گوالہ زندہ ہوگیا
مکمل کتاب : تذکرہ بابا تاج الدینؒ
مصنف : قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14820
گلا ب سنگھ نے نانا تاج الدین ؒ کی چائے کے لئے ایک بھینس کا دودھ وقف رکھا تھا۔ اکثر خود ہی دودھ لے کر آتا اور چھان کر جوش کرنے کے لئے رکھ جاتا۔ وہ سن ۱۱؍سے یہ خدمت انجام دیتاتھا۔ سن ۱۷؍کی برسات میں ایک صبح دودھ نہیں آیا۔
نانا نے دن چڑھے تک انتظار کرنے کے بعد حیات خاں سے کہا ۔’’کیا آج چائے نہیں ملے گی؟‘‘
حیات خاں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔’’میں تو بہت سویرے سے گلاب سنگھ کا انتظار کر رہاہوں۔ معلوم نہیں کیا بپتا پڑگئی۔ ابھی تک وہ دودھ نہیں لایا۔ حکم ہوتو بازار سے لے آؤں۔‘‘
نانا بگڑ کر بولے ۔’’پھر تونے اس کی خبر کیوں نہیں لی؟ جا کے آ۔‘‘ حیات خاں گاؤں کی طرف دوڑا۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر گلاب سنگھ کی ارتھی پر پڑی۔ لوگ کریاکرم کے بندوبست میں لگے ہوئے تھے۔ اس نے ایک آواز سنی۔ بابا صاحبؒ کا گوالہ مرگیا۔‘‘
حیات خاں پریشان ہوکر الٹے پاؤں دوڑا۔
نانا تاج الدینؒ راستے میں اس کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر گلوگیر آوازمیں بولا۔’’گلاب سنگھ مرگیا۔‘‘
نانا یہ سن کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ حیات خاں اور چند آدمی ان کے ساتھ تھے۔ آنکھوں سے جلال برس رہاتھا۔ ارتھی کے قریب پہنچ کر انہوں نے پکارنا شروع کیا۔’’گلاب سنگھ! گلاب سنگھ! ‘‘
بہت غصہ میں ہجوم سے بولے۔’’اسے کھول دو، یہ زندہ ہے۔‘‘
اس کے بھائی نے دوڑ کر ارتھی کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں۔ آن کی آن میں گلاب سنگھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
دوسرے دن گلاب سنگھ حسبِ معمول دودھ لے کرآیا تو لوگوں نے اسے گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
اب سنئے گلاب کی کہانی اس کی اپنی زبانی۔
’’بوندوں میں بھیگنے سے مجھے تپ چڑھ گئی۔ بدن جلنے لگا۔ کچھ لوگ اڑتے ہوئے آئے اورمجھے اس دنیا سے دوسری دنیا میں لے گئے۔ میں کئی گھنٹے تک ایک ہرے بھرے میدان میں گھومتا رہا۔ اس کے دوراستے تھے۔ ایک راستہ کانٹے دار جنگل میں گم ہوگیا اور دوسرے راستے میں آبادیاں تھیں۔ چلتے چلتے میں ایسی جگہ پہنچاجہاں بہت سی عدالتیں لوگوں سے بھری پڑی تھیں۔ انہی عدالتوں میں اونچی کرسی کی ایک عمارت دیکھنے میں آئی۔ جس کے دروازے بڑے بڑے تھے۔
میں نے دیکھا باباصاحبؒ ایک دروازے میں کھڑے کچھ سوچ رہے ہیں۔ پھر وہ محراب کی طرف بڑھے۔ یہاں تخت پر دو جگ کے تاج دار، انبیاء کے سردار (صلی االلہ علیہ وسلم )تشریف رکھتے تھے۔ بابا صاحبؒ تخت کے سامنے ٹھہر گئے۔ اورسرجھکاکر درخواست کی۔
’’میرے آقا! گلاب سنگھ کی واپس کاحکم دیا جائے۔‘‘
’’نہیں‘‘ بارگاہِ نبوی سے ارشاد ہوا۔
بابا صاحبؒ پھر سوچ میں پڑگئے۔ چند منٹ بعد ہونٹوں کو جنبش دی۔
’’اگر یہ درخواست قبول نہیں ہو سکتی تو غلام حضور کے بخشے ہوئے پیرہن کا مستحق نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر باباصاحبؒ کرتہ اتارنے لگے۔
سرورِ کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک نظر دیکھ کر فرمایا۔
’’گلاب سنگھ! تم جا سکتے ہو۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 223 تا 225
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔