غزوہ اُحد
مکمل کتاب : بچوں کے محمد ﷺ (جلد سوئم)
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=31236
غزوہ بدر میں شکست کے بعد کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے انتقام کا عہد کیا۔ سردار ابو سفیان نے فوج کی تنظیم نو کر کے شوال ۳ ہجری میں مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ اس مرتبہ تین ہزار جنگجو سپاہی ابوسفیان کے زیر کمان تھے۔ جن میں ساتھ سو سپاہی مکمل طور پر مسلح تھے۔ صفوان فوج کا نائب سالار تھا۔ ابو سفیان کے ہمراہ مدینہ آنے والے دوسرے سرداروں میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی ساتھ تھی۔ ہندہ اعلان کر چکی تھی کہ میں مسلمانوں کے ناک ، کان اور ہاتھ کاٹ کر ان کا ہار بنا کر گلے میں ڈالوں گی۔
حضرت محمدﷺ نے ساتھیوں کے مشورہ سے مدینہ سے باہر کافروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اُحد کے مقام پر پڑاو ڈالا۔منافقین اور ان کے سردار عبداللہ بن ابی نے جنگ میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”اور تاکہ اللہ انہیں بھی جان لے جنہوں نے منافقت کی، اور ان سے کہا گیا کہ آو ٔاللہ کی راہ میں لڑائی کرو یا دفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم لڑائی جانتے تو یقیناً تمہاری پیروی کرتے۔یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب ہیں منہ سے ایسی بات کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہے اور یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔“
(سورۃآل وعمران۔۱۶۷)
میدان جنگ میں فوج کی ترتیب و تنظیم قائم کر کے حضرت محمدﷺ نے مختلف مقامات پر دستے متعین فرمائے اور ہدایات کی کہ کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ جنگ احد میں بڑے بڑے نامی گرامی کفار ہلاک ہوئے انکی صفیں درہم برہم ہوگئیں۔جوش و غیرت کے لیے دف بجا بجا کر اشعار سنانے والی قریشی عورتیں کفار کی پسپائی دیکھ کر بھاگ گئیں۔ قریش کا جھنڈا جب زمین پر گرگیا تو کوئی اسے نہیں اٹھا سکا۔ کفار کی فوج کا حوصلہ پست ہو گیا اور فوج سپاہیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئیں۔
دوسری جانب مسلمان یہ سمجھے کہ ہم جنگ جیت گئے ہیں اور متعین جگہ پہاڑی پر موجود دستے نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ مسلمان حضرت محمدﷺ کی ہدایت کے بر خلاف مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہو گئے تو خالد بن ولید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ مسلمانوں کی فوج کی پشت پر پہنچ گئے۔ پہاڑی پر موجود چند مسلمان مقابلہ نہیں کر سکے۔ مشرکیں کی فوج کا جھنڈا ایک عورت نے اٹھا کر ہوا میں بلند کر دیا۔ مشرکیں کی پسپا فوج واپس پلٹ آئی اور مسلمان چاروں طرف سے ان کے نرغے میں آگئے۔ مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی۔
کسی نے اعلان کر دیا کہ حضرت محمدﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے میں گتھُم گتُھا ہو گئیں۔ مسلمانوں کے ہاتھ بعض مسلمان شہید ہو گئے۔ افراتفری کے عالم میں جب مسلمان منتشر ہونے لگے تو حضرت محمدﷺ نے بلند آواز میں پکارا۔۔۔۔۔۔
”میری طرف آؤ! میں اللہ کا رسول ہوں۔“
یہ صدا کفار نے بھی سنی اور وہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئے۔ اس وقت حضرت محمدﷺ کے قریب ۹ صحابہ کرام ؓ موجود تھے۔ کافروں نے بھر پور حملہ کر دیا اور اس معرکہ آرائی میں سات (۷) صحابہ کرام ؓ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ کافر چاہتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کو شہید کردیں لیکن جان نثاروں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کر کے انھیں حضرت محمدﷺ تک نہیں پہنچنے دیا۔ اس حملہ میں عقبہ بن ابی وقاص نے حضرت محمدﷺ کو پتھر مارا۔ شدید چوٹ کی وجہ سے حضرت محمدﷺ پہلو کے بل گر گئے۔ نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا۔ ایک مشرک نے حضرت محمدﷺ کی پیشانی زخمی کر دی۔ ایک اور مشرک نے اتنی زور کی تلوار ماری کہ آپﷺ ایک عرصہ تک کندھے میں چوٹ کا اثر محسوس کرتے رہے۔ اس ہی دشمن نے دوسرا وار چہرے پر کیا جس سے خود (حفاظتی ٹوپی )کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور آنکھ کے نیچے کی ابھری ہوئی ہڈی میں بال آگیا۔
جس وقت حضرت محمدﷺ چوٹ کھا کر زمین پر گرے۔حضرت طلحہؓ سامنے آگئےاور کفار کے بیشتر حملے انہوں نے اپنے جسم پر روک لئے۔ حضرت ابودجانہؓ دشمنوں میں گھرے ہوئے اپنے محبوب ﷺ تک پہنچے تو حضرت محمدﷺ کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور تیروں کی برسات روکنے کے لئے اپنی پیٹھ کو ڈھال بنا دیا۔
کفار کے غلاموں میں ایک سیاہ فام غلام “وحشی “ تھا۔ اس نے لالچ میں آ کر حضرت حمزہؓ کو ڈھونڈ لیا اور ان کی تاک میں بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہؓ بڑی دلیری سے تلوار چلا رہے تھے۔ وحشی کو سامنا کرنے کی تو جرأت نہیں ہوئی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ کی پیٹھ اس کی طرف ہے تو اس نے اپنا نیزہ اتنی قوت سے ان کی طرف پھینکا کہ نیزے کی نوک حضرت حمزہؓ کے سینے کے پار ہوگئی۔
ہندہ نے جب سنا کہ حضرت حمزہؓ وحشی کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں تو اس نے اُس ہی لمحے وحشی کوآزاد کر دیا اور کھڑے کھڑے اپنے کنگن اور ہار اتار کر اسے بخش دئیے۔ ہندہ نے ایک تیز دھار چاکو سے حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کر کے جگر نکال کر چبانا شروع کر دیا۔ درندگی چہرے سے عیاں تھی۔ آنکھوں سے انتقام کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اتنا دردناک منظر آسمان نے شاید پہلی بار دیکھا تھا۔ پھر ہندہ نے حضرت حمزہؓ کے ناک اور کان کاٹے۔ ہندہ نے اس ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قریب پڑی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناک کاٹ کر ڈوری میں پرو کر ہار بنایا اور گلے میں ڈال کر میدان جنگ میں وحشیانہ رقص کیا۔
قریش کی ایک اور عورت سلافہ بن سعد بھی میدان جنگ میں آئی۔ درندہ صفت سلافہ، اس مسلمان شہید کا سر کاٹ کر لے گئی جس کے ہاتھوں جنگ بدر میں اس کا بیٹا قتل ہوا تھا۔ بہت مکروہ چیخ میں اس نے کہا:
”جب تک میں زندہ ہوں کھوپڑی کے اس پیالے میں پانی پیا کروں گی۔“
لڑائی ختم ہونے کے بعد حضرت محمدﷺ نے دیکھا کہ آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کا پیٹ اور سینا چاک ہے اور کلیجہ چبا کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی لاشوں کے ناک اور کان بھی کٹے ہوئے ہیں۔ یہ درد ناک منظر دیکھ کر حضرت محمدﷺ بے انتہا غمگین ہوئے۔ وحشی جب ابو سفیان کی فوج سے بھاگ کر حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اقرار کیا کہ وہ حضرت حمزہؓ کا قاتل ہے تو حضرت محمدﷺ نے اس کو معاف کر دیا۔
جنگ احد میں مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث یہودیوں نے لوگوں سے کہا کہ حضرت محمدﷺ ، اللہ کے رسول ہوتے تو انہیں شکست نہ ہوتی۔ اس موقع پر سورۃآل عمران کی یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ”کافروں کا مقابلہ کرنا نبیوں کا قدیم دستور ہے۔
اس سے پہلے بھی نبیوں پر تکالیف گزری ہیں لیکن وہ
یاس و نا امیدی کا شکار نہیں ہوئے، بلکہ وہ استقامت اور پائیداری
کی وجہ سے کامیاب ہوئے اور اللہ صاحب استقامت لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔“
(سورۃ آل عمران۔آیت ۱۴۶)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 16 تا 20
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔