قانون
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11596
کچھ کرنے، کھانے پینے، خط لکھنے، خط پڑھنے، ایجادات کرنے یا ایجاد نہ کرنے کی نوعیت اطلاع سے زیادہ نہیں ہے۔ جب ہم جاننے، کچھ کرنے، کھانے پینے، شادی وغیرہ کرنے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ادراک ہوتا ہے کہ ان سب کی نوعیت اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ کچھ کرنے، جاننے، پہچاننے، بھوک لگنے اور پیاس محسوس ہونے کا تعلق اطلاع (Information) کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو یہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ زید کون ہے؟
زید کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ زید کے ذہن کو اطلاعات موصول ہوئیں اور اس نے ان اطلاعات کو قبول کیا، اطلاع دینے والا اور اطلاع کو قبول کرنے والا زید کا ذہن ہے۔ انسان کے اندر دو شعور کام کرتے ہیں۔۔۔
۱۔ عام شعور
۲۔ عام شعور کے برعکس لاشعور
روحانی طلب علم ابتداء میں عام شعور سے سفر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ مشقیں کرتا ہے اسی مناسبت سے شعور کی رفتار بتدریج زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لاشعور سے قریب ہو جاتا ہے۔
اس کی مثال مادی دنیا میں یہ ہے۔۔۔
’’بچے اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں Montessoriپڑھائی جاتی ہے۔ Montessoriکی تین کلاسوں کے بعد پہلی، دوسری، تیسری اور دس تک کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ میٹرک کے بعد فرسٹ ائیر، سیکنڈ ائیر اور طالب علم پھر بی۔اے، ایم۔اے کا امتحان پاس کرتا ہے۔ اس کے بعد عالم فاضل ہونے کے لئے وہ پی۔ایچ۔ڈی کرتا ہے۔ ان علوم کو حاصل کرنے کے لئے خواتین و حضرات کی کوئی قید نہیں ہے۔ جو بھی یہ علوم حاصل کرنا چاہتا ہے اساتذہ کی نگرانی میں علوم حاصل کر سکتا ہے۔ علم حصولی یعنی مادی علوم پڑھنے کے لئے کلاسیں ہیں۔
طالب علم پہلی سے دسویں کلاس تک پڑھتا ہے۔ فرسٹ ائیر، سیکنڈ ائیر، بی۔اے، ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کر کے کوئی مرد یا کوئی خاتون دنیاوی علوم کے کسی ایک شعبے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی طرح روحانی علوم سیکھنے کیلئے درجہ بندی یعنی کلاسیں ہیں۔ کوئی سالک (روحانی طلب عالم) جتنا علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کر لیتا ہے۔
طالب علم جب سلوک کی راہوں میں سفر کرتا ہے تو پہلی کلاس سے دوسری کلاس میں داخل ہو جاتا ہے اور اسی رح روحانی سفر کرتے ہوئے تئیس کلاسوں کا عالم بن جاتا ہے۔
روحانی طالب علم جب اسباق پڑھتا ہے اور مشق کرتا ہے تو ابتداء میں غنودگی طاری ہوتی ہے۔ غنودگی سے مراد یہ ہے کہ طالب علم جب آنکھیں بند کر کے بیٹھتا ہے یعنی مراقبہ کرتا ہے تو اس کے اوپر سونے، جاگنے کی درمیانی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ جب دماغ یکسو ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سونے، جاگنے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ طالب علم کچھ دیکھتا ہے اور کچھ نہیں دیکھتا، کچھ سمجھتا ہے اور کچھ نہیں سمجھتا۔ کچھ یاد رہتا ہے کچھ یاد نہیں رہتا۔ لیکن وہ جو کچھ دیکھتا یا سنتا ہے اس کے دباؤ سے طالب علم کے اوپر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، جس کو ہم سونے جاگنے کی کیفیت کہتے ہیں۔
مشق کرتے کرتے شعور کی مزاحمت کم ہوتی رہتی ہے۔ جب شعور کی مزاحمت کم ہوتی ہے تو طالب علم ’’ورود‘‘ (سونے جاگنے کی کیفیت) میں داخل ہو جاتا ہے۔ ’’ورود‘‘ میں جب شعوری مزاحمت کم ہوتی ہے تو سکت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صلاحیت اور سکت میں اضافہ کے بعد روحانی طالب علم تیسری کلاس (منزل) میں داخل ہو جاتا ہے، اس منزل کو یا اس مقام کو کشف کہتے ہیں۔
کشف کے بعد چوتھی منزل الہام ہے، پانچویں منزل معانقہ ہے اور چھٹی منزل مشاہدہ ہے۔ مشاہدہ کے بعد سیر ہے اور سیر کے بعد فتح کا مقام ہے۔ فتح کے بعد انسلاخ ہے۔
یہ علوم تئیس کلاسوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک علم کے کئی شعبے ہوتے ہیں جیسے سائنس میں طبیعیات (Physics)، کیمیاء (Chemistry)، حیاتیات (Biology) وغیرہ۔ ریاضی( Mathematics) میں الجبراء(Algebra) اور علم اقلیدس(Geometry) وغیرہ۔ اسی طرح روحانیت میں بھی ایک شعبہ میں کئی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مثالیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں تا کہ قاری کے ذہن پر اضافی بوجھ نہ پڑے اور بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے۔
روحانیت میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں یا مشقیں کرائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان خالی الذہن ہو جائے۔ جیسے جیسے روحانی طالب علم یکسو ہوتا ہے اسی مناسبت سے وہ لاشعوری زندگی سے واقف ہوتا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ غیب کے نقوش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
لاشعوری زندگی میں داخل ہونے کے لئے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ ضروری ہے۔ خالی الذہن ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا ذہن ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ مراقبہ کی قسموں سے واقفیت اور مشق کے بعد سالک (روحانی طالب علم) کے اندر اتنی سکت اور صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بند آنکھوں سے کائنات کی روشنی کا ایک نقطہ دیکھتا ہے۔
مراقبہ میں سالک دیکھتا ہے کہ دل میں سیاہ رنگ نقطہ ہے۔ نقطہ کے مراقبہ کی کامیابی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ سالک نقطہ کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھتا۔ ذہن صرف روشنی کے نقطہ میں مرکوز ہو جاتا ہے۔ یہ نقطہ جب پوری طرح واضح ہو جاتا ہے تو نقطہ کی سیاہی چمک دمک میں منتقل ہو جاتی ہے پھر اس نقطہ میں پھیلاؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ پھیلاؤ اسکرین بن جاتی ہے۔ اسکرین میں سالک دیکھتا ہے کہ نقطہ کے وسیع پھیلاؤ سے اسکرین پر کائنات کا پروگرام نشر ہو رہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 207 تا 210
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔