ملت حنیف
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11318
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداداد صلاحیتوں کو استعمال کر کے کائناتی امور پر غور کیا تو سب سے پہلے اپنے سرپرست ’’آذر‘‘ کو سمجھایا پھر جمہور کے سامنے حق کی روشنی کو پیش کیا اور آخر میں نمرود سے مناظرہ کر کے اس کے سامنے حق کو بہتر سے بہتر طریقہ سے پیش کیا۔ ہر لمحہ سب کو یہی تلقین کی کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش جائز نہیں اور بت پرستی اور ستارہ پرستی کا نتیجہ نقصان اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے شرک سے باز آ جانا چاہئے اور ’’ملت حنیفہ‘‘ ہی کو صراط مستقیم سمجھنا چاہئے جس کی اساس و بنیاد ’’توحید الٰہی‘‘ پر قائم ہے۔
مگر گمراہ قوم نے کچھ نہ سنا اور رشد و ہدایت کو قبول نہ کیا۔ اس وقت ایک عورت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہؓ اور ایک مرد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زادہ حضرت لوط علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا۔ پوری قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلا دینے کا فیصلہ کر لیا اور دہکتی آگ میں پھینک دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ارادوں کو ذلیل و رسوا کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کو ’’باغ‘‘ بنا دیا۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ کسی دوسری جگہ پیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق پہنچائیں یہ سوچ کر مقام ’’فدان آرام‘‘ ہجرت کا ارادہ کر لیا، بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام ملک و قوم سے جدا ہو کر فرات کے مغربی کنارے ایک بستی میں چلے گئے جو ’’اورکلارفین‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سفر میں حضرت سارہؓ اور حضرت لوط علیہ السلام ہمسفر تھے۔ اور کچھ دنوں کے بعد یہاں سے ’’حران‘‘ یا ’’حاران‘‘ کی جانب روانہ ہو گئے اور وہاں’’دین حنیف‘‘ کی تبلیغ شروع کر دی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سفر جاری رہا اس طرح تبلیغ کرتے کرتے فلسطین پہنچے۔ کچھ عرصے کے لئے فلسطین کے مغربی اطراف میں سکونت اختیار کی۔ قریب میں ہی نابلس تھا، کچھ عرصے وہاں قیام کیا۔ یہاں بھی زیادہ عرصے قیام نہیں کیا۔ بلکہ مغرب کی طرف بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ مصر جا پہنچے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصر پہنچنے سے پہلے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہؓ سے فرمایا کہ یہاں کا بادشاہ جابر و ظالم ہے اگر کسی حسین عورت کو دیکھتا ہے تو زبردستی چھین لیتا ہے اور اس کے ساتھ مرد کو اگر وہ شوہر ہے تو قتل کرا دیتا ہے اور اگر عورت کے ساتھ اس کا کوئی عزیز ہو تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ تم چونکہ میری دینی بہن بھی ہو اور اس سرزمین میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے اس لئے تم اس سے یہ کہہ دینا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب رات کے وقت بادشاہ نے تصرف کا ارادہ کیا تو اس کا ہاتھ شل ہو گیا اور وہ کسی طرح حضرت سارہؓ کو ہاتھ نہ لگا سکا۔
یہ دیکھ کر اس نے حضرت سارہؓ سے کہا۔ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ میرا ہاتھ صحیح ہو جائے اور اگر ایسا ہو جائے گا تو میں تجھے رہا کر دوں گا۔ حضرت سارہؓ نے دعا کی اور اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔ مگر وہ شیطنت سے باز نہ آیا اور دوبارہ اس کے ہاتھ پر فالج گر گیا۔ تیسری مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا تو اس نے کہا یہ جن ہے انسان نہیں ہے۔ اس کو میرے پاس سے لے جاؤ۔ حضرت سارہؓ حضرت ہاجرہؓ کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں تو انہوں نے حال دریافت کیا۔ حضرت سارہؓ نے مبارکباد دی اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس نے ہماری حفاظت کی اور بادشاہ نے آپ کے لئے ایک خادمہ دی ہے۔
ہاجرہ اصل میں عبرانی لفظ ’’ہاغار‘‘ ہے جس کے معنی بیگانہ اور اجنبی کے ہیں۔ ان کا وطن چونکہ مصر تھا اس لئے یہ نام پڑ گیا۔ لیکن اسی اصول کے پیش نظر زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ’ہاغار‘ کے معنی ’’جدا ہونے والے‘‘ کے ہیں اور عربی میں ’ہاجر‘ کے معنی بھی یہی ہیں یہ چونکہ اپنے وطن مصر سے جدا ہو کر یا ہجرت کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت سارہؓ کی خدمت گزار بنیں اسی لئے ہاجرہؓ کہلائیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی تک اولاد سے محروم تھے۔ ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فرزند کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبولیت بخشی اور یہ دعا اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھوٹی بیگم حضرت ہاجرہؓ امید سے ہو گئیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 58 تا 60
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔