علم کی طرزیں
مکمل کتاب : توجیہات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3071
سوال: علم کی کتنی طرزیں ہیں اور وہ کون کون سی ہیں؟ مہربانی فرما کر بتائیں۔
جواب: علم حاصل کرنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ آپ زمان و مکاں میں بند ہو کر وسائل کا کھوج لگائیں، وسائل میں تفکر کریں۔ جتنا گہرا تفکر ہوتا ہے اسی مناسبت سے وسائل کی صلاحیتیں آدمی کے اوپر آشکار ہو جاتی ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ ایٹم مٹی کا ذرہ نہیں ہے۔ ایٹم بھی مٹی کا ذرہ ہے، جب سائنس دانوں نے تفکر کے ساتھ جدوجہد کی تو مٹی کا وہ ذرہ جس کا نام ایٹم ہے، بول اٹھا کہ میرے اندر عظیم طاقت چھپی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔’’اور ہم نے لوہا تخلیق کیا اور اس میں لوگوں کے لئے بے شمار فائدے رکھ دیئے۔‘‘ آپ ذراغور کریں آج کی سائنس میں وہ کون سی ایجاد ہے جس کے اندر کسی نہ کسی طبقہ سے لوہے کا عمل دخل نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قرآن ہمارا ہے، حضور ہمارے ہیں، حضور کے بتائے ہوئے قرآنی ارشادات ہمارا ورثہ ہیں، ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور دوسری قومیں تفکر کے اسرار سے آگاہ ہو کر فائدے اٹھا رہی ہیں۔ قرآن نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے لوہا تخلیق کیا اور اس میں لوگوں کے لئے بے شمار فائدے رکھ دیئے تو وہاں اللہ تعالیٰ کا اشارہ پوری نوع انسانی سے ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ‘‘ ہم نے لوہا تخلیق کیا، مسلمانوں کے لئے’’ قانون اپنی جگہ اٹل ہے جو بھی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اللہ کی نشانیوں میں تفکر کرتا ہے، غور کرتا ہے گہرائی میں ڈوب کر وسائل کے اند رصلاحیتوں کا کھوج لگاتا ہے اس کے اوپر وسائل کی صلاحیتیں کھل جاتی ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے صلاحیتوں کا کھوج، لگاتا ہے اس کے اوپر وسائل کی صلاحیتیں کھل جاتی ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے صلاحیتوں کا کھوج لگانے کے لئے پہلا سبق مراقبہ ہے۔ مراقبہ انسان کو لاشعور سے قریب کر دیتا ہے اور لا شعوری صلاحیتوں سے آگاہی کا نام ہی دراصل تفکر ہے۔ ظاہر آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے بالآخر اس کا تانا بانا اور اس کا مصالحہ وہ اجزاء ہیں جن اجزاء سے آنکھ بنی ہوئی ہے۔ آنکھ کا دیکھنا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ جس صفت کو جتنا زیادہ اجاگر، صاف اور شفاف کر لیا جائے اسی مناسبت سے آنکھ کسی چیز کو زیادہ واضح، زیادہ روشن اور زیادہ وسعت میں دیکھتی ہے۔ صحت مند آنکھ جتنے عکس قبول کرتی ہے وہ زیادہ واضح اور ان کے خدوخال زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ بیمار آنکھ جتنے عکس قبول کر کے دماغ کی سکرین پر پھینکتی ہے، آنکھ کی بیماری اور کمزوری کے مطابق یہ عکس اسی قدر دھندلا اور غیر واضح ہوتا ہے۔ آنکھ کی بیماری کا ایک درجہ یہ ہے کہ آنکھ کے ا ندر لگا ہوا لینز جس لینز کے اوپر عکس کو قبول کرنے کا دارومدار ہے اگر ناکارہ ہو جائے تو آنکھ عکس قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کیمرہ کتنا ہی اچھا اور قیمتی کیوں نہ ہو اگر اس کے اندر لگا ہوا لینز خراب ہے تو تصویر کبھی اچھی نہیں آئے گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 84 تا 85
توجیہات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔