قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11188
اللہ تعالیٰ ہر شئے پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ جوان ہو جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ پیدا ہوا، جوان ہوا، بوڑھا ہوا اور مر گیا۔ یہی دنیا کی زندگی ہے۔ پیدا ہوا تو کچھ ساتھ نہیں لایا۔ مرا تو کچھ ساتھ نہیں لے گیا۔ محلات بنائے، کارخانے لگائے، دکانیں سجائیں اور روزگار کے حصول میں اس طرح جدوجہد کی کہ آخرت کی زندگی بھول گیا۔ دنیا بھی خراب عاقبت بھی خراب۔ اچھا آیا تھا بُرا چلا گیا۔ کومل معصوم بچہ کرخت اور خشک چہرہ بن گیا۔
یہ بات سولہ سال میں سمجھ آئی۔ ماشاء اللہ آپ سب سمجھدار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہاں کوئی آدمی نہ کچھ لے کر آتا ہے نہ کچھ لے کر جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا یقین آدمی کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ یقین پیدا ہونے کے لئے آدمی یہاں کچھ لے کر نہیں آتا اور کچھ لے کر نہیں جاتا۔ مقصد حیات کو سمجھنے اور اس یقین کو مستحکم ہونے کے لئے سولہ سال کے شب و روز صرف ہوئے۔
شب روز سولہ سال مرشد کریم کی قربت نے یقین کا پیٹرن (Pattern) تخلیق کیا کہ انسان نہ پیدا ہونے پر با اختیار ہے اور نہ زندہ رہنے پر اسے قدرت حاصل ہے۔ آدمی کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ مجھے کہاں پیدا ہونا ہے؟ سید کے گھر، پٹھان کے گھر، شیخ کے گھر یا کسی چمار کے گھر۔ جاپان میں پیدا ہونا ہے، امریکہ میں پیدا ہونا ہے، بھارت میں پیدا ہونا ہے یا پاکستان میں پیدا ہونا ہے؟
جب اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کہاں پیدا ہونا ہے؟ کس کے گھر پیدا ہونا ہے تو بااختیار ہونا زیر بحث نہیں آتا۔ آپ پیدا ہو گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ چمار کے ہاں چاہا چمار کے ہاں پیدا ہو گئے۔ بادشاہ کے ہاں چاہا۔ بادشاہ کے گھر پیدا ہو گئے۔ چپٹی ناک سے پیدا کر دیا۔ آپ چپٹی ناک سے پیدا ہو گئے۔ کھڑی ناک سے پیدا کیا۔ آپ کھڑی ناک سے پیدا ہو گئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کوتاہ قد کر دیا تو کوتاہ قد ہو گئے۔ دراز قد کر دیا تو دراز قد بن گئے۔ کالا بنا دیا تو آپ کالے پیدا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے گورا بنا دیا تو آپ گورے پیدا ہو گئے۔
ہم جتنا بھی غور کریں گے یہ جواب ملے گا کہ پیدا ہونے پر کوئی شخص کوئی فرد کسی بھی طرح بااختیار نہیں ہے۔ بے اختیار آدمی پیدا ہو گیا اسے اس بات کا بھی اختیار نہیں کہ وہ پیدا ہونے کے بعد جوان ہو جائے گا اگر پیدا ہونے کے بعد سال، دو سال میں اس پر موت وارد ہو گئی تو جوانی نہیں آئی؟
جوان ہونے کے بعد بھی آدمی مر جاتا ہے اور بڑھاپا آنے سے پہلے بھی مر جاتا ہے اور بڑھاپا آنے کے بعد بھی نہیں مرتا۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پیدا ہونے پر کوئی اختیار نہیں اسی طرح مرنے پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ زندہ رہنے پر بھی کوئی اختیار نہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 22 تا 24
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔