درست طرزِ فکر کونسی ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11916
سوال: انسان کسی بھی ڈھنگ سے زندگی گزارے اس کے پیچھے ایک سوچ، ایک طرزِ فکر کارفرما ہوتی ہے۔ کیا روحانیت ہمیں کوئی ایسی کسوٹی فراہم کرتی ہے جس سے پرکھا جا سکے کہ کون سی طرزِ فکر درست ہے؟
جواب: معاشرے کو سامنے رکھ کر تفکر کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ معاشرے میں موجود زندگی گزارنے اور زندگی میں سوچ بچار کی طرزیں ایک ہی طرح کام کرتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ آدمی کی سوچ بچار اور مخصوص طرزِ فکر کی بنیاد پر الگ الگ گروہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس گروہ پر کتنا ہی فضل ہو جائے وہ ناشکرا ضرور ہوتا ہے۔ ایک گروہ کی عادت یہ ہے کہ وہ فیاض ہے، سخی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے گروہ کی جبلّت یہ بن گئی ہے کہ وہ بخیل ہے، کنجوس ہے اور اس کے دل میں دولت کی محبت اس حد تک جاگزیں ہے کہ اس کے اوپر دولت کی پرستش کا گمان ہوتا ہے۔ ایک گروہ ایسا ہے کہ اسے اس بات میں خوشی ہوتی ہے کہ وقت ضائع کیا جائے۔
ایک گروہ وعظ و نصیحت سننے کا شوقین ہے، دوسرا گروہ سیاسی تقاریر سننے کا خواہش مند رہتا ہ۔ کچھ لوگوں کو ناچ رنگ کا شوق ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو پینے پلانے کا۔ اور ان لوگوں کے برعکس ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو خوش عقیدہ ہیں اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دینے میں لذّت محسوس کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ زمین پر موجود نوعِ انسانی مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ننانوے فیصدی گروہ کی زندگی اور ان کی طرزِ فکر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ ننانوے فیصدی گروہ شک اور وسوسوں میں مبتلا ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ شک اور وسوسہ کی زندگی سے آدمی کے اوپر غم، خوف اور پریشانی مسلّط ہو جاتی ہے۔
روحانیت ہمیں صحیح طرزِ فکر کی جو کسوٹی فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر غم اور خوف موجود نہ ہو۔ دنیا کی چار ارب آبادی (اُس وقت کی معلوم عالمی آبادی) اپنا محاسبہ کر سکتی ہے۔ ننانوے فیصدی افراد ایسے ملیں گے کہ جن کی ساری زندگی خوف اور غم میں گزر گئی ہے۔
تخلیقی فارمولوں کے سلسلے میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ کوئی تخلیق دو رخ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس تخلیقی قانون کے تحت جس بندے کے اندر شک اور وسوسہ موجود ہے اس بندے کے اندریقین بھی موجود ہے۔ جب کوئی بندہ یقین کی طاقت حاصل کر لیتا ہے تو شک اور وسوسہ والا رخ مغلوب ہو جاتا ہے اور جب کسی بندے پر شک اور وسوسے کا رخ غالب ہو جاتا ہے تو یقین کا رخ مغلوب ہو جاتا ہے۔ بے یقینی کا دوسرا نام شک ہے، شک شیطنت ہے اور شیطنت غم اور خوف ہے۔
انبیاء علیہم السّلام کے بنائے ہوئے قاعدوں اور ضابطوں پر اگر عمل کیا جائے تو شک اور وسوسے کا رخ مغلوب ہو جاتا ہے اور یقین کا رخ غالب ہو جاتا ہے۔ روحانی طرزِ فکر یہی ہے کہ روحانی علوم سکھانے والا استاد یا مرشد قدم بہ قدم چلا کر اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شک اور وسوسہ کا رخ مغلوب ہو جائے اور یقین کا رخ غالب ہو جائے۔
أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ یونس – آیت نمبر 62)
کی زندہ تفسیر بن جائے۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ کے دوست ایسی طرزِ فکر میں زندگی گزارتے ہیں کہ ان کو نہ خوف ہوتا ہے نہ غم۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 45 تا 46
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔