یہ تحریر 简体中文 (چائینیز) میں بھی دستیاب ہے۔
گیارہ ہزار اسمائے الٰہیہ
مکمل کتاب : روحانی نماز
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6934
انسان کے اندر پورے تقاضوں اور جذبات کے ساتھ دو حواس کام کرتے ہیں۔ ایک طرح کے حواس خواب میں اور دوسری طرح کے حواس بیداری میں کام کرتے ہیں۔ ان دونوں حواس کو اگر ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو ان کی تعداد گیارہ ہزار ہوتی ہے۔ اور ان گیارہ ہزار کیفیات یا تقاضوں کے اوپر ہمیشہ ایک اسم غالب رہتا ہے۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کر رہے ہیں ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے اور ان گیارہ ہزار اسماء کو جو اسم کنٹرول کرتا ہے وہ اسم اعظم ہے۔ ان گیارہ ہزار اسماء میں سے ساڑھے پانچ ہزار اسماء خواب میں کام کرتے ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا ہے۔ تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈمنسٹریشن (Administration) کو چلانے والے حضرات یا صاحب خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔
اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جو کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر تخلیقی قدریں رکھتا ہے۔ تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا قانون ہے۔
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ
اور یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنات اور فرشتوں میں زندگی اور زندگی کی تمام تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہی فیضان جاری ہے کہ کائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور وابستہ ہے۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ نور کی یہ لہریں ایک لمحہ میں روشنی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی لہریں ہم تک بے شمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ہم ان ہی تصویر خانوں کا نام واہمہ، خیال، تصور اور تفکر رکھ دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“لوگو! مجھے پکارو، میں سنوں گا۔ مجھ سے مانگو، میں دوں گا۔”
کسی کو پکارنے یا مانگنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ہستی کا تعارف ہمیں حاصل ہو۔ اور ہم یہ جانتے ہوں کہ جس کے آگے ہم اپنی احتیاج پیش کر رہے ہیں وہ ہماری احتیاج پوری کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس بات پر یقین کرنے کے لئے ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ وہ کون سی ذات والا صفات ہیں جس سے ہم روزانہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ خواہشات پوری کرنے کی تمنا کریں تو وہ پوری کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذات یکتا اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا تذکرہ اپنے ناموں سے کیا ہے۔
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں پس ان اچھے ناموں سے اُسے پکارتے رہو۔
سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ایمان والو! اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح و شام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔ جو لوگ ان خزانوں سے واقف ہیں، جب وہ اللہ کا نام ورد زبان کرتے ہیں تو ان کے اوپر رحمتوں اور برکتوں کی بارش برستی ہے۔ عام طور پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام مشہور ہیں۔ اس بیش بہا خزانے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر نام کی تاثیر اور پڑھنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔
کسی اسم کی بار بار تکرار سے دماغ اس اسم کی نورانیت سے معمور ہو جاتا ہے اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کے اسم کے انوار دماغ میں ذخیرہ ہوتے ہیں اسی مناسبت سے بگڑے ہوئے کام بنتے چلے جاتے ہیں اور حسب دلخواہ نتائج مرتب ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن جس طرح اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح گناہوں کی تاریکی ہمارے اندر روشنی کو دھندلا دیتی ہے۔ کوتاہیوں اور خطاؤں سے آدمی کثافتوں، اندھیروں اور تعفن سے قریب ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کے نور سے دور ہو جاتا ہے۔
جب کوئی بندہ جانتے بوجھتے گناہوں اور خطاؤں کی زندگی کو زندگی کا مقصد قرار دے لیتا ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر بن جاتا ہے۔
“مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کانوں پر اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔”
اللہ تعالیٰ کا ہراسم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت قانون قدرت کے تحت فعال اور متحرک ہے۔ ہر صفت اپنے اندر طاقت اور زندگی رکھتی ہے جب ہم کسی اسم کا ورد کرتے ہیں تو اس اسم کی طاقت اور تاثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں اور پُرخطا طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔
ہم یہ بات جانتے ہیں کہ علاج میں دوا کے ساتھ پرہیز ضروری ہے اور بدپرہیزی سے دوا غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ کوتاہیوں اور خطاؤں کے مرض میں جو پرہیز ضروری ہے وہ یہ ہے:
حلال روزی کا حصول، جھوٹ سے نفرت، سچ سے محبت، اللہ کی مخلوق سے ہمدردی، ظاہر اور باطن میں یکسانیت، منافقت سے دل بیزاری، فساد اور شر سے احتراز، غرور اور تکبر سے اجتناب۔ کوئی منافق، سخت دل، اللہ کی مخلوق کو کمتر جاننے والا اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والا بندہ اسمائے الٰہیہ کے خواص سے فائدہ نہیں حاصل کر سکتا۔
کسی اسم کا ورد کرنے سے پہلے مذکورہ بالاصلاحیتوں اور اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے۔ بیان کردہ علاج اور پرہیز کے ساتھ آپ کو یقیناً اسمائے الٰہیہ کے فوائد و ثمرات اسی طرح حاصل ہونگے جس طرح ہمارے بزرگ مستفیض ہوتے رہے ہیں اور اب بھی انہیں فائدے پہنچتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 168 تا 173
یہ تحریر 简体中文 (چائینیز) میں بھی دستیاب ہے۔
روحانی نماز کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔