پہاڑ نے حکم مانا
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12978
حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک بار کوہ نبیر پر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ تھے۔ کوہ نبیر ہلنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر لڑھک کر دامن کوہ میں جاگرے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کوہ نبیر کو ٹھوکر لگا کر فرمایا، ’’اے نبیر! ساکن رہ، تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان سنتے ہی کوہ نبیر ساکت ہوگیا۔
**********************
زمین کی تخلیق سے متعلق دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق زمین ابتدا میں سورج کا حصہ تھی، جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر سورج سے علیحدہ ہوگئی۔ دوسرا نظریہ بگ بین کی تھیوری ہے۔ دونوں نظریات کے مطابق زمین نے رفتہ رفتہ بیضوی شکل اختیار کرلی ہے۔
قطبین اور خط استواء پر کرۂ ارض کا ڈایا میٹر الگ الگ ہے۔ خط ِاستواء پر زمین کا ڈایا میٹر ۶۳۷۸کلومیٹر ہے اور قطبین پر زمین کا ڈایا میٹر ۶۳۵۶کلومیٹر ہے۔ زمین ۲۳۰۵ ڈگری زاویے پر جھکی ہوئی ہےاور تقریباً ۲۴ گھنٹوں میں گھوم جاتی ہے۔ اس گردش سے دن رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد ایک چکر ایک سال میں پورا کرتی ہے اور اس حرکت سے موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ زمین کی ساخت، جھکاؤ، پھیلاؤ، گردش اور ترتیب و توازن، قدرت کی معین کردہ مقداروں کا بہترین شاہکار ہے۔ سائنس دانوں کے خیال میں اگر زمین کا جھکاؤ ۲۵ ڈگری پر ہوتا تو قطبین پر جمی ہوئی برف پگھل کرسمندروں میں آجاتی اور اگر جھکاؤ ۲۲ ڈگری پر ہوتا تو یورپ قطب شمالی کی برف سے ڈھک جاتا۔ زمین محوری گردش ۲۴گھنٹے مین پوری کرتی ہے اگر زمین محوری گردش ۳۰ گھنٹوں میں پوری کرتی تو تیز ہوائیں چلتیں اور ان طوفانی ہوائوں سے زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی۔ اگر محوری گردش کا دورانیہ ۲۴ گھنٹوں کے بجائے۲۰گھنٹے ہوتا تو زمین خشک اور بنجر بن جاتی۔ زمین کے اندر ایک سیال مادّہ ہے۔ جس کے ارد گرد مختلف اقسام کی ٹھوس تہیں ہیں۔ زمین کے قطر کا اکثر حصہ پگھلی ہوئی دھاتوں اور چٹانوں پر مشتمل ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین پر ہر سال کم و بیش دس لاکھ زلزلے آتے ہیں۔ زیادہ زلزلے غیر آباد علاقوں میں آتے ہیں۔ تقریباً چالیس ہزار زلزلے سائنسی آلات کے بغیر انسان محسوس کر سکتا ہے۔
آتش فشانی زلزلے زمین کے نیچے ابلتے ہوئے سیال مادّے کے باہر نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ گرم لاوہ دہانے کے گرد مخروطی شکل کا تودہ بنا دیتا ہے ۔ اسے آتش فشاں پہاڑ کہتے ہیں۔ زمین کے اندر گرم سیال مادّہ زمین کی اوپری سطح کی طرف آتا رہتا ہے۔ جب کسی طرح سے پانی اس مادّہ تک پہنچ جائے تو وہ بھاپ بن جاتا ہے۔ آتش فشاں سے نکلنے والے بخارات میں سب سے زیادہ کثرت بھاپ کی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاپ ہی وہ بنیادی اور متحرک قوت ہے جو دوسرے مادّوں اور گیسوں کو زور سے باہر دھکیلتی ہے۔ ان مادّوں میں کلورین گندھک، پگھلا ہوا لوہا اور گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ عام ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زلزلہ کی آمد سے قبل اراضی تہوں میں لہریں اور آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ جو انسان نہیں سن سکتا۔ جانور مثلاً چوپائے، پرندے، مچھلیاں اور حشرات الارض سن لیتے ہیں اور ان کے روّیوں میں غیر معمولی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ زلزلے کی قوت اور تباہ کاری کی پیمائش سیزموگراف یا زلزلہ نگار نامی آلے سے کی جاتی ہے۔ یہ آلہ زلزلہ کے مرکز سے چاروں جانب پھیلنے والی لہروں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ ایک درجہ زلزلہ کا جھٹکا صرف چند لوگ محسوس کرسکتے ہیں جبکہ بارہ درجے کا زلزلہ انتہائی شدید اور تباہ کن ہوتا ہے۔ فلک بوس عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ بھاری بھرکم اجسام ہوا میں گیند کی طرح اچھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین پر اس جھٹکے کی لہر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
نقصان کے ساتھ ساتھ زلزلوں کے روشن پہلو بھی ہیں۔ گرم پانی کے معدنی چشمے زلزلوں کا تحفہ ہیں۔ شفا بخش اثرات کے حامل ان چشموں کا پانی بہت سے مریضوں کے لئے آبِ حیات ثابت ہوا ہے۔ زلزلوں سے معرضِ وجود میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں سے چٹانوں کے نشیب و فراز بدل جاتے ہیں اور آبشار اور جھرنے زمین کی رونق میں اضافہ کرنے لگتے ہیں۔ زلزلوں سے زمین کے اندر سے بہت سی کار آمد معدنیات سطحِ زمین پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔
سورہ رحمٰن میں ہے:
‘‘ اے گروہِ جنات اور گروہِ انسان! تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔‘‘
سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ کوئی انسان زمینی شعور میں رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرلے تو وہ زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے۔
آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے سات مزید شعوروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب انسان ان سات شعوروں کی پہچان کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی صفات کا عارف بن جاتاہے۔ صفات کا عرفان حاصل کرنے کے لئے سالک تیرہ شعوروں سے گزرتا ہے۔
شعور کی طاقت کا دارومدار زمان پر ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بورڈ کے اوپر گھڑی بنی ہوئی ہے، گھڑی کے درمیان سوئی لگی ہوئی ہے۔ گھڑی میں بارہ ہندسے بنے ہوئے ہیں۔ ایک سے بارہ تک ہندسے اسپیس ہیں اور گھڑی کا گھومنا ٹائم ہے۔ اگر سوئی کو اتنی رفتا ر سے گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے چھ کے ہندسے پر پہنچ جائے تو زمین پر موجود شعور جو اسپیس میں بند ہے، پردے میں چلا جائے گا اور انسان کو وہ سلطان حاصل ہو جائے گا جس سلطان کے ذریعہ وہ زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے اور جب سوئی کو اس طرح گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے کے وقت سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو انسان کو وہ سلطان حاصل ہو جائے گا جس کے ذریعہ وہ زمین اور آسمان کے کناروں سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سوئی جو بارہ پر قائم ہے۔ اچھل کر ایک پر آجائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسے وہ شعور حاصل ہو گیا جو وہ پیدائش سے لے کر موت تک استعمال کرتا ہے۔ اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے بہ یک وقت دو پر آجائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے۔ اگر سوئی بہ یک وقت بارہ سے اچھل کر تین پر آجائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہو جاتا ہے اگر سوئی بہ یک وقت چار پر آجائے تو اسے وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں اور یہ وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔ اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی اتنی تیزی کے ساتھ حرکت کرے کہ وہ ایک دم پانچ پر آجائے تو انسان کے اوپر کشف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اگر یہی سوئی یکدم چھ پر آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے جس کو قرآن نے سلطان کہا ہے۔ یعنی اب انسان زمین کے کناروں سے باہر دیکھ سکتا ہے۔ زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے حامل سالک کے اندر اگر بارہ پر قائم سوئی بہ یک وقت سات پر آجائے تو اس کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ اعلی ہذا القیاس اسی طرح سات آسمانوں کو وہ دیکھ بھی لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ کریم نے فرمایا ہے :
ترجمہ :
’’ ہم نے آسمان اور زمین کو تہہ در تہہ بنایا ہے۔‘‘
سورہ الطارق میں ارشاد ہوا ہے:
ترجمہ:
’’ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے۔‘‘
سورۃ المومنون آیت نمبر ۱۷ میں ہے:
ترجمہ:
’’ اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے۔ تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔‘‘
تہہ در تہہ سے مراد دراصل وہ شعوری صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہیں۔ سات تہوں والے آسمانوں یا زمین سے مراد یہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر نظام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ایسا ضابطۂ حیات جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا۔ ان سب کا رشتہ خالقِ کائنات کے ساتھ قائم ہے۔ تمام چیزیں جو سات آسمانوں میں اور زمینوں میں ہیں سب اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمدو ثنا بیان کرتی ہیں اور شکر اد اکرتی ہیں۔ اربوں کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے انحراف کرے تو نظام میں خلل واقع ہوجائے گا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔
قانون یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ماضی سے آتا ہے اور جب وہ دوبارہ ماضی میں پلٹتا ہے تو سوئیوں کی گردش Reverse ہوجاتی ہے۔ جب تک انسان چھ دنیاوی شعور یا چھ دائروں میں رہتا ہے اسکے اوپر مکاّنیت (Space) کا غلبہ رہتا ہے اور جب انسان چھ شعوروں سے نکل کر ساتویں شعور میں داخل ہوتا ہے تو گیارہویں شعور تک اس کے اوپر زمانیت (Time) کا غلبہ رہتا ہے، مکانیت مغلوب ہوجاتی ہے۔
زمین آسمان میں موجود ہر شئے شعور رکھتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہے کہ رحمۃ اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کائنات کی ہر شئے محکوم ہے۔ پہاڑ کے اوپر جیسے ہی سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے تو محکوم پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری و ساری حاکمیت کے رعب سے ہلنے لگا۔ یعنی اس پر زلزلہ آگیا۔ زلزلہ کے معنی ہیں زور سے ہلا دینا۔
ترجمہ:
’’ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی ‘‘۔( الزلزال)
ترجمہ:
’’ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔ تو کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ وہ تہہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ ہو جائیں گے جیسے اڑتا ہوا غبار ۔‘‘ ( الواقعہ)
پہاڑ میں شعور ہے۔ قرآن پاک اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
ترجمہ:
’’ اور ہم نے اپنی امانت پیش کی آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر، سماوات، ارض اور پہاڑوں نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہوسکتے‘‘۔
کسی چیز کے بارے میں انکار یا اقرار اس بات کی علامت ہے کہ اس شئے کے اندر شعور ہے۔ جس طرح کوئی ایک فرد اپنے شعور کو نہیں دیکھ سکتا اور شعور کی مزاحمت یا شعور کی پسندیدگی کا وزن محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ہم پہاڑوں کو وزنی اور جما ہوا دیکھتے ہیں۔
ترجمہ:
’’ تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئےہیں۔ حالانکہ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘
یعنی پہاڑ کثیف مادّے پر قائم نہیں ہے۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ سے مخاطب ہوکر فرمایا، ‘‘ ٹھہرجا تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں‘‘ تو پہاڑ نے حکم کی تعمیل کی۔ اور وہ ہلنے اور لرزنے سے رک گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 74 تا 83
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔