قانون
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11358
ہر نوع کے افراد پانی کو پانی سمجھتے ہیں۔ پانی کو پانی سمجھنے کے لئے ضروری نہیں کہ پانی کو چھوا جائے پانی کو صرف دیکھنا اس بات کی ضمانت ہے کہ پانی ہے حالانکہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پانی کی نمی نے ہمارے دماغ کو بھگویا نہیں لیکن ہم پانی کو دیکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔
جس طرح آدمی پانی کو پانی سمجھتا ہے اسی طرح ایک بکری بھی پانی کو پانی ہی سمجھتی ہے۔ بیان یہ کرنا مقصود ہے کہ یہ ساری کائنات ایک قانون اور ضابطہ کی پابند ہے جب یہ طے ہو گیا کہ ’’قانون‘‘ جاری و ساری اور نافذ ہے۔ جب یہ کائنات چل رہی ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قانون کو چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے اور یہ اصل ہستی وہ عظیم و بابرکت ذات ہے جس کو نہ صرف انسان بلکہ ہر مخلوق اپنا خالق کہتی ہے۔ اس عظیم و برتر ہستی نے کائنات کو قائم رکھنے کے لئے اور کائنات میں نئے نئے شگوفے کھلانے کے لئے جو ضابطہ بنا دیا ہے وہ ضابطہ اپنی جگہ اٹل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو مخلوق جس کام کے لئے بنا دی گئی ہے وہ اس پر عمل پیرا ہے۔
مثلاً آنکھ دیکھتی ہے، ناک سونگھتی ہے اور کان سنتے ہیں۔ ہم کانوں سے دیکھتے نہیں ہیں۔ آنکھوں سے سنتے نہیں ہیں۔ یہ قانون ہے جس کی بندش میں بڑے بڑے ستارے، سیارے، زمین، آسمان اور آسمانی مخلوق اور تمام مخلوق ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہے سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ہیں اور ان کی ہر جنبش اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت ہوتی ہے۔
خالق کائنات کا بنایا ہوا یہی قانون ہمیں اس راز سے آشنا کرتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام نوعوں میں ایک نوع ایسی ہے جس کو خالق کائنات نے اس قانون سے باخبر کر دیا ہے۔ اس قانون سے باخبر ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کائنات پر غور و فکر کرے۔ قدرت کی تفویض کردہ ڈیوٹی پوری کرے۔
اس غور و تفکر کے نتیجے میں انسان کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ گوشت پوست کا جسم اصل انسان نہیں بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔ جب یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ فی الواقعہ گوشت پوست کا جسم اصل انسان نہیں ہے تو اس کے اندر فکر سلیم متحرک ہو جاتی ہے اور انسان اس بات کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے کہ اپنی اصل سے واقف ہو جائے۔
اصل سے واقف ہونے کے لئے قانون اور ضابطہ مقرر ہے اور یہ قوانین اور ضابطے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں منتقل ہوئے ہیں۔ پیغمبران کرامؑ نے ہمیں اس بات کا شعور عطا کیا ہے کہ ہم اپنی عقل و فکر کو استعمال کریں۔ اور اپنے آپ کو حیوانات سے ممتاز کریں۔
یہ بات محل نظر ہے کہ غار حرا کی زندگی سے بیشتر حضرت محمد رسول اللہﷺ پر قرآن نازل نہیں ہوا تھا، نہ نماز اور روزہ فرض کیا گیا تھا۔ غار حرا کی زندگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے پیغمبر علیہ السلام کے نقش قدم پر چل کر ایسے طریقے اختیار کریں جس سے ہمارے اندر یہ بات مشاہدہ بن جائے کہ انسان کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں۔ اور انسان اگر چاہے تو زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں قرآن پاک میں تفکر کرنا ہو گا اور قرآن پاک کے معنی اور مفہوم پر توجہ دینا ہو گی۔ اور سیدنا حضورﷺ کی غار حرا والی سنت پر عمل کرنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے!
’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا پس کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
(سوۃ القمر۔ آیت ۱۷،۲۲،۳۲،۴۰)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 90 تا 92
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔