روشنیوں کا ہالہ
مکمل کتاب : توجیہات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3073
سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ اجسام روشنیوں کے ایک ہالے میں مقید ہوتے ہیں جبکہ اجسام کا تعلق تو روح سے ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں؟
جواب: روح کیا ہے؟ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا۔‘‘یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے وہ قلیل ہے’’۔ بات بالکل واضح ہے علم تو دیا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں اس کی حیثیت قلیل سی ہے یہاں ایک نکتہ زیر بحث ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ماوراء ہیں، اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ، لامتناہی اور ماوراء ہے۔ لا متناہی علم کا قلیل سے قلیل جزو لا متناہیت کے دائرے میں آتا ہے۔ قلیل کو بھی لا متناہی علم کہا جائے گا اس آیت مبارکہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ روح کا علم نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ مذہبی دانشور کہتے ہیں حضورﷺ سے حضورﷺ کے نائب اولیاء اللہ کو بھی یہ علم منتقل ہوا ہے۔ یہ علم کتنا، کیسے اور کس قدر منتقل ہوا ہے اس کے بارے میں اس لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ علم بہرحال لامتناہی ہے اور علم کا ایک حصہ ہے۔ اس بات کو ایک بار پھر سمجھ لیجئے کہ لامتناہیت کا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی لامتناہی ہے۔ ہم نے اس بات کی نفی کی ہے کہ مرنے کے بعد یہ بات کہہ دینا کہ آدمی کے اندر سے روح نکل گئی، صحیح نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ مرا ہوا آدمی اپنے عزا ااور اقربا کی ارواح سے جا ملا، یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ روحانی نقطہ نظر سے اس بات کی تشریح کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جسم مثالی نے مٹی کے ذرات سے بنائے ہوئے جسم کو نظر انداز کر کے اور قطع تعلق کر کے اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لیا اور دوسرے عالم میں وہاں کی فضا کے مطابق ذرات یکجا کر کے اپنا نیا جسم اپنے لئے تخلیق کر لیا۔ یہ جو عالم اعراف میں ایک وسیع دنیا آباد ہے آدم سے لے کر اب تک اور قیامت تک اس دنیا کی آبادی میں برابر لوگ منتقل ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے دراصل یہ اس عالم سے اس عالم میں آدمی منتقل ہو گیا۔ یعنی جسم مثالی کی منتقلی ہے۔ عربی زبان میں اسی لئے اس عالم میں جانے کا نام انتقال کرنا ہے یعنی اس عالم سے اس عالم میں آدمی منتقل ہو گیا۔
جسم مثالی زندگی میں ہمہ وقت متحرک اور سرگرم رہتا ہے۔ اس کی اپنی صفات میں سے ایک مخصوص صفت یہ ہے کہ جب تک یہ اپنے لباس سے کلی طور پر قطع تعلق نہیں کر لیتا اس کی بھرپور حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں خواب میں ملتی رہتی ہے ایک آدمی سویا ہوا ہے نیند بہت گہری ہے۔ کراچی میں سویا ہوا آدمی امریکہ کے بازاروں میں گشت کر رہا ہے۔ اس کے سوئی چبھو دی جاتی ہے جسم مثالی امریکہ سے چل کر فوراً اپنے لباس کی پاسبانی کے لئے آموجود ہوتا ہے سوئی چبھونا، امریکہ سے جسم مثالی کا کراچی میں آ جانا اتنا قلیل وقفہ ہے کہ جس کی پیمائش کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اس پیمائش کو آپ لمحے کا کھربواں حصہ کہہ سکتے ہیں اور لمحے کا کھربواں حصہ کہنا پیمائش کے دائرے میں نہیں آتا۔ مقصد یہ ہے کہ جسم مثالی کے لئے Time and Spaceکوئی چیز نہیں ہے لیکن Time and Spaceمیں بند ذرات سے جب یہ اپنے لئے ایک جسم اختراع کرتا ہے تو اس کو Time and Spaceکی حد بندیوں میں بند رکھنے کے لئے پوری پوری حفاظت کرتا ہے۔ اس عالم سے اس عالم میں منتقل ہونے کے بعد اس عالم کے اندر ہوا اور مٹی کے جن ذرات سے لباس بنتا ہے ان ذرات میں مٹی کے ذرات پر روشنیوں کا جو ہالہ موجود ہے وہ اس عالم میں ذرات پر موجود روشنیوں کے ہالے سے کم طاقتور ہے۔ یہ کم طاقت ہونا ہی دراصل کشش ثقل ہے۔ مرنے کے بعد جو عالم ہے اس کو عالم اعراف کہتے ہیں۔ عالم اعراف کے بعد ایک اور عالم ہے۔ اس عالم کا قانون بھی یہی ہے کہ جس طرح جسم مثالی عالم ناسوت سے اپنا رشتہ منقطع کر کے اور یہاں کا بنایا ہوا لباس چھوڑ کر عالم اعراف میں ایک نیا لباس بناتا ہے اسی طرح عالم اعراف سے نکل کر عالم حشر و نشر میں ایک نیا لباس بناتا ہے۔ عالم حشر و نشر کی جو فضا ہے وہ عالم ناسوت اور عالم اعراف سے یکسر مختلف ہے وہاں روشنیوں کا ہالہ اور زیادہ طاقتور ہے۔ عالم حشر و نشر میں ذہنی رفتار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ جسم مثالی کی ریکارڈ کی ہوئی زندگی سامنے آ جاتی ہے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ہر آدمی کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال ہو گا اسی بات کی طرف اشارہ ہے عالم حشر و نشر کے بعد یوم المیران ہے۔ یوم المیران میں اس روشنیوں کے بنے ہوئے جسم کے اوپر نور کا ایک ہالہ آ جاتا ہے، یہی وہ نور ہے جس نور سے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے ’’کوئی آنکھ اللہ کا ادراک نہیں کر سکتی اللہ ادراک بن جاتا ہے۔‘‘ اس آیت مقدسہ کی تفسیر یہ ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ کے ادراک سے دیکھتا ہے تو اس کی پہلی نظر یوم المیران پر پڑتی ہے۔ یوم المیران کے بعد جنت یا دوزخ کے عالم ہیں۔ جنت کے بھی بہت سارے طبقات ہیں اور دوزخ کے بھی بہت سارے طبقات ہیں۔ ایک باریک نکتہ ہے جس پر بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے، جنت اور دوزخ کا تذکرہ اس بات کی علامت ہے کہ آدمی دوزخ میں عذاب محسوس کرے اور جنت میں آرام و آسائش سے لطف اندوز ہو۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ لطف و آسائش اور آرام روح کو حاصل ہوتا ہے اور اس آرام سے روح فائدہ اٹھاتی ہے تو پھر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ دوزخ کا عذاب بھی روح کے بعد ہوتا ہے۔ نعوذباللہ یہ بات اس لئے نہیں کہی جا سکتی کہ روح فی الواقع اللہ تعالیٰ کا ایک حصہ ہے جزو ہے ایسا جزو جو لامتناہی ہے ایسا جزو جو ماورا الماورا ہے ایسا جزو جس کو اللہ تعالیٰ سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے جزو کو تکلیف سے کیا سروکار؟ دیکھئے بات وہی ہے کہ جس طرح اس عالم ناسوت میں جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، راحت محسوس کرتا ہے، اسی طرح بندہ دوزخ میں تکلیف محسوس کرتا ہے اور جنت میں راحت محسوس کرتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 88 تا 91
توجیہات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔