نورانی پیکر
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18290
سمندر کی اونچی اونچی لہریں زور و شور سے جھاگ اڑاتی کنارے پر آئیں تو یوں لگا جیسے ریت کے ننھے ننھے ذرات میں تحلیل ہو گئیں اور ان چاندی ملے، ذرات نے جب مدافعت کی تو وہ خود بھی لہروں کے ساتھ سمندر میں جا ملے۔ دم توڑتی لہریں واپس ہونے لگیں تو سمندر کی سطح پر تا حد نظر بل کھاتی ہوئی لکیریں بن گئیں۔ محسوس ہوا کہ سمندر کروٹ بدل راہ ہے۔ جیسے جیسے سکون سمندر میں منتقل ہوتا رہا موجوں میں طغیانی آتی رہی اور سمندر طوفان بن کر ساحل کی طرف رواں دواں ہوتا رہا۔ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہیاور کب تک چلتا رہے گا کسی کو معلوم نہیں۔ نومنزلہ برطانوی جہاز کی آٹھویں منزل پر جب میں نے نظر دوڑائی تو جہاز کی تعمیر میں ہر جگہ لوہا نظرآیا، دیواریں لوہے کی، فرش لوہے کے، مستول لوہے کا، حفاظتی کشتیوں میں لوہا، دروازے لوہے کے، سیڑھیاں لوہے کی، لوہے کی بنی ہوئی اس عظیم الشان کاریگری کو دیکھ کر ورائے شعور میں خالق کائنات کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا:
’’اور ہم نے لوہا نازل کیا اور اس میں انسانوں کیلئے بے شمار فائدے ہیں۔‘‘
یہ نو منزلہ لوہے کی عمارت سمندر میں تیر رہی تھی۔ پہلی دوسری اور تیسری منزل میں ٹرک اور کاریں تھیں، چوتھی پانچویں اور چھٹی منزلیں مسافروں کیلئے تھیں۔ ساتویں منزل پر ہوٹل، ڈیوٹی فری شاپ اور کاسینو تھے۔ دو اور چار مسافروں کے لئے دو ہزار کیبن تھے۔ ہر کیبن ایک مکمل گھر تھا۔ کپڑے رکھنے کیلئے کافی بڑی الماری، سنگھار دان، کھانے کی میز، ٹھنڈے گرم پانی کا باتھ روم، نہایت آرام دہ برتھ، برتھ کے سر ہانے مطالعے کے لئے روشنی کا انتظام، دھلے ہوئے تولئے، پانی پینے کیلئے گلاس، غرض اس کمرے میں ہر وہ چیز موجود تھی جس کی سفر میں ضرورت ہو سکتی تھی۔ آٹھویں منزل پر آڈیٹوریم، نویں منزل پر کانفرنس روم اور دھوپ سینکنے کے لئے عرشے پر بڑے بڑے صحن جس میں نہایت سلیقے سے جہاز کے رنگ سے مناسبت رکھتی ہوئی سفید کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔
اللہ کی آواز آئی:
’’اے میرے بندے! دیکھ اس قوم نے ہماری آیت پر غور و فکر کیا، ہم نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کر دیا تا کہ تم اس میں کشتیاں چلاؤ اور ہم نے اس تفکر کو قبول کر کے ان کے اندر ایجاد کی صلاحیت کو بیدار کر دیا۔‘‘
میری آنکھوں سے نور کے موتی رخساروں سے گزرتے ہوئے جب لوہے کے فرش سے ٹکرائے تو میں نے دیکھا کہ اس نو منزلہ فائیو اسٹار ہوٹل کے من میں آگ بھڑک اٹھی۔ جہاز نے ایک آہ بھری اور یہ آگ دھواں بن کر چمنی کے راستے آسمان کی طرف بلند ہوئی اور فضاء میں پھیل گئی۔ فضاء میں فرشتوں کی نورانی ٹولہ کو یہ کہتے سنا اللہ نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا:
’’اور دھویں کو حکم دیا کہ داخل ہو جا مرضی سے یا مرضی کے بغیر، دھویں نے کہا میں تو آپ کا تابعدار ہوں۔‘‘
دھواں دھواں دل، بھیگی بھیگی پلکوں عرشہ پر کھڑا میں یہ سب دیکھتا رہا۔ بھونچال میں جہاز ڈولنے لگا تو دماغ میں بھی بھونچال آ گیا۔ اندر کی آنکھ نے اندر ایک مورتی دیکھی، من میں میل نہ ہو تو دل آئینہ کی طرح ہو جاتا ہے۔ باہر اندر، یہاں وہاں ہر سمت اللہ ہی تو ہے۔ دل نے اپنے اندر بہتر ہزار ٹائم اسپیس کی گہرائی کے وقفوں میں نورانی پیکر سے پوچھا کہ:
’’سمندر کی موجوں میں یہ بے قرار کیوں ہے۔‘‘
نورانی پیکر بولا۔
’’سمندر کی موجیں اپنے مرکز سے جدا ہو گئی ہے۔ یہ بے قراری اس لئے ہے کہ وہ دوبارہ اپنے مرکز سے گلے ملنا چاہتی ہیں۔‘‘
سمندر سے موجیں ساحل کی طرف بڑھتی ہیں، ساحل پر جبیں سائی کرتی ہیں تو مرکز سے دور ہو جاتی ہیں تو سارا زور سارا طوفانی ولولہ اور توانائی ساحل پر منتشر ہو جاتی ہے۔ موجیں دوبارہ سمندر کے مرکز میں بانہوں میں بانہیں ملانے کے لئے واپس ہوتی ہیں۔ روح کی بے قراری کے ساتھ موج کی روح مرکز میں جذب ہونا چاہتی ہے۔
یہی حال کائنات کی اصل روح کا بھی ہے، ازل میں خالق سے جو دوری واقع ہوئی تھی، روح اس دوری کو ختم کرنے اپنے محبوب سے دوبارہ ہم آغوش ہونے کے لئے سمندر کی موجوں کی طرح بیقراری کے عالم میں صعود سے نزول کرتی جب زمین کی چھاتی سے ٹکراتی ہے تو بکھر کر، ٹوٹ کر نئے نئے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
روح چاہتی ہے جیسے بھی نئی نئی تصویروں میں جلوہ گر ہو کر دوبارہ خالق کائنات کی گود میں سمٹ جائے۔ اپن یاصل کی طرف ٹوٹ جائے، وہ اصل جو ازل سے ابد تک رہے اور ہمیشہ رہے گی اور جس کو کبھی زوال نہیں۔ جس طرح زندگی بولتی ہے، سنتی ہے، محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح روح بھی بولتی ہے، سنتی ہے، محسوس کرتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 67 تا 69
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔