شکر کیا ہے؟
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11632
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ہم نے حضرت لقمان ؑ کو حکمت دی تا کہ وہ ہمارا شکر (استعمال) ادا کرے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت۱۲)
اگر حضرت لقمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت پر ہزار دانے کی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے اور یہ ورد کرتے۔ یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے، کیا انعام و اکرام اور حکمت کا تقاضہ پورا ہو جاتا؟
اصل بات یہ ہے کہ جو نعمت آپ کو حاصل ہے۔ آپ اس کو استعمال کریں۔ ہم نے حضرت لقمان علیہ السلام کو حکمت دی تا کہ وہ اسے شکر (استعمال) کرے (اپنے لئے اور لوگوں کے لئے)۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی حکمت کو استعمال کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
ہم اس لئے عطا کرتے ہیں کہ لوگ شکر (استعمال) کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو استعمال نہیں کرتے وہ کفران نعمت کرتے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کو اس طرح استعمال کرو کہ ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔
اگر آپ دنیا بیزار ہو جائیں گے۔ کاروبار نہیں کریں گے تو دنیا اندھیر ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ انسان انہیں بھرپور طریقے سے استعمال کرے۔ لیکن ذہن میں یہ بات راسخ ہو کر یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔ ہماری ملکیت نہیں ہے۔ اصل مالک و خالق اللہ تعالیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی جو بھی نعمت آپ استعمال کرتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔
تین باتیں میں نے عرض کی ہیں۔
اقتدار کی خواہش اعتدال کی زندگی جو کچھ آپ کو میسر ہے اسے خوش ہو کر استعمال کریں۔ ذہن میں بار بار اس بات کو دہرائیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔
انسان روحانی ترقی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ محدود شعور میں بند رہتا ہے، روحانیت لامحدود علم ہے۔ لامحدود چیز حاصل کرنے کیلئے آپ کو محدودیت کا غلبہ ختم کرنا ہو گا۔ جب تک محدودیت کے دائرے سے باہر قدم نہیں نکالیں گے آپ لامحدود دائرے میں داخل نہیں ہو سکتے۔
روحانی طالب علم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی فکر محدود نہ ہو۔ وہ شعوری اعتبار سے سونے چاندی کے ذخیروں میں گم نہ ہو جائے۔ انسان دنیا کو اپنا مقصد نہ بنائے۔ اتنا گمراہ نہ ہو جائے کہ شداد و نمرود اور فراعین کے اوصاف اس کے اندر داخل ہو جائیں۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے لامحدود بنایا ہے۔ روح جس کے اوپر زندگی رواں دواں ہے، لامحدود ہے اور مادی وجود محدود ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 217 تا 218
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔