مثال
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11382
ہم تیس ۳۰ سال کے لئے پروگرام بناتے ہیں اور اس پروگرام پر عمل کرنے کے لئے ہم تیس سالوں کو پانچ پر تقسیم کر دیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ تیس سال پہلے (ماضی میں) جو پروگرام بنا ہے چھ وقفوں میں اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پروگرام ۳۰ سال کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے۔
’’پروگرام کے مطابق، جو بھی کوشش اور جدوجہد کی جاتی ہے وہ ماضی کے نقوش میں رنگ آمیزی ہے۔‘‘
جب کوئی قوم ماضی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے اور اسلاف کے نقوش قدم پر عمل پیرا ہو کر اپنی حالت سنوارنے کے لئے عملی اقدام نہیں کرتی۔ کوشش، حرکت، عمل اس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں تو ایسی قومیں زمین سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ جو قومیں ماضی سے اپنا رشتہ مستحکم رکھتی ہیں اور اسلاف کے کارناموں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر عمل کرتی ہیں وہ عروج و ترقی کے محلات تعمیر کرتی ہیں۔
اگر انسان فی الواقع کوش رہنا چاہتا ہے تو وہ روزانہ ماضی کو یاد کرے اور حساب لگائے کہ اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سالہ زندگی میں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ انسان اپنے جیسے انسانوں سے توقعات توڑ کر اللہ تعالیٰ سے توقعات قائم کر کے جدوجہد کرے تو وہ محدودیت سے نکل جاتا ہے۔ وہ ایسے لامحدود دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں خوف اور غم نہیں ہے۔
خوشی ایک فطری عمل ہے جبکہ ناخوش ہونا اور غمگین ہونا غیر فطری عمل ہے۔ ناخوش انسان خود اپنے حال سے دور ہو جاتا ہے جبکہ خوش رہنے والا انسان اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے گرویدہ ہوتے ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے!
’’اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو خوف اورغم نہیں ہوتا۔‘‘(سورۃ یونس۔ آیت ۶۳)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 99 تا 100
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔