روحانیت میں سب سے پہلے کیا ضروری ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11873
سوال: بتایا گیا ہے کہ تصوّف یا روحانیت کا منشاء بندے کو غیب کی دنیا سے متعارف کرانا اور اس دنیا میں داخل کر دینا ہے۔ اس راستہ پر چلنے والے کسی مبتدی کے لئے سب سے پہلے کیا چیز ضروری ہے؟
جواب: لامتناہی اور غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمارے اندر اس دنیا کی موجودگی کا یقین ہو۔ یقین ہونا اس لئے ضروری ہے کہ کیونکہ بغیر یقین کے ہم کسی چیز سے استفادہ نہیں کر سکتے۔
پانی پینے سے پیاس اس لئے بجھ جاتی ہے کہ ہمارے یقین کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ پانی پیاس بجھا دیتا ہے۔ ہم زندہ اس لئے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ جس وقت اور جس لمحہ اور جس آن زندگی سے متعلق یقین ٹوٹ جاتا ہے آدمی مر جاتا ہے۔ تفکر کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہماری زندگی اور ہماری زندگی کا ہر عمل یقین کے اوپر قائم ہے۔ کسی آدمی کے ذہن میں یہ بات آ جائے اور یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ اگر میں گھر سے باہر قدم نکالوں گا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا تو گھر کے افراد کتنا ہی یقین دلائیں کہ تمہارا ایکسیڈنٹ نہیں ہو گا، وہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ اسی طرح اگر کسی آدمی کے اندر یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ کھانا کھانے کے بعد بیمار ہو جاؤں گا۔ تو وہ کھانا نہیں کھائے گا۔
مختصر یہ کہ آدمی کی زندگی کا ہر قدم یقین کے دائرے میں محدود ہے۔ یہ تذکرہ اس زندگی کا ہے جو عارضی اور مفروضہ ہے یعنی ایسی زندگی جس کا تعلق اس گوشت پوست سے ہے جو بالآخر مٹی بن جاتا ہے۔ مفروضہ اور فکشن زندگی میں جب یقین کو یہ درجہ حاصل ہے تو غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے یقین کا حاصل ہونا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ جب تک کسی بندے کے اندر یہ یقین پیدا نہ ہو جائے کہ فرشتہ موجود ہے، وہ فرشتہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ یقین کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ جب آدمی کا ذہن یقین کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ چیز جس کے بارے میں ذہن نے یقین کا درجہ حاصل کر لیا ہے سامنے آ جاتی ہے۔
اگر فی الواقع ہمارے اندر فرشتے کے تشخّص کا یقین پیدا ہو جائے تو ہم فرشتے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کا یقین مستحکم ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جائے گا۔
سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی ذاتِ اقدس و اطہر کے بارے میں فی الواقع ہمارے اندر یقین پیدا ہو جائے تو ہم حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے ہیں اور ہماری یہ گناہ گار آنکھیں حضورﷺ کا دیدار اسی طرح کر لیتی ہیں جس طرح فکشن اور مفروضہ حواس میں رہتے ہوئے کسی چیز کو دیکھتے ہیں۔
یقین ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جس میں ہر قدم پر آدمی کی نفی ہو جاتی ہے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ اللہ ابتدا ہے، اللہ انتہا ہے، اللہ ظاہر ہے، اللہ چھپا ہوا ہے، اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔ اللہ قادر مطلق ہے۔ اللہ پیدا کرتا ہے۔ اللہ وسائل فراہم کرتا ہے، اللہ حفاظت کرتا ہے، جب تک چاہتا ہے اس دنیا میں رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے بلا لیتا ہے۔
زندگی کا محاسبہ کیا جائے تو زندگی کے کسی بھی عمل اور زندگی کے کسی بھی رخ میں ہم اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا آنا بھی اللہ کی طرف سے ہے اور ہمارا جانا بھی اللہ کی طرف سے ہے۔
اس یقین کو حاصل کرنے کے لئے حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے وارث اولیاء اللہ نے ضابطے، قاعدے اورفارمولے بنائے ہیں۔ یہ ضابطے، قاعدے اور فارمولے قدم قدم چلا کر انسان کے اندر یقین کی وہ دنیا روشن کر دیتے ہیں جس یقین کے اوپر غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا دارومدار ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 36 تا 38
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔