مساجد
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18272
سن ایک ہجری تک اسلامی حکومت مدینہ منورہ کے چند محلوں تک محدود تھی۔ فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو رسولﷺ کی زندگی میں دس سال کے قلیل عرصہ میں اسلامی فتوحات میں روزانہ ۲۷۶ میل کا اضافہ ہوتا رہا۔ سن گیارہ ہجری میں فخر موجودات رسالت مآبﷺ کی تعلیمات اور امت کے لئے اسلامی پروگرام کی بنیاد پڑی۔ ہم جب اسلامی نظام اور امت مسلمہ کے لئے ضابطہ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن ہماری رہنمائی اس طرف کرتا ہے کہ اسلام اجتماعی اقدار اور اجتماعی زندگی گزارنے کا نام ہے۔
اسلام میں کچھ عبادات فرض ہیں ان میں بھی اجتماعی حیثیت برقرار ہے۔ اسلام نے اجتماعی حیثیت کو قائم رکھنے کے لئے دن میں پانچ وقت کی نماز، سال میں تیس روزے اور صاحب استطاعت لوگوں پر حج فرض کیا ہے۔ اجتماعی حیثیت میں عبادت کرنے کے لئے مسجد کا اہتمام ہوا۔ مسجد دراصل محلے میں رہنے والے مسلمان افراد کے لئے ایک میٹنگ پلیس ہے۔ جہاں لوگ اکٹھے ہو کر اجتماعی طور پر عبادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں اور جب یہ نیک نفس حضرات و خواتین نماز باجماعت میں دو مرتبہ السلام علیکم کہتے ہیں تو اس عمل سے اجتماعی محبت، اجتماعی ہمدردی، اجتماعی اخوت کے جذبات لاشعوری طور پر دل میں موجزن ہوتے رہتے ہیں۔ جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں یہ رمز مخفی ہے کہ ملت اسلامیہ کے دانشور قوم کے ان افراد کو ساتھ لے کر مملکت کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیالات کریں اور مملکت کی فلاح و بہبود کے لئے لائحہ عمل متعین کریں۔ قوم کی معاشی حالت کو بہتر بنائیں۔ معاشرے کی برائیوں کو دور کرنے اور فسق و فجور سے بچنے کی تدابیر نکالیں۔ نماز جمعہ کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم عیدین کی نماز کے حکم پر تفکر کرتے ہیں تب بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ شہر کے گوشے گوشے، مضافاتی بستیوں اور قریہ قریہ سے مسلمان ایک مقام، ایک میدان اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر محبت، اخوت کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں، گلے ملتے ہیں، مبارک باد دیتے ہیں اور خوشی کے جذبات سے ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں۔ صاف ستھرے لباس میں بچے رشتہ دار، دوست احباب اور پڑوسی مسرت و شادمانی سے لبریز دل کے ساتھ بلا امتیاز ذات، برادری، امارات و غربت، نیک و بد اور بلا تخصیص مساک گھروں میں جا کر شیر خرمہ کھاتے ہیں اور گھر والے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بچے اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں عیدی ملتی ہے۔ چھوٹے اس لئے مسرور ہوتے ہیں کہ ان کے سروں پر بزرگ دست شفقت رکھتے ہیں۔ بزرگ اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں بچوں میں اپنی گزری ہوئی معصومیت نظر آتی ہے۔ بیوی اس لئے خوش ہوتی ہے کہ اچھا شوہر اس سعید خوشی کے موقع پر اپنی رفیق حیات کو تحفہ پیش کرتا ہے بچوں کیلئے اجلے کپڑوں کا اہتمام کرتی ہے اور نہایت فراخدلانہ میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ بیٹیوں کی خوشی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے، جب شاپنگ کرتی ہیں، چوڑیاں پہنتی ہیں، ہاتھوں میں مہندی کے نقش و نگار بناتی ہیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’روزے کی جزا میں خود ہوں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے رسول اکرمﷺ! میرے بندے جب آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کے قریب ہوں جب وہ مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 55 تا 56
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔