نفس کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11912
سوال: حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ارشاد مبارک ہے: جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ سوال یہ ہے کہ یہ نفس کیا ہے جس کو سمجھ کر ہم اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ جب تخلیق کا تذکرہ فرماتے ہیں اور اپنی خالقیت کا اعلان کرتے ہیں تو کہتے ہی
’’وہی ہے جس نے تمہیں تخلیق کیا ہے نفسِ واحد سے‘‘۔
تصوّف میں اس کا اصطلاحی نام ’’نسبت وحدت‘‘ اور اس کو ایک نقطہ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جس میں تمام کائنات بند ہے۔
بادی النظر میں جب ہم غور کرتے ہیں کہ نفسِ واحد کیا چیز ہے؟ تو عام طرزوں میں یہ کہہ دیا جاتا ہے نوعِ انسانی آدم سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی نفس واحدہ سے مراد آدم ہے۔ یہ طرزِ فکر اور یہ تاویل صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جب آدم کا تذکرہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق آدم کا پتلا سڑی اور بجنی مٹی سے تخلیق ہوا۔ حقیقت میں نفسِ واحدہ جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے تمہیں نفسِ واحد سے تخلیق کیا ہے، وہ نقطہ ہے جو ساری کائنات کی بنیاد ہے اور اس نقطہ میں کائنات کا ایک ایک ذرّہ ریکارڈ ہے۔ کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی اپنے اندر موجود اس نقطہ سے واقف ہو جائے اور اس کی نگاہ اس نقطہ کے اندر کام کرنے لگے۔
اسی نقطہ کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان اور حضور اکرمﷺ کے ارشاد پر تفکر کیا جائے تو اس کے معانی اور مفہوم اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اور ہم ان دونوں میں باہمی ربط موجود پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے تمہیں تخلیق کیا نفسِ واحد سے اور حضور اکرمﷺ اس نفس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب عرفان نفس کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ہم ان قرآنی آیات کو جس میں عرفان نفس کے متعلق واضح اور روشن ہدایات موجود ہیں۔ متشابہات کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ کتاب جس میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں اور متقی لوگ وہ ہیں۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی غیب ان کے مشاہدے میں ہوتا ہے۔ ان حضرات کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ان کی عام طرزِ فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں، یہ بات ہمارا یقین ہے۔ یعنی یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ ہر بات، ہر کام، ہر عمل، ہر حرکت خواہ وہ ابتداء ہو یا انتہا، ظاہر ہو یا چھپی ہوئی سب اللہ کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے عملدرآمد ہونے میں براہِ راست اللہ تعالیٰ کی مشیئت کا عمل دخل ہے۔
یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے اور یہ لہریں نور کے اوپر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زمین اور آسمان اللہ کا نور ہیں۔ تخلیق کی ایک حیثیت نورانی ہے۔ اور دوسری حیثیت روشنی ہے۔ ان لہروں اور تخلیق کے نورانی وصف کو تلاش کرنے کے لئے اہل اللہ نے انسانی شعور کی مناسبت سے قاعدے اور ضابطے بنائے ہیں اور ایک نقطہ کو تقسیم کر کے چھ کر دیا ہے۔ تا کہ ایک مبتدی سالک آسانی سے سمجھ سکے۔ اس ایک نقطہ کے چھ حصوں کی تقسیم کا نام تصوّف میں لطائف ستہ یا چھ لطیفے رکھا گیا ہے۔ پانچ لطیفوں کو چھوڑ کر آخری چھٹا لطیفہ جس کو اخفیٰ کا نام دیا گیا ہے، ہر انسان کے اندر نفسِ واحدہ ہے یہی وہ نقطہ ہے جو اللہ کا گھر ہے جس میں اللہ بستا ہے اور جس پر براہِ راست اللہ کی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس میں داخل ہونے کے بعد کائنات صحیح معنوں میں انسان کے لئے تسخیر ہو جاتی ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سمجھ لیتا ہے کہ ہم نے مسخر کر دیا سب کا سب تمہارے لئے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں، یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ تمہارا محکوم ہے۔ اور تم اس کے حاکم ہو۔ اس ارشاد کی مزید تفصیل یہ سامنے آتی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے سورج کو مسخر کر دیا، چاند کو مسخر کر دیا، ستاروں کو مسخر کر دیا۔ مسخر ہونے کا یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ چاند اور سورج کو اللہ تعالیٰ نے ایک ڈیوٹی تفویض کی ہے اور یہ بات ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ مخلوق کی خدمت کریں۔ چاند ہو، سورج ہو، ستارے ہوں، نباتات ہوں یا جمادات ہوں، پانی ہو یا گیس، چرندے ہوں یا پرندے سب انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ یہ مسخر ہونے کی تعریف میں نہیں ہوتا۔ مسخر ہونا، کسی چیز پر حاکمیت قائم ہونا، یہ معنی رکھتا ہے کہ اس چیز پر تصرّف کیا جا سکے۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ نوعِ انسان چاند اور سورج کے تصرّف میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اگر چاند اور سورج اپنا تصرّف ختم کر سکتے ہیں تو زمین کا وجود باقی نہ رہتا۔ مثلاً یہ کہ ہم دھوپ کے محتاج ہیں اور ہم اس بات کے بھی محتاج ہیں کہ چاند اپنی روشنی سے ہماری فصلوں کو پروان چڑھائے۔ ہمیں چاند اور سورج پر کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 42 تا 45
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔