عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11460
جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور انسان کی سماجی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں روئے زمین پر بسنے والی ہر قوم اور ہر قبیلے میں مختلف رسم و رواج نظر آتے ہیں۔ جو کسی قوم کے تشخص کا اظہار ہیں۔ رسوم و رواج کی حیثیت گو کہ ہر قوم میں جداگانہ ہے لیکن ان کی موجودگی انسانی معاشرت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ ان رسوم و رواج میں تہواروں کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔
زمین پر آباد ہر قبیلہ، ہر قوم کسی نہ کسی نام سے جشن یا تہوار مناتی ہے اور یہ اس قوم کے قومی تشخص کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں قومی شعار کا چہرہ صاف اور واضح نظر آتا ہے۔ قوموں میں تہوار منانے کے طریقے جداگانہ ہیں۔ بعض قومیں یہ تہوار صرف کھیل کود، راگ رنگ اور سیر و تفریح کے ذریعے مناتی ہیں۔
ان تقاریب کے پس منظر میں قوموں کو ان کے اسلاف سے جو روایات یا اخلاق منتقل ہوا ہے اس کی نمایاں طور پر منظر کشی ہوتی ہے۔ تہوار ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی قوم کی تہذیب کو پرکھا جا سکتا ہے۔
یہ مسلمہ امر ہے کہ قوم کی اخلاقی اور روحانی طرز فکر جتنی بلند یا پست ہوتی ہے اس کا اظہار ماحول میں رائج روایات اور طریقوں سے ہوتا ہے۔ ان روایا ت اور طریقوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ تہوار منانے میں اختیار کردہ طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طریقے اعلیٰ مقاصد اور بنیادی اصولوں سے اخذ شدہ ہوتے ہیں جن سے اس قوم کی بقا اور قیام وابستہ ہے۔
ہر قوم اپنے ماضی پر زندہ ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ماضی نہیں ہے تو اس کی حیثیت قوم کی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بھی ایک ماضی ہے اور اس ماضی کو یاد رکھنے اور ماضی کے تاثرات کو آنے والی نسلوں میں پختہ کرنے کے لئے مسلمان دو تہوار مناتے ہیں۔
پہلا تہوار عیدالفطر ہے جس کی نورانیت اور پاکیزگی اس امر پر قائم ہے کہ یہ تہوار اس وقت منایا جاتا ہے جب من حیث القوم ہر فرد اپنا تزکیۂ نفس کر کے پاک صاف اور مصفیٰ و مجلیٰ ہو جاتا ہے۔ تیس دن اور تیس رات وقت کی پابندی، غذا اور نیند میں کمی سحر و افطار میں اجتماعیت، عمل میں ہم آہنگی، ایسی یکسوئی پیدا کر دیتی ہے کہ جس یکسوئی کے ذریعے انسان اپنے نفس سے واقف ہو جاتا ہے۔ یہ واقفیت آدمی کے اندر بسنے والے انسان کو متحرک کر دیتی ہے۔
جب تزکیۂ نفس کے بعد انسان بیدار ہو جاتا ہے تو صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ دراصل ذہن کی رفتار ہے۔ آدمی کے اندر بسنے والے انسان کی رفتار پرواز عام آدمی نسبت ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد آدمی کے اندر کاانسان انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف فرشتوں کو دیکھتا ہے بلکہ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یہی وہ عید (خوشی) ہے جو انسان کے لئے قلبی سکون کا باعث بنتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو قوم کی فکر و نظر میں ایسی تبدیلی لے آتی ہے جو بندے کو اللہ سے قریب کر دیتی ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے ایک تربیتی پروگرام ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان کو اطاعت خداوندی کا خوگر بنایا جاتا ہے۔
نفسیات کا مسلمہ اصول ہے کہ ذہنی مرکزیت سے قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہن کو کسی ایک نقطہ پر مرکوز کر دینے سے روشنیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب یہ روشنیاں ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو آدمی مادی پستیوں سے نکل کر روحانی رفعتوں کو چھونے لگتا ہے۔
رمضان المبارک کے بیس روزوں کے بعد ایک رات ایسی آتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں اور یہ پوری رات اللہ کی طرف سے خیر اور سلامتی کی رات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہر فرمان میں حکمت مخفی ہے۔
شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک رات کی عبادت و ریاضت ساٹھ ہزار دن اور رات کی عبادت اور ریاضت سے افضل ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:
’’شب قدر میں فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ اپنے رب کے حکم سے سلامتی کے ساتھ اترتے ہیں اور جو بندے شب قدر میں اپنے خالق کی یاد اور محبت میں اور اس کی قربت کے حصول کیلئے جاگتے ہیں۔ فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ ان سعید بندوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی سعادت اور خوشی ہے کہ اس پر جتنا شکر کیا جائے اور جس قدر خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ عید دراصل اسی سعادت اور اسی نعمت کا شکر ادا کرنے کا نام ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 127 تا 131
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔