من کی دنیا

مکمل کتاب : آگہی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11674

مورخہ یکم مارچ 2001 ؁ء بروز جمعرات
دنیا میں سماوات ہیں، زمین ہے، پہاڑ ہیں، صحرا ہیں، نخلستان ہیں، باغات ہیں، دریا ہیں، سمندر ہیں، جھیلیں ہیں، درخت ہیں، قسم قسم کے پھول ہیں، تتلیاں ہیں، معدنیات ہیں، چوپائے ہیں، حشرات الارض ہیں، پرندے ہیں، جواہرات ہیں، دنیا میں موجود ہر شئے کا اپنا نام ہے۔

بتایا یہ جاتا ہے کہ زمین پر گیارہ ہزار مخلوقات آباد ہیں۔ سانپ کی بے شمار قسمیں ہیں، ان کے بھی نام ہیں۔ چرند پرند ہیں ان کے بھی نام ہیں، حشرات الارض کے بھی نام ہیں، درندے ہیں، سمندر میں بے شمار مخلوقات ہیں اور Sea Foodبھی ہے، پودے ہیں، غار ہیں سب کے نام ہیں۔

یہ ایک معمہ ہے کہ گیارہ ہزار مخلوقات کے نام کس نے رکھے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کے نام کب رکھے گئے؟

آدم علیہ السلام کے زمانے میں رکھے گئے یا آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے سے پہلے رکھے گئے؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان سب چیزوں کے نام انسان نے رکھے ہیں؟ کیا انسان ان سب کے نام جاتا ہے؟

ایک چھوٹا بچہ جس کو ابھی بولنا نہیں آتا، آپ اس کے سامنے ہنسیں تو وہ خوش ہو گا اور آپ اس کو غصہ سے دیکھیں تو وہ رونے لگے گا۔
سوال طلب بات یہ ہے کہ بچہ کیا سمجھا؟

کیوں رویا اور کیوں ہنسا؟

انسان دراصل ایک آئینہ ہے وہ ہر چیز کو اپنے آئینے میں دیکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مر جاتا ہے تو کیوں نہیں دیکھتا؟
اس لئے نہیں دیکھتا کہ مادی جسم مر گیا۔

جتنی بھی مخلوق ہے وہ شعور رکھتی ہے۔ آپ درخت کو پانی نہ دیں تو وہ سوکھ جائے گا۔ اسی طرح آپ انسان کو پانی نہ دیں تو وہ مر جائے گا۔ جس طرح انسان بچے پیدا کرتا ہے اسی طرح پہاڑ کے بھی بچے ہوتے ہیں اور تمام مخلوقات کے بچے ہوتے ہیں۔
ہم گائے کو دیکھ کر کیسے سمجھتے ہیں کہ یہ گائے ہے۔ دراصل گائے خود یہ شعور رکھتی ہے کہ وہ گائے ہے، انا خبر دیتی ہے کہ یہ گائے ہے، یہ بھینس ہے، یہ ہرن ہے، یہ شیر ہے، یہ پرندے ہیں اور زمین کے اوپر اور زمین کے اندر حشرات الارض ہیں۔ دریا میں مچھلیاں ہیں اور سمندر میں سمندری مخلوق ہیں۔

ہر مخلوق کے اندر جذبات ہیں مخلوق روتی ہے، مخلوق ہنستی ہے۔ خوش ہوتی ہے۔ مخلوق بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ چڑیا بچوں کو چوگا دیتی ہے۔ پرندے پوٹا میں دانے جمع کر کے اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو چاٹ کر نہلاتے ہیں اور ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔

بولنے والے کے خیالات کا عکس آپ کے اندر آئینے پر آ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مخاطب Messageسمجھتا ہے۔ آواز کی لہریں ایک دوسرے میں منتقل ہو رہی ہیں۔ باہر کچھ نہیں ہے، سب کچھ اندر ہے آدمی اندر میں بولتا ہے، اندر دیکھتا ہے اور اندر ہی سنتا ہے۔

مرنے کے بعد آدمی نہ بولتا ہے اور نہ حرکت کرتا ہے۔ یہ حال ہر مخلوق کا ہے۔ جب کوئی شئے، شئے کو دیکھتی ہے تو اپنی انا میں دیکھتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے۔۔۔

انسان جب قانون سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کی ترقی ہوتی ہے اور انسان کائنات میں بولی جانے والی زبان (Languages) کو سمجھ سکتا ہے۔ ظاہری گفتگو کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ مسلسل خیالات آنے کی طرز ہے۔ قانون یہ ہے کہ جو خیالات آتے ہیں آدمی کا (Inner) اس کا مادی زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔

انسان کو آباؤ اجداد کا ذہن منتقل ہو رہا ہے۔ آپ نے انگریزی بولی تو دماغ اس کا ترجمہ اردو میں سمجھ کر معنی پہناتا ہے۔ ایک نابینا آدمی دیوار کو چھوتا ہے یا درخت کو پکڑتا ہے تو وہ کیسے پہچانتا ہے کہ یہ درخت ہے، یہ دیوار ہے۔ دراصل وہ اپنے اندر (Inner) میں دیکھتا ہے اور جان لیتا ہے یہ درخت ہے۔

ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے ارد گرد موجود اشیاء کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا کو حکم دیتے تھے، پرندوں سے باتیں کرتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد پرندے سے پیغام رسانی کا کام لیا ہے، وہ چیونٹی سے بھی باتیں کرتے تھے، جنات ان کی خدمت پر معمور تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام برگزیدہ پیغمبر ہیں وہ فرشتوں سے بھی باتیں کرتے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہَوا، چیونٹی، پرندے اور تمام حشرات الارض شعور رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں بے شمار حقائق بیان کئے ہیں۔

’’یہاں تک کہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا چیونٹیوں اپنے بلوں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تم کو روند ڈالے۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت۱۸)

 

 

 

لیکچر 5

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 239 تا 242

آگہی کے مضامین :

انتساب پیش لفظ 1 - روحانی اسکول میں تربیت 2 - با اختیار بے اختیار زندگی 3 - تین سال کا بچہ 4 - مرید کی تربیت 5 - دس سال۔۔۔؟ 6 - قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ 7 - موت حفاظت کرتی ہے 8 - باہر نہیں ہم اندر دیکھتے ہیں 9 - اطلاع کہاں سے آتی ہے؟ 10 - نیند اور شعور 11 - قانون 12 - لازمانیت اور زمانیت 13 - مثال 14 - وقت۔۔۔؟ 15 - زمین پر پہلا انسان 16 - خالق اور مخلوق 17 - مٹی خلاء ہے۔۔۔ 18 - عورت کے دو رُخ 19 - قانون 20 - ہابیل و قابیل 21 - آگ اور قربانی 22 - آدم زاد کی پہلی موت 23 - روشنی اور جسم 24 - مشاہداتی نظر 25 - نیند اور بیداری 26 - جسمِ مثالی 27 - گیارہ ہزار صلاحیتیں 28 - خواتین اور فرشتے 29 - روح کا لباس؟ 30 - ملت حنیف 31 - بڑی بیگمؓ، چھوٹی بیگمؓ 32 - زم زم 33 - خواتین کے فرائض 34 - تیس سال پہلے 36 - کہکشانی نظام 37 - پانچ حواس 38 - قانون 39 - قدرِ مشترک 40 - قانون 41 - پچاس سال 42 - زندگی کا فلسفہ 43 - انسانی مشین 44 - راضی برضا 45 - زمانے کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے(حدیث) 46 - مثال 47 - سائنس اور روحانیت 48 - مادی دنیا اور ماورائی دنیا 49 - چاند گاڑی 50 - تین ارب سال 51 - کائناتی نظام 52 - تخلیق کا قانون 53 - تکوین 54 - دو علوم۔۔۔ 55 - قانون 56 - ذات کا عرفان 57 - روحانی شاگرد 58 - ذات کی نفی 59 - پانچ کھرب بائیس کروڑ! 60 - زندگی کا تجزیہ 61 - عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ 62 - دین فطرت 63 - عید 64 - ملائکہ اعلان کرتے ہیں 65 - بچے اور رسول اللہﷺ 66 - افکار کی دنیا 67 - مثال 68 - تحقیق و تلاش 69 - Kirlian Photography 70 - قرآن علوم کا سرچشمہ ہے 71 - روشنی سے علاج 72 - روشنی کا عمل 73 - چھ نقطے 74 - قانون 75 - امراض کا روحانی علاج 76 - مشق کا طریقہ 77 - نور کا دریا 78 - ہر مخلوق عقل مند ہے 79 - موازنہ 80 - حضرت جبرائیل ؑ 81 - ڈائری 82 - ماں کی محبت 83 - حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 84 - اکیڈمی میں ورکشاپ 85 - زمین اور آسمان 86 - ورد اور وظائف 87 - آواز روشنی ہے 88 - مثال 89 - نگینوں سے علاج 90 - تقدیر کیا ہے؟ 91 - مثال 92 - حضرت علیؓ کا ارشاد 93 - فرشتے، جنات اور آدم ؑ 94 - انسان اور موالید ثلاثہ 95 - سلطان 96 - مثال 97 - دو رخ 98 - سیاہ نقطہ 99 - قانون 100 - کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالی۔۔۔ 101 - تین کمزوریاں 102 - عفو و درگذر 103 - عام معافی 104 - توازن 105 - شکر کیا ہے؟ 106 - قافلہ سالار 107 - ٹیم ورک 108 - سلسلہ عظیمیہ کے ارکان کی ذمہ داری 109 - چھوٹوں کی اصلاح 110 - ایک نصیحت 111 - صبحِ بہاراں 112 - دنیا مسافر خانہ ہے 113 - روح کیا ہے؟ 114 - سانس کی مشقیں 115 - من کی دنیا 116 - بے سکونی کیوں ہے؟ 117 - غور و فکر 118 - روحانی علوم 119 - ہمارے بچے 120 - اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں 121 - اللہ ھُو 122 - اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو 123 - قربت 124 - ہر مخلوق باشعور ہے 125 - کامیاب زندگی 126 - انا کی لہریں 127 - صدقۂ جاریہ 128 - ادراک یا حواس
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)