مٹی خلاء ہے۔۔۔
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11264
قرآن حکیم میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجنی اور کھنکھناتی فرمایا ہے یعنی خلاء مٹی کے ہر ذرے کی فطرت (Nature) ہے۔
سوال: انسان کیا ہے؟
جواب: عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ انسان محض گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنا ہوا جسم ہے۔ اس کی تمام دلچسپیاں اور توجہ مادی جسم پر مرکوز رہتی ہیں اور وہ اپنی توانائی اس جسم کو پروان چڑھانے اور آسائش بہم پہنچانے میں استعمال کرتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل انسان گوشت پوست کا جسم نہیں بلکہ اصل انسان وہ ہے جو اس جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ یہ اصل انسان جو مادی جسم کو سہارا دیتا ہے “روح” ہے۔
عظیم روحانی سائنسدان حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے کتاب “لوح و قلم” میں اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
“ہم اپنے مادی جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتے ہیں۔ لباس خواہ اونی ہو، سوتی ہو، نائیلون کے تاروں سے بنا ہواہو یا ریشم سے بنا ہوا ہو جب تک گوشت پوست کے جسم پر موجود ہے اس میں حرکت رہتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آدمی ہاتھ ہلائے اور قمیض کی آستین نہ ہلے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قمیض کو چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کے اندر حرکت اسی طرح پیدا ہو جس طرح زندہ جسم کی حرکت کے ساتھ لباس میں حرکت ہوتی ہے۔”
اصل بات یہ ہے کہ لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔ سوتی یا اونی یا کھال سے بنائے ہوئے لباس میں ذاتی حرکت نہیں ہوتی۔
جب روح آدمی سے بے تعلق ہو جاتی ہے اور آدمی مر جاتا ہے تو کپڑے سے بنے ہوئے لباس کی طرح گوشت پوست اور رگ پٹھوں سے مرکب مادی جسم کے اندر بھی کوئی حرکت یا قوت مدافعت باقی نہیں رہتی۔ جب تک روح اس لباس کو پہنے ہوئے تھی اس لباس میں حرکت اور قوت مدافعت موجود تھی۔
پس ثابت ہوا کہ ہم گوشت پوست کے جس انسان کو اصل انسان کہتے ہیں وہ اصل انسان نہیں ہے بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔
سوال: روح کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے سیدنا حضورﷺ سے فرمایا:
“یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔”
(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۸۵)
امر کی تعریف سورہ یٰسین میں اس طرح کی گئی ہے:
“اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے “ہو” اور وہ “ہو” جاتی ہے۔”
(سورۃ یٰسین۔ آیت ۸۲)
ان آیات میں تفکر سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح اصل انسان ہے اور وہی اصل انسان صفات الٰہیہ کا علم رکھتا ہے۔
سورۃ البقرہ میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے:
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا تذکرہ فرشتوں سے کیا اور انہیں بتایا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ (حضرت) آدم رات دن تیری عبادت کرے گا اور تیری عظمت اور بزرگی بیان کرے گا تو ہم اس کام کے لئے موجود ہیں۔ ہم ہر لمحہ تیری حمد و ثناء بیان کرتے ہیں اور بغیر کسی حیل و حجت کے تیرا حکم بجا لاتے ہیں۔ اس مٹی کے پتلے سے فتنہ و فساد کی بو آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی بات کو رد نہیں کیا اور ارشاد فرمایا کہ
“جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔”
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کائنات کے رموز اور فارمولوں کا علم عطا کر کے فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے کہا:
“اگر تم حکمت کائنات سے واقف ہو تو بیان کرو۔”
فرشتوں نے عرض کیا کہ
“ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے اور حقیقت میں علمو و حکیم تو آپ کی ذات ہے۔”
جب حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا مظاہرہ کیا تو شرف انسان پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کر کے ان کی حاکمیت تسلیم کریں۔
ابلیس اپنے غرور اور تکبر میں یہ بھول گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور جنات دونوں خدا کی مخلوق ہیں۔ مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ شیطان غرور و تکبر میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی اور پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے انسان کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت کی ہیں۔
ابلیس نے جب یہ دیکھا کہ حکم کی خلاف ورزی نے اسے رب العالمین کی آغوش رحمت سے دور کر دیا ہے تو اس نے توبہ اور ندامت کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی گمراہی کا ذمہ دار (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا اور کہا کہ”میرے رب یہ بات ہے تو مجھے اس روز تک کے لئے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائینگے۔ فرمایا۔ اچھا تجھے مہلت ہے اس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے۔ وہ بولا۔ میرے رب جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح زمین پر ان کے لئے دل فریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گا، سوائے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہو۔”
(سورۃ الحجر۔ آیت ۳۶ تا ۴۰)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اپنے حربے استعمال کر کے دیکھ لے میرے بندے تیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ابلیس اپنی گستاخی کی بناء پر راندۂ درگاہ قرار پایا۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو جو مقام عطا ہوا وہ اسماء کا علم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے خود کو جنت میں دیکھا۔ جنت ایسی فضا ہے جس میں کثافت نہیں ہے۔ جہاں زندگی کا وہ رخ سامنے رہتا ہے جس رخ میں سکون ہے، راحت و آسائش ہے۔ حاکمیت اور تسخیر کائنات کا احساس ہے۔
اللہ کریم کی قدرت کاملہ کا مظاہرہ ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت بی بی حوا کے وجود کی تخلیق عمل میں آئی۔ جنت کا وسیع و عریض رقبہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے لئے مسخر کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا!
“جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو لیکن ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے منع کر دیا گیا۔ ابلیس نے موقع پا کر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت بی بی حوّا کو باور کرایا کہ جس درخت کے پاس جانے سے انہیں منع کیا گیا ہے وہ شجر “شجرِخُلد” ہے اس کا پھل کھانا جنت میں سرمدی آرام و سکون کا ضامن ہے۔”
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ؑ درخت کے قریب تو چلے گئے لیکن سہو ہو جانے کے احساس نے انہیں پریشان کر دیا۔
جنت کی دائمی خوشی اور آرام و سکون بے سکونی میں تبدیل ہو گیا۔ جنت کے آزاد حواس پس پردہ چلے گئے اور پابند حواس حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ؑ پر مسلط ہو گئے۔ بھول ہو جانے کے بعد انہیں برہنگی کا احساس ہوا اور ستر پوشی کے خیال کے تحت وہ پتوں سے تن ڈھانپنے لگے۔ گویا انسانی تمدن کا یہ آغاز تھا کہ تن ڈھانپنے کے لئے سب سے پہلے پتوں کا استعمال کیا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام سے باز پرس ہوئی کہ ممانعت کے باوجود حکم عدولی کیوں ہوئی؟
حضرت آدم علیہ السلام مقبول بارگاہ الٰہی تھے اس لئے انہوں نے شیطان کی طرح مناظرہ نہیں کیا اور اپنی غلطی کو تاویلات کے پردے میں چھپانے سے باز رہے۔ ندامت و شرمساری کے ساتھ اقرار کیا کہ غلطی ہو گئی مگر اس کا سبب سرکشی نہیں بلکہ نسیان اور بھول ہے توبہ استغفار کے ساتھ عفو و درگذر کا خواستگار ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے عذر کو قبول فرما لیا اور معاف کر دیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ تم کو اور تمہاری اولاد کو ایک معین وقت تک زمین پر قیام کرنا ہو گا اور تمہارا دشمن ابلیس بھی اپنے تمام سامان عداوت کے ساتھ وہاں موجود رہے گا۔
تم کو خیر و شر کے درمیان زندگی بسر کرنا ہو گی۔ اگر تم اور تمہاری اولاد مخلص اور صالح بندے ثابت ہوئے تو تمہارا اصلی وطن “جنت” تمہیں عطا فرما دیا جائے گا۔
قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے تذکروں میں سب سے پہلا تذکرہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔
قرآن کریم نے تاریخی واقعات کو صرف اس لئے بیان نہیں کیا کہ یہ وہ واقعات ہیں جن کا تاریخ میں درج ہونا ضروری ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان واقعات میں مخفی حکمتوں کو تلاش کیا جائے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے سبق حاصل کر کے عمل کی راہیں متعین کی جائیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے قصہ میں بے شمار حکمتیں مخفی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
* حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا شرف اس علم ان صفات کی بناء پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مٹی کے پتلے میں اپنی روح پھونکنے کے بعد اسے عطا کر دی ہیں۔
* انسان اگر اپنی حقیقت (روح) سے واقف ہے اور ان قاعدوں، ضابطوں اور فارمولوں سے واقف ہے جو کائنات کے پس پردہ کام کر رہے ہیں تو وہ مخلوق میں افضل ہے بصورت دیگر اس کی حیثیت مٹی کے پتلے کی ہے جس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔
* غلطی ہونے کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام نے عاجزی کا مظاہرہ کیا جسے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو عجز و انکساری پسند ہے۔
عجز و انکساری کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے۔
* عجز کے مقابلے میں گستاخی یا بغاوت بڑی سے بڑی نیکی اور بھلائی کو کھا جاتی ہے ۔ ہمارے سامنے ہے کہ ابلیس کو کبر و نخوت اور گستاخی نے راندۂ درگاہ کر دیا۔
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
(تکبر نے عزازیل کو ذلیل خوار کر دیا اور لعنت کے قید خانے میں گرفتار (قید) کر دیا)
* اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں جسے چاہیں عزت دیں جسے چاہیں ذلت دیں۔ عزت و شرف اور لعنت و رسوائی اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
* تخلیق آدم قدرت کا منفرد کرشمہ ہے۔ مٹی کے پتلے کو گوشت پوست کی صورت دے دی۔ مٹی کو گوشت پوست، ہڈی، خون، دل، پھیپھڑے، دماغ میں تبدیل کر دینا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اگر انسان اپنی مادی تخلیق پر غور کرے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سارا جسمانی نظام بغیر کسی مادی کنکشن(Connection) کے متحرک ہے اور کسی لمحہ بھی یہ حرکت ساقط نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے اس نظام میں خلل واقع ہو جائے تو جدید ترین آلات کا استعمال بھی جسم کے کل پرزوں کو اس طرح متحرک نہیں رکھ سکتا جس طرح قدرت حرکت میں رکھتی ہے مثلاً دل ہمارے سارے بدن میں خون پہنچانے کے لئے ایک آلہ ہے جو ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا اور پھیلتا ہے اور دل کی یہ خدمت ساری عمر جاری رہتی ہے۔ کارکردگی میں اگر فرق آ جائے تو علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
* گردن سے رانوں کے اوپر تک ہمارا جسم ایک صندوق کی طرح ہے۔ اس صندوق کی دیواروں کے درمیان (پسلیوں کے نیچے) پھیپھڑے ہیں۔ سانس اندر جانے اور باہر نکلنے کا دارومدار پھیپھڑوں کے سکڑنے اور پھیلنے پر ہے۔ آدمی ایک منٹ میں سولہ (۱۶) یا سترہ (۱۷) بار سانس لیتا اور نکالتا ہے۔ انسان سانس اسی وقت لے سکتا ہے جب ہوا اور آکسیجن موجود ہو۔
* انسان کی بنیادی ضرورت میں پانی کو بڑا دخل ہے پانی نہ ہو تو زندگی بنجر ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی طرف سے ہر چیز مفت عطا کی ہے نہ کوئی فیس ہے اور نہ کوئی بل آتا ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور راز بے شمار ہیں ان رازوں سے وہ لوگ واقف ہو جاتے ہیں جو عارف باللہ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کے حامل ہیں۔
محققین کی رائے ہے کہ قرآن کریم میں صرف “حوا” کی تخلیق کا ذکر نہیں ہے بلکہ عورت کی تخلیق کے متعلق اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ بھی مرد کا حصہ ہے۔ اس حقیقت کو اس طرح سمجھا جائے حضرت آدم علیہ السلام کے اندر عورت کا وجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں رخوں کا مظاہرہ ہو تو عورت کے وجود کو حضرت آدم علیہ السلام سے الگ کر دیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 35 تا 43
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔