قرآن کانفرنس
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6620
میرے مقالہ کا موضوع ہے ‘‘قرآن پاک میں قصص الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ ان قصوں میں حکمت اور روحانی علوم’’۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورۃ، کوئی آیۃ اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انبیائے کرام کے جو قصے بیان کئے ہیں وہ کوئی کہانی بیان نہیں کی ہے کہ کہانی سنا کر اللہ ہمیں مرعوب کرے۔ اللہ تعالیٰ کو ہمیں مرعوب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری حیثیت اور حقیقت ہی کیا ہے؟۔۔۔ اللہ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اللہ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اللہ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام بنی نوع انسانی کے لئے ہدایت اور روشنی ہے۔ آج کی نشست میں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اللہ تعالیٰ کی حکمت بیان کریں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل و عیال سمیت بکریاں چراتے چراتے جب مدین سے بہت دور نکل گئے تو سردی کافی بڑھ گئی۔ سردی کی شدت اور اس سے بچاؤ کے لئے انہیں آگ کی ضرورت پیش آئی۔ رات کے وقت جس جگہ قیام تھا ، وہاں سامنے کوہ سینا کا سلسلہ نظر آ رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چقماق استعمال کیا۔ مگر سخت سردی کی بنا پر چقماق سے چنگاری نمودار نہیں ہوئی۔
وادی ایمن کی طرف نگاہ اٹھائی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چمکتا ہوا ایک شعلہ نظر آیا۔ بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں آگ لے آؤں۔
وادی ایمن میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت پر روشنی ہے مگر یہ روشنی درخت کو جلاتی ہے اور نہ بجھتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جیسے آگے بڑھے یہ روشنی ان سے دور ہوتی چلی گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں خوف پیدا ہوا اور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس چلے جائیں۔ جونہی وہ واپس جانے کے لئے مڑے، آگ قریب آ گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے۔
آواز آئی:
‘‘اے موسیٰ! میں ہوں، میں اللہ رب العالمین’’
پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے قریب آئے تو پکارے گئے، ‘‘اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگار، اپنے جوتے اتار دے، تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ، میں نے تجھے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے، پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن!’’۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے
آواز کو سنا اور ان کو معلوم ہوا کہ ان کے نصیب میں وہ دولت آ گئی ہے جو انسانی شرف کا طرۂ امتیاز ہے تو والہانہ فریفتگی میں محو حیرت کھڑے رہ گئے۔
پھر پوچھا گیا۔ ‘‘اے موسیٰ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ ‘‘یہ میری لاٹھی ہے۔ اس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرتا ہوں۔’’
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ‘‘موسیٰ! اپنی اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دے۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا۔ پس ناگاہ وہ اژدہا بن کر دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے۔ پیٹھ موڑ کر چلے ہی تھے کہ آواز آئی۔
‘‘موسیٰ! اس کو پکڑ لو اور خوف نہ کھاؤ۔ ہم اس کو اصلی حالت پر لوٹا دیں گے۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بے خوف ہو کر اژدھے کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اور فوراً ہی وہ اژدہا لاٹھی بن گئی۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ پکارا گیا:
‘‘اپنے ہاتھ کو گریبان میں لے جا کر بغل سے مس کر اور باہر نکال، تیرا ہاتھ روشن ہو جائے گا۔’’
اور فرمایا:
‘‘یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا۔ ‘‘میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زور بیان رکھتا ہے۔ اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تا کہ وہ میری تائید کرے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔’’
ارشاد باری تعالیٰ ہوا :
‘‘ہم تیرے بھائی کی اعانت سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی قوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔
ہماری نشانیاں تمہارے پاس ہیں، تم اور تمہارے پیروکار فرعون اور اس کی جماعت پر غالب رہیں گے۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام منصب نبوت سے سرفراز، کلام ربانی سے فیض یاب، تبلیغ کی دعوت میں کامیابی و کامرانی کا مژدہ پا کر مقدس وادی سے اترے اور اپنی بیوی کو لے کر مصر روانہ ہو گئے۔ مصر پہنچے تو حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب رسالت عطا ہو چکا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے باہم مشاورت سے طے کیا کہ خدائے تعالیٰ کا حکم فرعون کو سنانا چاہئے۔
غرض دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور بے خوف و خطر اندر داخل ہوئے۔ فرعون کے تخت کے قریب پہنچ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور فرمایا:
‘‘اے فرعون! ہم کو خدا نے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے، ہم تجھ سے دو باتیں چاہتے ہیں۔ پہلی یہ کہ تو خدا پر یقین لے آ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنا اور دوسری یہ کہ ظلم سے باز آ جا۔ اور بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر دے۔ خدا نے ہمیں دو زبردست نشانیاں عطا فرمائی ہیں۔’’
فرعون نے جب یہ سنا تو کہا۔ ‘‘موسیٰ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر میں پرورش پائی اور اسی گھر میں اپنا بچپن گزارا تو یہ بھی بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ ‘‘یہ صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پائی اور ایک مدت تک شاہی محل میں رہا۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ مجھ سے نادانستگی میں ایک شخص قتل ہو گیا لیکن کیا یہ عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ مجھ ایک اسرائیلی کی پرورش کا بدلہ یہ قرار پائے کہ تو بنی اسرائیل کی تمام قوم کو غلام بنائے رکھے؟’’
فرعون نے اپنی شیطنت سے بھری سرشت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر خدا ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی تحقیر کی اور ان سے بحث شروع کر دی۔ ان کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوپر کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے فرمایا۔ ‘‘تو نے جو کچھ کہا میری شخصیت اور ذات سے متعلق ہے لیکن کیا یہ باتیں اس بات کا جواز پیدا کرتی ہیں کہ تو پورے بنی اسرائیل کو غلام بنا لے؟’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دی اور دیوتاؤں کی پوجا کے خلاف آواز اٹھائی اور فرمایا انی رسول من رب العالمین تو فرعون نے کہا۔ ‘‘ موسیٰ! تو یہ نئی بات کیا سناتا ہے، کیا میرے علاوہ بھی کوئی رب ہے جس کو تو رب العالمین کہتا ہے؟’‘ اور درباریوں کی طرف مخاطب ہو کر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تم سنتے ہو؟ یہ کیسی عجیب بات کہہ رہے ہیں! مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود کو پیغمبر اور رسول کہتا ہے اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا ‘‘اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو میں تجھے ضرور قید کر دوں گا۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ ‘‘اگر میں تجھے اپنے رب کی نشانیاں دکھا دوں تب بھی تو مجھ کو قید کرے گا؟’’
فرعون نے کہا۔ ‘‘اگر تو سچا ہے تو مجھے نشانیاں دکھا۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے اور بھرے دربار میں فرعون کے سامنے اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا۔ اسی وقت اس نے اژدہے کی شکل اختیار کر لی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔
فرعون کے درباریوں نے جب اس طرح ایک اسرائیلی کے ہاتھوں اپنی قوم کے بادشاہ کی شکست کو دیکھا تو وہ جھنجلا کر کہنے لگے کہ بلاشبہ یہ ایک بڑا ماہر جادوگر ہے اور اس نے یہ سب ڈھونگ اس لئے رچایا ہے کہ تم پر غالب آ کر تم کو تمہاری سرزمین مصر سے باہر نکال دے۔ ہم کو سوچنا ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ بالآخر فرعون او راس کے درباریوں کے باہمی مشوروں سے یہ طے پایا کہ مملکت مصر کے تمام ماہر جادوگروں کو دارالسلطنت میں جمع کیا جائے تا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کریں۔ اس فیصلہ کے بعد فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔
‘‘موسیٰ! ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ تو ہم کو سرزمین مصر سے بے دخل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب تیرے اور ہمارے درمیان مقابلے کے دن کا معاہدہ ہو جانا چاہئے۔’’
حق و باطل کا معرکہ:
یوم جشن آ پہنچا۔ میدان میں فرعون تمام شاہانہ کروفر کے ساتھ تخت نشین ہے۔ لاکھوں کا مجمع ہے۔ ایک جانب مملکت مصر کے مشہور جادوگروں کا گروہ اپنے سحر کے لوازمات کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری جانب خدا کے رسول، حق کے پیغامبر، سچائی اور راستی کے پیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کھڑے ہیں۔ فرعون بہت مسرور اور شاداں ہے۔ اسے یقین ہے کہ ساحرین ان دونوں بھائیوں کو شکست دے دیں گے۔ وہ ساحروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ انعام و اکرام کا لالچ دے رہا ہے۔ ساحرین کو بھی اپنی کامیابی کا یقین ہے اور انعام کے حصول کے تصور سے نہایت مسرور اور خوش ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تقریر کرنے کھڑتے ہوتے ہیں تو مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
‘‘تمہاری حالت پر سخت افسوس ہے۔ تم کیا کر رہے ہو۔ ہم کو جادوگر کہہ کر خدا پر جھوٹا الزام نہ لگاؤ۔ ڈر ہے خدا تم کو اس بہتان تراشی کی سزا میں نیست و نابود نہ کر دے کیونکہ جس کسی نے خدا پر بہتان باندھا وہ نامراد ہی رہا۔’’
جادوگر آگے بڑھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں:’‘موسیٰ! ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ ابتدا تیری طرف سے ہو گی یا ہم پہل کریں؟’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ ‘‘ پہل تمہاری طرف سے ہوگی اور تم اپنے کمال فن کی پوری پوری حسرت نکال لو۔’’
چنانچہ ساحروں نے اپنی رسیاں، بان اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان میں حرکت پیدا ہوئی اور سانپ اور اژدہے کی شکل اختیار کر کے دوڑنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ پورا میدان ان سے بھر گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ حال دیکھا تو ان کو تردد ہوا۔ فوراً وحی نازل ہوئی۔ ‘‘موسیٰ! خوف نہ کھاؤ۔ ہمارا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے۔ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جوں ہی لاٹھی کو زمین پر ڈالا، وہ ایک بڑا اژدہا بن گئی اور اس نے ساحروں کے تمام شعبدوں یعنی ان گنت سانپوں اور اژدہوں کو نگل لیا اور میدان صاف ہو گیا۔
حکمت:
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کوئی تذکرہ ایسا نہیں کیا جو محض کہانی یا تاریخ ہو۔ جو کچھ ارشاد کیا ہے اس کے پس پردہ نوع انسانی کے لئے ایک حکمت ہے۔ مثلاً فرعون کے زمانہ میں مصر کے رہنے والے بنی اسرائیل کی عورتوں سے مردوں سے اور بچوں سے خدمتیں لیتے تھے لیکن ان کے رہنے کے لئے ایسی جگہ مقرر کی تھی جہاں گوڑیاں پڑتی تھیں۔ تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ انہیں روٹی تک میسر نہ تھی۔ کپڑا پھٹا پرانا انہیں مصریوں سے مل جاتا تھا۔ انہیں اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے شہر میں داخل ہو سکیں بجز ان اوقات کے جس میں وہ مصریوں کی خدمت کرتے تھے۔ ایک طرف بنی اسرائیل کی یہ حالت تھی اور دوسری طرف مصریوں کی شان و شوکت کا یہ حال تھا کہ آج تک لوگوں کے پیش نظر ہے۔ ان کے وہ کمالات، ان کا وہ فن اور ان کے جادوگروں کی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آج بھی ان کی یادگاریں اور ان کے جادو کے اثرات فراعین کے مقابر سے نمایاں ہیں۔
جو تختیاں قبطی زبان میں لکھی ہوئی ملی ہیں ان کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرعون اور اس کی اولاد نے اپنے مقبروں کو بنانے میں ایسا فن استعمال کیا جو کمال کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے تختیوں پر لکھ دیا تھا ‘‘اگر ہماری کوئی چیز خراب کی گئی یا کسی نے ہاتھ لگایا یا کوئی سامان چرایا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔’’
اس قسم کے حالات پیش آتے رہے ہیں کہ جس زمانہ میں بھی مقبروں کو کھولا گیا، اس کام میں پیش پیش لوگ اور ان کے خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ آج بھی ان کے فن اور ان کے جادو میں اثر موجود ہے اور ان کی لکھی ہوئی تحریر کے مطابق عمل درآمد ہوتا ہے۔
اندازہ لگایئے کہ ایک طرف غربت زدہ اور اچھوت قوم اور دوسری طرف فرعون اور اس کا جاہ و جلال اور وہ جادوگر جو پیغمبر کے مقابلے میں آ گئے۔
بظاہر اگر کسی شخص کو بنی اسرائیل اور فرعون کے حالات بتائے جائیں تو وہ کیسے یقین کرے گا کہ بنی اسرائیل کے لوگ فاتح ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ان کو سربلند کیا اور دوسری طرف فرعون کو قعر مذلت میں پھینک دیا۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ لوگ اس کو محض کہانی یا تاریخ سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر غور کریں۔ جو نوع انسانی کے لئے راہ ہدایت ہے۔ فراعین کے زمانہ کے علوم اور کمال آج بھی لوگوں کے سامنے ہیں۔ یہ علوم انہیں کہاں سے ملے؟ ظاہر ہے کہ یہ علوم بھی انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوئے۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ اس نے ہماری زمین پر ایسے آدمی بنائے جنہوں نے اس قسم کے کمرے وضع کئے جس میں ممی رکھی گئی اور وہ ممی آج تک ویسی کی ویسی موجود ہے۔ ایسے زبردست علم و فنون کے ماہر اور شان و شوکت کے حامل لوگوں کو بنی اسرائیل جیسے خستہ حال لوگوں نے ملیا میٹ کر دیا۔
فراعین مصر کے مقبروں کا ایک کمال یہ ہے کہ کسی ایک مقبرے میں جتنے کمرے ہیں وہ نہ چوکور ہیں اور نہ گول بلکہ ایک خاص وضع کی ایجاد ہیں۔ وہ کمرے جو ممی کی حفاظت کرتے ہیں انہی آدمیوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ جن کو اللہ نے تخلیق کیا۔ اور علم سے نوازا۔
اس علم کے ذریعہ انہوں نے مقبرے تعمیر کئے۔ آپ ایک طرف ان کے حال پر اللہ کا کرم دیکھئے اور دوسری طرف اس قوم کی سرکشی ملاحظہ کیجئے جس کو ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی فرعونیت کہا جاتا ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ ان کی نگاہوں پر اس ہی عقل نے جس پر مصریوں کا تکیہ تھا اور جس عقل سے مصر کو سربلندی اور تہذیب حاصل تھی وہی عقل ان کے لئے گمراہی کا سبب بن گئی اور نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا۔ یہ ناراضگی ان کے اوپر عذاب در عذاب بن کر نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قوم کے ذریعہ عذاب میں مبتلا کر دیا جو خستہ حال، کوڑیوں پر رہنے والی، ننگی، بھوکی اور اچھوت قوم تھی۔ ایسی قوم جس کا نہ کوئی معیار زندگی تھا، نہ اس کے پاس کوئی طاقت تھی اور نہ ہی وہ مصریوں کی طرح علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔
بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو پیدا کر دیا اور اس شخص نے مصریوں کا تختہ الٹ دیا۔ یہ بھی فکر طلب ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پرورش بھی فرعون کے گھر میں پائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کے دماغوں کو بے کار کر دیا اور اس بات کو چھپا لیا کہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا ہے۔ اہل فن، ذہین اور یکتارے روزگار ساحروں کی نگاہوں سے بھی وہ بچہ پوشیدہ رہا۔ یہ دوسرا پردہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کی نگاہوں پر ڈال دیا۔
کیا آج وہ اللہ ایسا کرنے پر قادر نہیں ہے؟ یا وہ اللہ بدل گیا ہے؟ یا وہ اللہ پردہ کے اندر نہیں دیکھتا یا آج کوئی انسان ہے جو اللہ کے بنائے ہوئے پردوں میں جھانک سکے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو لوگوں کی نظر سے چھپا دیتا ہے وہی چیزیں سرکش لوگوں کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔ آج کا دور بھی علوم و فنون اور عقل کا دور ہے اور یہ علوم و فنون اور عقل انسان کے لئے ایک آزمائش اور ابتلا بن گئی ہے جیسا کہ مصریوں کے لئے ان کے علوم و فنون اور عقل عذاب بن گئی تھی۔ آج جن علوم و فنون اور عقل کا تذکرہ عام ہے اس پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عقل جس میں اللہ کے ساتھ تفکر شامل نہ ہو اور روحانی قدریں نہ ہوں، وہ انسانوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
یعنی مہر لگا دی اللہ نے اس کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔’’ سورۃ البقرہ – 7
یہ تذکرہ ان لوگوں کا ہے جو ہدایت سے محروم ہیں یعنی جن کے دل شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے ہیں اور جو علوم و فنون اور عقل پر تکیہ کرتے ہیں۔ ایسی عقل جس کو یہ پتہ نہیں کہ ایک لمحہ کے بعد ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہدایت یافتہ وہ لوگ ہیں جن کا یقین غیب پر قائم ہے۔ اور جو قائم کرتے ہیں صلوٰۃ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے مال میں خرچ کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں قرآن پاک پر اور ان کتابوں پر جو قرآن سے پہلے نازل ہوئیں اور یوم آخرت پر۔
سائنس کی ترقی کے اس دور میں طرز فکر کے لئے دو اصطلاحیں وضع کی گئیں۔ ایک کا نام فکر جدید اور دوسری کا نام فکر قدیم رکھا گیا۔ فکر جدید سے مراد یہ ہے کہ وہ باتیں جو عقل و شعور کے احاطہ میں آسکیں اور جو علم، عقل و شعور کے دائرے میں نہیں آتے اور جن کے رموز و نکات واضح نہیں ہوتے اس طرز کا نام فکر قدیم ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ علم حصولی کے ذریعہ جو فہم پیدا ہوئی اس کا نام فکر جدید رکھا گیا اور وہ فہم و ادراک جو اس علم حصولی کے دائرہ کار سے باہر یعنی ایسی بات جو عقل کے دائرہ میں نہ آئے وہ فکر قدیم قرار پائی۔ ہمارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو چھوڑ کر جدید دور کے علمائے فن کے رموز و نکات کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ فکر جدید کی نت نئی ترقیوں نے ہم مسلمانوں کو بھی اس ہی عقل کی دلدل میں لا پھینکا ہے جس میں فراعین مصر کے علماء گرفتار بلا تھے۔ آج کے لاسلکی دور میں فاصلے مٹ گئے، آواز ہزاروں میل کو محیط ہو گئی اور اس کی علمی توجیہہ بھی ہمارے سامنے آئی وہ یہ کہ آواز کے قطر بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں جن کو ویولینتھ کا نام دیا گیا۔
سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ۴۰۰ قطر سے نیچے اور ۱۶۰۰قطر سے اوپر کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا لیکن یہ آوازیں برقی رو کے ذریعہ سننا ممکن ہے۔ ہم جب اپنے اسلاف کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ یہ آوازیں برقی رو یا آلہ سماعت کے بغیر بھی سنی جا سکتی ہیں۔
حضرت عمرؓ مدینہ منورہ میں خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ بلند آواز میں فرمایا ’‘‘یا ساریۃ الجبل’’ ۔ حضرت عمرؓ کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ آواز مصر میں سنی گئی اور حضرت ساریہؓ نے اس آواز کا پورا پورا مفہوم سمجھ کر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق زمان ومکان کی نفی کی مثال حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں بھی مذکور ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
‘‘میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سباؔ کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اس دربار میں موجود ہو۔ تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے؟’’
عفریت نے جو قوم جنات میں سے تھا کہا۔ ‘‘اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں، میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔’’
جن کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ یوں گویا ہوا:
‘‘اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں یہ تخت آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔’’
حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیر کر دیکھا تو ملکہ سباؔ کا تخت موجود تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ۱۵۰۰ میل ہے اور یہ فاصلہ پلک جھپکتے طے ہو گیا۔ محض خیالی بات نہیں بلکہ ایک مرضع اور منقش تخت شاہی بغیر کسی وسیلہ کے ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو گیا۔
یہ وہ فکر ہے جس کا نام فکر قدیم رکھا گیا۔ فکر جدید نے ہمیں اس سے بہت دور کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس واقعہ میں یہ بات فکر طلب ہے اور اس میں حکمت پوشیدہ ہے کہ زمان و مکان کی نفی کا یہ عمل ایک ایسے انسان سے سرزد ہوا جس کے پاس علم الکتاب تھا۔ یعنی وہ کتاب کے علوم اور رموز سے باخبر تھا۔ دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قرآن پاک میں ہر وہ علم موجود ہے جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے یا آئندہ کبھی تذکرہ ہو گا۔
اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے۔ ہم نے داؤد اور سلیمان کو ایک علم دیا۔ یعنی یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسپائر ہوا۔
انسپائریشن خواہ سن کر خواہ کوئی منظر دیکھ کر ہو، بہرحال وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ کے پیغمبروں کے پاس وحی آتی ہے اور وحی کے ذریعہ نزول علم ہوتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ جب کہ اللہ کی طرف سے کوئی بات ذہن میں آتی ہے تو وہاں اللہ ہی کا علم ہوتا ہے کسی انسان کا علم نہیں ہوتا جیسا کہ آج کل دیکھا جا رہا ہے۔ جہاز، ٹیلی فون، ٹیلکس جن لوگوں نے بنائے وہ اللہ ہی کی طرف سے انسپائر کئے گئے۔ وہ کیا تھے، وہ کیا ہیں اس سے ہمیں بحث نہیں۔ ہم صرف اللہ کی ذات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں اور اللہ قادر مطلق ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسان کو وہ چیز مل جاتی ہے جس کی اسے تلاش ہوتی ہے لیکن شرط قانون یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ تن من دھن سے کسی چیز کی تلاش میں لگ جائے۔ اور تلاش کو زندگی کا مقصد قرار دے۔ یہ اللہ کی سنت ہے۔ پہلے بھی جاری تھی، اب بھی جاری ہے۔ اور یہ آئندہ بھی جاری رہے گی۔ اس بات کو ہمارے بزرگوں نے دو الفاظ میں بیان کیا ہے۔ جوئندہ یا بندہ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
‘‘اور نازل کیا ہم نے لوہا اور اس میں انسانوں کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں۔’’
سائنس کی کون سی ایسی ایجاد ہے جس میں کسی نہ کسی طریقہ سے لوہا استعمال نہ ہوتا ہو؟ کتاب ہماری ہے فائدہ غیر اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی قدر نہیں کی اور تفکر کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دیا۔ نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے محروم ہو گئے۔ قانون اپنی جگہ قانون ہے۔ لوہے میں بے شمار فوائد موجود ہیں۔ جس نے ان فوائد کو تلاش کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں اس نے ان فوائد کو حاصل کر لیا۔
چند اشخاص نے زمین کے اندر اس دھات کو تلاش کیا جس کو یورینیم کہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے لیکن جب سائنسدان کو یورینیم مل گیا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ اور ان کو قابل تعریف سمجھ کر ان کی پیروی کی جو کامیاب تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم قرآن پاک کی طرز فکر کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ بات ہم نہیں جانتے کہ ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتا ہو، ایسا یقین جو شکوک و شبہات سے پاک ہو۔ اگر ہم اپنے دل میں ایمان اور یقین کو جگہ دیں اور دل کی حدود تک لے جائیں اور دل کے احاطہ میں رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر پورا پورا یقین کر لیں تو ہمارے اوپر وہ تمام رموز جو قرآن پاک میں موجود ہیں منکشف ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعوت دی ہے، جگہ جگہ فرمایا ہے ‘‘تفکر کرو’’۔ یہ بھی فرمایا ہے۔ ‘‘کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے، مسلمان ہو لیکن ابھی تمہارے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا۔’’
دیکھئے! یہاں مسلمان اور مومن کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ مسلمان ہونا الگ بات ہے اور دل میں ایمان کا داخل ہونا الگ بات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہم مسلمان ہیں لیکن ابھی ہمارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ جس وقت ہمارے دلوں میں ایمان اتر جائے گا یقیناً ہم تسخیر کائنات کے فارمولوں سے واقف ہو جائیں گے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہم ہر معاملہ میں یورپ کی تقلید کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے علوم پر ہمیں اعتماد اور یقین ہے لیکن قرآن کریم کے بتائے ہوئے فارمولوں پر ہمیں یقین نہیں ہے۔ قرآن پاک میں جو فارمولے تسخیر کائنات سے متعلق بیان ہوئے ہیں ان کی تشریح کرنا اس مختصر وقت میں ممکن نہیں لیکن میں آپ کی توجہ ایک بار پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کی طرف مبذول کراتا ہوں۔ اس واقعہ میں یہ بات ہمارے سامنے آئی کہ جو بندہ ۱۵۰۰ میل کے فاصلہ سے پلک جھپکنے سے پہلے ملکہ سباؔ کا تخت لے آیا اس بندہ نے پہلے کہا کہ میرے پاس علم کتاب ہے۔ علم کتاب کو حاصل کرنا تفکر کے ذریعہ ممکن ہے۔ تفکر کا اصل اصول معلوم کرنے کے لئے اپنی روح سے وقوف ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی روحانی صلاحیتوں سے واقفیت نہیں رکھتے ان کا یقین کمزور ہوتا ہے۔ اور ان کا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوتا اور جو لوگ ہدایت یافتہ نہیں ہیں ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہؒ مہاجر مکی نے روحانی صلاحیتوں سے واقف ہونے کے لئے اسباق تجویز فرمائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روح کی صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے مراقبہ ضروری ہے۔ مراقبہ کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ نور السموات والارض کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہے۔ اور ارض پر موجود تخلیق روشنی کے ہالہ میں بند ہے اور یہ روشنی روح ہے اور روح کے علم کو چھ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ تصوف میں اس کا اصطلاحی نام لطائف ستہ ہے۔
۱۔ لطیفۂ اخفی
۲۔ لطیفۂ خفی
۳۔ لطیفہ سری
۴۔ لطیفۂ روحی
۵۔ لطیفۂ قلبی
۶۔ لطیفۂ نفسی
زندگی کے تاروں پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کے تقاضے اور زندگی میں کام آنے والے اعمال و اشغال اور تحریکات سب کا سب علم ہیں۔ ہم زندہ ہیں یہ بھی علم ہے۔ بھوک، پیاس اور زندگی کے سارے تقاضے علم سے باہر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ زندگی سے متعلق اس علم کو مظہر بننے تک چھ دائروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی علم مظہر بنتا ہے تو پہلے اس کا ایک واہمہ ہمارے دماغ میں وارد ہوتا ہے۔ جہاں یہ وارد ہوتا ہے اس کا نام لطیفۂ اخفی ہے۔ پھر یہ واہمہ خیال بنتا ہے۔ جہاں پر خیال بنتا ہے اس کا نام لطیفہ خفی ہے۔ خیال کے اندر جب روشنی کا ہجوم ہوتا ہے تو یہ تصور بن جاتا ہے اور اس کا مقام لطیفۂ سری ہے۔ تصور جب احساس کے خدوخال میں ڈھلتا ہے تو اس کا نام لطیفۂ روحی ہے اور جب یہ احساس لطیفۂ قلبی پر وارد ہوتا ہے تو نگاہ بن جاتا ہے۔ نگاہ مشاہدہ بن کر عمل بن جاتی ہے۔ یہی لطیفۂ نفسی ہے۔
اس حقیقت سے کوئی فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ایک انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے قائم ہے۔ کوئی خیال انتہائی کربناک ہوتا ہے اور کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہوتا ہے۔ ڈر، خوف، شک، حسد، طمع، نفرت و حقارت، غرور و تکبر، خود نمائی وغیرہ وغیرہ خیالات کی پیداوار ہیں اور محبت، ایثار، یقین، انکساری اور حزن و ملال کا نہ ہونا بھی خیالات کی کارفرمائی ہے۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ حادثہ نہ پیش آ جائے۔ جیسے ہی خیال کی یہ رو دماغ سے ٹکراتی ہے آدمی اپنے اندر حادثات سے متعلق پوری پریشانیاں کڑی در کڑی محسوس کرنے لگتا ہے اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہی حال خوشی اور خوش حال زندگی کا ہے۔ جب انسانی تصورات ایسے نقطہ پر مرکوز ہو جاتے ہیں جن میں شادمانی اور خوش حالی کی تصویریں موجود ہوں، انسان خوش ہو جاتا ہے۔
خیالات میں اگر بے یقینی، شک اور وسوسوں کی بھرمار ہوتی ہے تو اس کے اندر روشنیاں مدہم ہو جاتی ہیں اور تصورات الجھن، اضطراب اور پریشانی کا جامہ پہن لیتے ہیں۔ ان کی افراط آدمی کو روح سے دور کر دیتی ہے اور روح سے دوری واقع ہونے پر آدمی کے اندر ایک متعفن پھوڑا بن جاتا ہے۔ اور جب یہ پھوڑا پھوٹ جاتا ہے تو اس کی سڑاند پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ جب یہ صورت واقع ہو جاتی ہے تو یہ آدمی اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جس گروہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ڈال دیا پردہ ان کی آنکھوں پر اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
کتاب ‘‘لوح و قلم’’ مصنف حضرت قلندر بابا اولیاءؒ میں درج ہے کہ انسان چھ لطیفوں سے مرکب ہے اور ہر دو لطیفوں سے ایک دائرہ بنتا ہے۔ یعنی انسان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کا دارومدار ان تین دائروں پر ہے۔ پہلے دائرے میں اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور تسخیر کائنات کے فارمولے نقش ہیں۔ دوسرے دائرے میں حیات بعدالممات کی تشریح ہے اور تیسرا دائرہ ان اعمال و حرکات کی تشریح کرتا ہے جن سے زندگی سرگرم عمل ہے۔ روح کے دائرے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرتؒ لکھتے ہیں:
‘‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ پس ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور یہ دیکھتا، سنتا، چکھتا، محسوس کرتا اور عمل و حرکت سے مرکب انسان بن گیا۔’’
روح کیا ہے؟ قرآن حکیم میں اس کی وضاحت موجود ہے:
‘‘تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے، تو کہہ دے روح میرے رب کے امر سے ہے۔’’
امر کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے ‘‘کُن’’ اور وہ ‘‘فیکون’’ ہو جاتی ہے۔’’
قرآن کریم کی ان آیات میں تفکر کیا جائے تو یوں کہا جائے گا:
انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی تو زندگی دوڑنے لگی اور روح امر رب ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کُن اور وہ فیکون ہو کر مظہر بن جاتی ہے۔ زیادہ آسان الفاظ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
انسان روح ہے۔ روح امر رب ہے اور امر رب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے اور یہ ارادہ وجہ تخلیق کائنات ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی روح ہے لیکن بظاہر کتنا مجبور و لاچار ہے۔ مجبور و لاچار ہونے کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہم علم کتاب سے ناواقف ہیں۔ یہی ناواقفیت وہ متعفن پھوڑا ہے جس نے ہمیں تسخیر کائنات کے فارمولوں سے محروم کر دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن پاک میں تفکر کر کے اس گم کردہ راہ کو تلاش کریں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرام سے فیض یاب ہو کر سرفرازی اور سربلندی حاصل کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسوۂ رسول مقبولﷺ پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین!
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 249 تا 263
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔