میں کبھی داخل نہیں ہوتا۔ شیطانی طرزِ فکر میں ایک بڑی خراب اور لا یعنی بات یہ ہے کہ بندہ ہر عمل اس لئے کرتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ یعنی وہ عمل کرنے کا صلہ چاہتا ہے اور اس صلے کا نام اس نے ثواب رکھا ہے۔ تصوّف ایسے عمل کو جس عمل کے پیچھے کاروبار ہو جس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی غرض وابستہ ہو ناقص قرار دیتا ہے اور یہی انبیاء کی بھی طرزِ فکر ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں اس بات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اچھے لوگوں کے اعمال کی جزا کے سلسلے میں اپنے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے لیکن اس بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ نیک عمل اس لئے کرے کہ اسے اس کا اجر ملے گا اوراسے اس اجر میں زر و جواہرات کے محلّات ملیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 89 تا 91
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔