غیب بینی
مکمل کتاب : توجیہات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3064
سوال: روحانیت میں غیب بینی کے اصطلاحی نام یہ ہیں۔ غنود، درود، کشف اور شہود یہ کیا ہیں؟ مہربانی کر کے اس کی وضاحت کی جائے۔
جواب: یہ بات ہم جانتے ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ مفروضہ حواس (حواس خمسہ) کے ذریعے کام کرتا ہے اور دوسرا دماغ مفروضہ حواس سے ہٹ کر حقیقی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ مفروضہ حواس اور مکان اور زمان کی قرآن مجید نے نفی کر دی ہے۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ ’’تم دیکھ رہے پہاڑ جمے ہوئے یہ بادلوں کی طرح تیر رہے ہیں۔ قیامت کا وقفہ اتنا ہے جیسے پلک جھپکنا یا اس سے بھی قریب وہ دیکھ رہے ہیں تیری طرف اور نہیں دیکھ رہے۔‘‘
’’لیلتہ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے’’ یعنی اس رات میں آدمی کے اندر حواس کی رفتار تقریباً ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ آیات مقدسہ میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہماری نظر جو شعور سے ہم رشتہ ہے ناقص مفروضہ اور غیر حقیقی ہے۔ شعور دیکھنے کے لئے ہمیشہ کسی واسطے (میڈیم) کا محتاج ہوتا ہے اور وہ واسطہ خود شعور کی طرح فرض کردہ ہوتا ہے۔ جب پہاڑ جمے ہوئے نہیں ہیں۔ تو بلور، پارہ، کاغذ، ینوس نقوش تصویر سب مفروضہ ہیں۔ تصوف میں غنود، ورود اور کشف کو بھان متی کہا جاتا ہے۔اس لئے کہ اس عالم میں مفروضہ شعور کی کارفرمائی برقرار رہتی ہے۔ البتہ شہود ایسی نظر ہے، جو مفروضہ حواس زمان و مکاں اور حساب و کتاب سے ماورا دیکھتی ہے۔ جن پاکیزہ نفس حضرات کو ‘‘شہود’’ حاصل ہوتا ہے۔ وہ پیش گوئیاں نہیں کرتے اور اگر کچھ کہتے ہیں تو ماہ و سال کا تعین نہیں کرتے۔ کیونکہ غیب کی دنیا میں ذہن کی رفتار ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہونے کی وجہ سے دن، مہینہ، سال اور زمان و مکاں کا کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک مستقبل نمائی کا تعلق ہے۔ حالات کے پیش نظر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ غیب بینی اور مستقبل بینی کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ سب اندازوں اور حساب و کتاب کی باتیں ہیں حساب و کتاب کا تعلق مشق سے ہوتاہے۔ زیادہ مشق کرنے والا بندہ زیادہ بہتر حساب کر لیتا ہے لیکن پھر بھی ضروری نہیں ہے کہ حساب یا پشین گوئی سو فیصد درست ہو۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
’’اے گروہ جنات اور انسان اگر تم استطاعت رکھتے ہو تو آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ، نہیں نکل سکتے مگر سلطان کے ساتھ! (روحانی استعداد یا پیر و مرشد کی توجہ)۔‘‘
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اگر کوئی بندہ سلطان (اپنی روح) سے تعارف حاصل کر لیتا ہے تو اس کے اوپر غیبی علوم منکشف ہو جاتے ہیں۔ ایسے بندے جو کچھ کہتے ہیں اس کی حیثیت صرف پیشن گوئی سی نہیں ہوتی بلکہ ان کا کہنا مبنی برحقیقت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے:
’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
ہم کسی چیز کو اس وقت دیکھتے ہیں جب اس چیز پر ہمارا ذہن ٹھہر جائے۔ جب تک ذہن یا نظر کی مرکزیت قائم نہیں ہوتی‘ کوئی شے ہمیں نظر نہیں آتی۔
خون میں دو قسم کی لہریں ہوتی ہیں۔ ٹھنڈی اور گرم، ٹھنڈی لہروں سے حواس بنتے ہیں اور گرم لہروں سے حواس میں تعطل واقع ہوتا ہے۔ بے ہوشی، غشی، پاگل پن سب گرم لہروں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مرگی کا دورہ بھی گرم لہروں کی پیداوار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وصف بخشا ہے کہ حرکت ہمیشہ اس کے ارادے کے تحت ہوتی ہے۔ زمین پر جو کچھ نظر آتا ہے وہ انسان کے ارادے کا مظہر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان اس سے واقفیت حاصل نہ کرنا چاہے۔
اللہ وہ ہے جس نے بنائے سماوات اور ارض اور اتاری سماء سے کتاب المبین، ایک شعاع۔ اس شعاع میں سے نکالے وسائل اور مظاہر وسائل اور مظاہر کو اپنے حکم سے تمہارے تابع کر دیا (یعنی پہنانے کا اختیار دے دیا)
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ارض (زمین) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری زمین کو ارض فرماتے ہیں۔ ارض کے معانی ہیں بساط۔ ایسی بساط جہاں شعاع آ کر ٹکراتی ہے۔
پانی کا ایک قطرہ بھی پانی ہے اور پانی کا سمندر بھی پانی ہے۔ آگ کی چھوٹی سی چھوٹی چنگاری کو بھی آگ ہی کہا جائے گا۔
قانون یہ ہے کہ جب آدمی انتظار میں کسی جگہ کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کے لئے منزل ختم ہو جاتی ہے۔
ایمان یہ ہے کہ ایک چیز مشاہدہ میں نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’یہ ہے۔‘‘ تو پھر ساری دنیا اگر یہ کہے کہ ’’یہ چیز نہیں ہے۔‘‘ ایمان والا کہتا ہے کہ ’’یہ چیز ہے۔‘‘ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ یہ ہے ۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 52 تا 54
توجیہات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔