علمِ حصولی
مکمل کتاب : توجیہات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3069
سوال: روحانیت میں علم حصولی کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے؟ مہربانی فرما کر بتائیں۔
جواب: ہم نے علوم کو دو درجوں میں بیان کیا ہے ایک کا نام علم حصولی قرار پایا اور دوسرے کا نام علم حضوری رکھا گیا۔ علم حصولی اور علم حضوری کے ضمن میں عقل اور وجدان کی مختصر تشریح بھی بیان کی گئی۔ مثالوں سے یہ واضح کر دیا گیا کہ عقل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہم جو کچھ دیکھتے، سنتے، سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں ہمارے پاس کوئی ایسی علمی توجیہہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دیکھنے، سننے، چھونے اور محسوس کرنے کو حقیقی عمل قرار دے سکیں۔ بالآخر جب ہم عقلی اور شعوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے کسی عمل کا تفکر کے ساتھ اور وجدان کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے ہاتھ سوائے ٹٹولنے کے کچھ نہیں آتا۔ کسی چیز کو سمجھنے کے لئے بنیادی عمل نظر ہے۔ یعنی جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں۔ تب اس چیز کے بارے میں ہمیں مزید معلومات حاصل کرنے کا تجسس پیدا ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں جب ہمیں کسی چیز کا یقین حاصل ہوتا ہے تب بھی یہی صورت حال ہمارے دماغ پر وارد ہوتی ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں معلومات حاصل کریں، جس چیز کا ہمیں علم تو حاصل ہوا لیکن ابھی نگاہ کے سامنے نہیں آئی۔ جہاں تک نگاہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ نگاہ کا جب تک کوئی ٹارگٹ یا نشانہ نہ بنے، نگاہ اس چیز کو نہیں دیکھ سکتی۔ ضروری ہوا کہ دیکھنے کے لئے نگاہ کے واسطے کوئی مرکزیت قائم ہو اور جس مرکزیت پر نگاہ ٹھہری اس مرکزیت کے اوصاف دماغ کی سکرین پر منعکس ہو گئے۔ قانون یہ بنا کہ نگاہ وہی کچھ دیکھتی ہے جو دماغ کے اوپر منعکس ہوتا ہے۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ دماغ وہی کچھ محسوس کرتا ہے جو نگاہ دماغ کے اوپر منتقل کر دیتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دیکھنے کی طرزوں میں ہم جب تفکر کرتے ہیں تو دو باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کی معنوی اور حقیقی حیثیت کیا ہے؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ چیز حقیقت سے کتنی دور ہے یا کتنی قریب ہے۔ دیکھنے کی یہ دو طرزیں بھی علم حضوری یا علم حصولی کے دائرے میں آتی ہیں۔ علم حصولی کے دائرے میں نظر کا جتنا کام ہے وہ مفروضہ اور فکشن ہے۔ مفروضہ اور فکشن سے مراد یہ ہے کہ اس چیز میں رد و بدل اور تغیر واقع ہوتا رہتا ہے۔ علم حضوری کے اندر جو نظر کام کرتی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہے اس لئے کہ علم حضوری میں نگاہ جو کچھ دیکھتی ہے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کسی راہ سلوک کے مسافر نے فرشتے کو دیکھا وہ اگر سو سال بعد بھی اس فرشتے کو دیکھتا ہے تو فرشتے میں کوئی تغیر اور تبدل اسے نظر نہیں آتا۔ وہ کسی بندے کی روح کو دیکھتا ہے، جب بھی دیکھتا ہے روح اپنے خدوخال کے اعتبار سے وہی نظر آتی ہے جو وہ دیکھ چکا ہے اس کے برعکس ایک آدمی بکر کو جوانی کی عمر میں دیکھتا ہے۔ دس سال بعد جب وہ اس کو دیکھتا ہے، اس کے خدوخال میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ رد و بدل اور تغیر میں دیکھنا شعوری حواس کا کام ہے اور اس دنیائے ناپیدا کنار کا مشاہدہ کرنا جس میں تغیر اور تبدل نہیں ہے، لاشعوری حواس کا دیکھنا ہے۔ اب بات اس طرح بنی کہ آدمی کی زندگی میں دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز بالواسطہ اور ایک طرز براہ راست، بالواسطہ دیکھنا شعوری نظر ہے۔ اور براہ راست دیکھنا لا شعوری نظر ہے شعوری نظر سب کی سب مفروضہ اور فکشن ہے۔ لاشعوری نظر سب کی سب غیر مفروضہ، غیر فکشن اور حقیقت ہے۔ انبیاء کرام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی فکشن نظر کی نفی کر کے اس نظر کو حاصل کرے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ ایک چیز سے گزر کر دوسری چیز میں داخل ہونا یا ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز حاصل کرنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم چھوڑنے والی چیز سے اپنا تعلق عارضی طور پر یا مستقل طور پر منقطع کر لیں۔ اس رشتہ کو منقطع کرنے کا نام روحانیت میں اپنی نفی کرنا ہے اور جب آدمی اپنی نفی کرتا ہے تو اس کے سامنے مثبت حواس آ جاتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتا ہے لا الہ، نہیں کوئی معبود، الااللہ۔ مگر اللہ کو جاننے اور اللہ کے اوپر یقین کرنے کے لئے ضروری ہوا کہ پہلے وہ اس اللہ کی نفی کر دے۔ جس اللہ کو وہ مفروضہ حواس سے جانتا ہے۔ سیدنا حضور اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے بے شمار بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور لوگ ان بتوں کو خدا کا درجہ دیتے تھے اور ان بتوں سے اسی طرح مرادیں مانگتے اور دعائیں کرتے تھے جس طرح اللہ سے دعا کی جاتی ہے۔ لا الہ کا مطلب یہ ہوا کہ تم جس طرح شعوری حواس میں خدا کو جانتے ہو اس خدا کی نفی کر دو۔ اس خدا سے اپنا رشتہ منقطع کر دو اور یہ رشتہ منقطع کرنے کے بعد اس خدا سے اپنا ذہنی ارتباط اور ذہنی رشتہ قائم کرو جو دیکھا ہوا خدا ہے اور دیکھنے والی ذات محمدﷺ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نے جب اللہ کی نشاندہی کی، یہ علم، علم حضوری ہے اور جب تک محمد الرسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف لوگ بتوں کو خدا کا درجہ دیتے رہے یہ سب علم حصولی ہے۔ مختصر یہ کہ آدمی کو حقیقت کے اندر داخل ہونے کے لئے مفروضہ اور فکشن حواس کی نفی کرنا پڑتی ہے۔ روحانیت میں مراقبہ کا عمل اپنی نفی کرنے کے لئے پہلی سیڑھی ہے یعنی آدمی ایک ایسا طریقہ کار استعمال کرتا ہے کہ جس کی کوئی شعوری توجیہہ فی الواقع پیش نہیں کی جا سکتی۔ بجز اس کے کہ مراقبہ کرنے والے بندے کے ذہن میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر بیک وقت دو نگاہیں کام کرتی ہیں۔ ایک نگاہ محدود ہے اور بغیر کسی میڈیم کے کچھ نہیں دیکھتی۔ دوسری نگاہ غیر محدود ہے اور اس کو کسی میڈیم کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیم سے مراد سپیس ہے۔ آنکھ یعنی گوشت پوست کی آنکھ سپیس کے دائرے سے باہر نہیں دیکھ سکتی۔ اگر آنکھ کے سامنے سپیس حذف کر دیا جائے تو کچھ نظر نہیں آتا اور اس کا تجربہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ آدمی کسی ایک نقطہ پر نظر کو اس طرح مرکوز کر دے کہ آنکھ کے ڈھیلے کی حرکت اور پلک جھپکنے کا عمل ساکت ہو جائے تو نظر کے سامنے سوائے خلا اور روشنی کے کوئی چیز نہیں آئے گی۔ یہاں سے نظر کا ایک اور قانون سامنے آتا ہے۔ فکشن حواس میں دیکھنے کی طرز یہ ہے کہ ڈھیلا حرکت کرتا رہے اور پلک جھپکتی رہے اگر کسی آدمی کی پلکیں باندھ دی جائیں تو چند سیکنڈ کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں رہے گا۔ یعنی ڈھیلے کے اوپر پلک جھپکنے کے عمل کے ساتھ ساتھ جو ہلکی ضرب پڑتی ہے وہی باہر سے آنے والے عکس کو دماغ پر منتقل کرتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک کیمرہ ہے، اس کے اندر فلم ہے۔ کیمرہ کے اندر نہایت عمدہ لینز ہے۔ فلم کے اوپر عکس منتقل ہونے کے لئے جتنی روشنی کی ضرورت ہے فضا میں وہ روشنیاں بھی موجود ہیں، کیمرہ کے لینز کو ہم تشبیہاً آنکھ قرار دیتے ہیں اور کیمرہ کے اندر فلم کو ہم دماغ یا حافظہ کی وہ سکرین قرار دیتے ہیں جس پر عکس منتقل ہوتا ہے۔ لینز کے اوپر جو بٹن لگا ہوا ہے اس کو ہم پلک سے تعبیر کرتے ہیں جب تک کیمرہ کے اندر لگا ہوا بٹن یعنی کیمرہ کی آنکھ کی پلک نہیں جھپکے گی یا حرکت میں نہیں آئے گی فلم پر کسی قسم کا نقش نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب تک آنکھ کے ڈھیلے کے اوپر پلک جھپکنے کا عمل صادر نہیں ہو گا دماغ کی سکرین پر کوئی نقش و نگار منتقل نہیں ہو گا۔ روحانی نقطہ نظر سے اور موجودہ سائنس کی روشنی میں ایک منظر کا عکس دماغ کی سکرین پر 15سیکنڈ تک قائم رہتا ہے۔ 15سیکنڈ تک قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ عکس پہلے ہلکا ہوتا ہے، پھر کچھ واضح ہوتا ہے پھر اور زیادہ روشن ہوتا ہے اور پھر دھندلا ہو کر ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ 15سیکنڈ گزرنے سے پہلے دوسرا عکس منتقل ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ اگر ہم پلک جھپکنے کے عمل کو مسلسل 15سیکنڈ تک بار بار ساکت کر دیں تو ایک ہی نقش دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتا رہے گا۔ جب کوئی بندہ آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں بیٹھتا ہے تو اس صورت میں پلک جھپکنے اور پتلی کی حرکت کا عمل جاری رہتا ہے۔ آنکھیں اگر بند ہوں تو عارضی طور پر پلک جھپکنے کا عمل تو ساکت ہو جاتا ہے لیکن پتلی کی حرکت اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور پتلی کی حرکت کے ساتھ ساتھ پپوٹے بھی متحرک رہتے ہیں۔ پپوٹوں کے متحرک رہنے سے مراد یہ ہے کہ پلک کی حرکت ابھی جاری ہے یعنی دیکھنا اور دماغ کے اوپر عکس بندی کا عمل جاری و ساری ہے۔ مراقبہ کرنے والا بندہ ایک نقطہ پر اپنے ذہن کو مرکوز کرتا ہے اور وہ نقطہ یا مرکزیت یا میڈیم تصور شیخ ہے۔ یعنی وہ دیکھنے کی پوری صلاحیتوں کو شیخ کے تصور میں مجتمع کر دیتا ہے مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی عکس پانچ منٹ، 10منٹ، 15منٹ تسلسل کے ساتھ دماغ کے اوپر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ قانون یہ بھی ہے کہ جو عکس دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتا ہے اس عکس کے اندر موجود صلاحیتیں، صفات اور خاصیتیں بھی دماغ کے اوپر منتقل ہوتی ہیں اور دماغ انہیں محسوس کرتا ہے مثلاً ایک آدمی آگ دیکھتا ہے۔ آگ کا عکس جیسے ہی دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتا ہے آدمی کے اندر حرارت، حدت اور گرمی کی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک آدمی سر سبز و شاداب درخت دیکھتا ہے، باغ کے اندر خود کو دیکھتا ہے، جو سبز ہے، ہرا ہے اس کے اندر جو پر سکون خاصیت ہے۔ درخت پھل اور پھول کے ساتھ ساتھ اس رنگ کی ٹھنڈک بھی دماغ کو محسوس ہوتی ہے اسی طرح جب شیخ کی شبیہہ دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتی ہے تو شیخ کے اندر جو علم حضوری کی نظر کام کر دہی ہے وہ دماغ کے اوپر منتقل ہو جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 76 تا 80
توجیہات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔