علم الاسماء کیا ہیں؟
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6611
سوال: قرآن پاک میں ارشاد ہے ‘‘اور سکھائے آدم کو نام سارے۔’’
ارباب محراب و منبر جب اس کی تشریح بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود چیزوں کے نام آدم کو سکھا کر فرشتوں پر فضیلت دی گئی ہے کیونکہ یہ نام معلوم نہ تھے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہر زبان اور ہر قوم میں چیزوں کو مختلف ناموں سے کیوں پکارا جاتا ہے۔ مثلاً ہم پانی کو پانی کہتے ہیں، انگریز ‘‘واٹر’’ کہتے ہیں، عربی میں ‘‘ماء’’ کہا جاتا ہے، فارسی میں ‘‘آب’’ اور ہندی میں ‘‘جل’’ کہلاتا ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بنی نوع آدم ہر چیز کو ایک ہی نام سے جانتی۔
از راہ شفقت ‘‘علم الاسماء’’ کو روحانی علوم کی روشنی میں بیان فرمائیں اور یہ بھی کہ روحانیت سے ان کا کیا تعلق ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات ارشاد کی ہے کہ ‘‘میں تخلیق کرنے والوں میں سب سے بہتر خالق ہوں’’۔ اللہ بحیثیت خالق کے ایسا خالق ہے جس کی تخلیق میں وسائل کی پابندی نہیں ہے۔ اللہ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جس خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے ‘‘کن’’ اور اس حکم کی تعمیل میں تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں۔ جو تخلیق اللہ کے ذہن میں موجود ہے۔ ‘‘خالقین’’ کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں لیکن اللہ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ اللہ کی ایک تخلیق بجلی ہے۔ جب بندوں نے اس تخلیق سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں ۔ اللہ کا یہ وصف ہے کہ اللہ نے لفظ ‘‘کن’’ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جتنی چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی، ڈس انٹینا، موبائل ٹیلیفون، کمپیوٹر، ملکی نظام میں معلوم اور نا معلوم ایجادات اور بے شمار دوسری چیزیں۔
روحانی نقطۂ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا آدم زاد کا دراصل بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ ‘‘اسماء’’ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو ایسا علم سکھا دیا جو کہ براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں۔
کائنات دراصل ایک علم ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ نے انسان کو باخبر کر دیا ہے لیکن اس سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ بندے تفکر کریں۔ قرآن پاک میں ہے:
‘‘ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے ہیں۔’’
جن لوگوں نے لوہے کی خاصیت اور افادیت کو تسلیم کر کے لوہے میں تفکر کیا وہ لوہے کی صلاحیتوں سے واقف ہو گئے اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا کہ جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف ہے جو وسائل میں کیا جاتا ہے۔ ان وسائل میں جن کا ظاہری وجود ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے تو جس طرح لوہے (دھات) میں تصرف کے بعد وہ عظیم مشینیں، ریل گاڑیاں، کنکارڈ ، بڑے بڑے ہوائی جہاز، میزائل، نیپام بم، خلائی اسٹیشن، بحری جہاز اور دوسری چھوٹی بڑی ایجادات میں لوہے کو استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح روشنیوں کا علم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔
وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ اس کو وسائل میں تصرف کا نام دیا جاتا ہے لیکن جو بندہ روشنیوں میں تصرف کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نکتہ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ‘‘سونا’’ اور سونا بن جاتا ہے۔
عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے کتاب ‘‘لوح و قلم’’ میں مقداروں کے تعین سے سونا بنانے کا فارمولا تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہم بتا چکے ہیں اللہ اپنی تخلیق میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں جبکہ بندے کا صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے اور یہ تصرف دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنائی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں میں حرکت دے کر تصرف کیا جاتا ہے۔
تصرف کا یہ طریقہ انسان کے اندر روشنیوں سے متعلق ہے۔ روشنیوں کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے کا طریقہ ہی دراصل روحانیت ہے۔ روحانیت میں یہ بات روشن دن کی طرح سامنے آ جاتی ہے کہ زمین پر موجود یا کائنات میں موجود ہر شئے کی بنیاد اور بساط روشنی ہے اور یہ روشنی اللہ کی صفت ہے۔
‘‘اللہ نورالسموات والارض’’ کے مصداق اللہ کی ہر صفت معین مقداروں کے ساتھ قائم ہے اور متعین مقداروں کے ساتھ رد و بدل ہوتی رہتی ہے۔ پیدائش سے موت تک کا زمانہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بچہ اپنی ایک حیثیت پر قائم نہیں رہتا۔ جن مقداروں پر بچہ پیدا ہوتا ہے ان مقداروں میں ایک ضابطہ ایک قانون اور ایک ترتیب کے ساتھ رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ اسی مناسبت سے بچہ کے اعضاء اور شعور کی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔
روحانی علوم ہمارے اوپر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ شکل و صورت اور خدوخال میں تبدیلی اللہ کے کون سے علوم کرتے ہیں اور انسان یہ علوم کس طرح سیکھ لیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 216 تا 219
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔