روحانی استاد اور ٹیلی پیتھی
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6613
سوال: میں آپ سے چند سوالات کے جوابات چاہتا ہوں۔ آپ ان سوالات کے جوابات قرآن کریم کی روشنی میں دیں۔ ان جوابات کو روحانی ڈائجسٹ میں ‘‘ٹیلی پیتھی سیکھئے’’ کے کالم میں شائع کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوالات کے ان جوابات سے روحانیت کے بعض گوشوں پر روشنی پڑے گی اور ایسے لوگ جن کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ بھی مطمئن ہو جائیں گے۔
اگر ہم ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور دوسرے کے خیالات معلوم کر سکتے ہیں تو ہم ٹیلی پیتھی کو پوچھ گچھ کے سلسلے میں کیوں استعمال نہیں کرتے اور جاسوسوں کے اہم منصوبوں سے کیوں واقف نہیں ہو جاتے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی روحانی استاد کی نگرانی میں مراقبہ کرنے سے دل کی آنکھ یا باطنی آنکھ کھل جاتی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں پتہ کر لیتے کہ اہرام مصر کب اور کیوں تعمیر ہوئے اور ان میں استعمال ہونیوالے اتنے وزنی پتھر کس طرح لائے گئے؟
جواب: سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح روشناس ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں کی روشنی سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور ان نظاموں کی روشنی زمین کی نوعوں انسان، حیوانات، نباتات اور جمادات پر کیا اثر کرتی ہے۔ یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آ چکا ہے۔ سائنس دانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ شمسی نظاموں کی روشنی انسان کے اندر، نباتات کے اندر، جمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے۔ اور کس طرح جانوروں، انسانوں، نباتات اور جمادات کی کیفیات میں رد و بدل کرتی رہتی ہے۔
سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
ٹیلی پیتھی میں ایسے علوم سے بحث کی جاتی ہے جو حواس کے پس پردہ شعور سے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ یہ علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارے حواس کی گرفت محض مفروضہ ہے۔
مثال:
ہم جب کسی سخت چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس چیز کی سختی کا علم ہو جاتا ہے حالانکہ ہمارے دماغ کے اوپر وہ سخت چیز ٹکراتی نہیں ہے۔
سائنس کے نقطۂ نظر اور مخفی علوم کی روشنی میں ہر شئے دراصل شعاعوں یا لہروں کے مجموعہ کا نام ہے۔ جب ہم کسی لکڑی یا لوہے کی طرف کسی بھی طریقہ سے متوجہ ہوتے ہیں تو لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ کو باخبر کر دیتی ہیں۔ باخبری کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ لکڑی یا لوہے کی سختی کو چھو کر محسوس کیا جائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ شعاع یا لہر اپنے اندر سختی رکھتی ہے اور نہ وزن۔ پھر ہمیں یہ علم کیسے ہو جاتا ہے کہ فلاں چیز سخت ہے یا فلاں چیز نرم ہے۔ ہم پانی کو دیکھتے ہیں یا چھوتے ہیں تو فوراً ہمارے دماغ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ یہ پانی ہے حالانکہ ہمارے دماغ میں پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یعنی دماغ بھگتا نہیں ہے۔ جب ہمارا دماغ بھیگا نہیں ہے تو ہم کیسے کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔
رنگ کی قسمیں ساٹھ سے زیادہ دریافت ہو چکی ہیں۔ جب ہم کوئی رنگ دیکھتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہم اس رنگ کو پہچان لیتے ہیں بلکہ رنگ کے ہلکے یا تیز اثرات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ ہرا رنگ اور ہریالی رنگ دیکھ کر ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے۔ مسلسل اور متواتر سرخ رنگ کے سامنے رہنے سے ہمارے دماغ پر ناگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اعتدال سے زیادہ سرخ رنگ کے اثرات حواس کو غیر متوازن بھی کر دیتے ہیں۔
حقائق یہ ہیں کہ ہر شئے الگ اور معین مقدار کے ساتھ وجود پذیر ہے۔ لہروں یا شعاعوں کی معین مقداریں ہی ہر شئے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں۔ اور ہر شئے کی یہ لہریں یا شعاعیں ہمیں اپنے وجود کی اطلاع فراہم کرتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہر موجود شئے دراصل لہروں یا شعاعوں کا دوسرا نام ہے۔ اور ہر شئے کی لہر یا شعاع ایک دوسرے سے الگ یا مختلف ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ انسان، حیوانات اور جمادات میں کس کس قسم کی لہریں کام کرتی ہیں اور ان لہروں پر کس طرح کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے تو ہم ان چیزوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لہر یا شعاع دراصل ایک جاری و ساری حرکت ہے اور ہر شئے کے اندر لہروں یا شعاعوں کی حرکت کا ایک فارمولا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ آوازیں بھی لہروں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے قطر (ویو لنگتھ) بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار سو قطر سے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا۔ اور ایک ہزار چھ سو قطر سے زیادہ اونچی آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ چار سو قطر سے نیچے کی آوازیں برقی رو (لہر) کے ذریعہ سنی جا سکتی ہیں۔ اور ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازیں بھی بجز برقی رو کے سننا ممکن نہیں۔
آنکھ کے پردوں پر جو عمل ہوتا ہے وہ رو یا لہر سے بنتا ہے۔ آنکھ کی حس جس قدر تیز ہوتی ہے اتنا ہی وہ رو کو زیادہ قبول کرتی ہے۔ اور اتنا ہی رو میں امتیاز کر سکتی ہے۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے کہ مشق کے ذریعہ آنکھ کی حس کو اس قدر تیز کر دیا جائے کہ صاحب مشق رو اور حواس کی لہروں میں امتیاز کر لے۔ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہوں لیکن یہ ان چیزوں کو جو باہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر قبول کرتی ہیں۔ باہر کے عکس آنکھوں کے ذریعہ اندرونی دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس تازہ یا افسردہ ہو جاتے ہیں، کمزور ہو جاتے ہیں یا طاقت ور۔ ان ہی باتوں پر دماغی کام کا انحصار ہے۔
ہم یہ بتا چکے ہیں کہ ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازیں یا چار سو قطر سے نیچے کی آوازیں برقی رو کے ذریعہ سنی جا سکتی ہیں اور یہ اس لئے ممکن ہے کہ ہمارے تمام حواس اور خیالات بجائے خود ‘‘برقی رو’’ ہیں۔ اگر ہمارے خیالات برقی رو سے الگ کوئی چیز ہوتے تو برقی رو کو قبول ہی نہ کرتے۔ ٹیلی پیتھی میں یہی خیالات جو دراصل برقی رو ہیں دوسرے آدمی کو منتقل کئے جاتے ہیں۔
خیالات منتقل کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ یہ رو کسی ایک ذرہ یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہو جائے۔ اگر یہ رو تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے تو دور دراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان کو اور ان چیزوں کو جو ذی روح نہیں سمجھی جاتیں ان کو بھی اس رو کے ذریعہ متاثر کیا جا سکتا ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ باہر نہیں دیکھتے۔ کائنات کا ہر مظہر ہمارے اندر موجود ہے۔ ہم سمجھتے یہ ہیں کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہے حالانکہ خارج میں کسی شئے کا وجود محض مفروضہ ہے۔ ہر شئے ہمارے اِنر میں قیام پذیر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم کسی چیز کا مشاہدہ اپنے اندر کرتے ہیں۔ اور یہ سب کا سب ہمارا علم ہے۔ اگر فی الواقع کسی شئے کا علم حاصل نہ ہو تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔
ٹیلی پیتھی میں پہلے پہل یہ مشق کرائی جاتی ہے کہ اشیاء ہمارے اندر موجود ہیں۔ مشق کی تکمیل کے بعد انسان یہ دیکھنے لگتا ہے کہ فلاں چیز میرے اندر موجود ہے اور مسلسل توجہ کے بعد اس چیز پر نظر ٹھہرتی جاتی ہے۔ ارتکاز توجہ کے لئے سانس کی مشق اور مراقبہ کرایا جاتا ہے۔
مشقوں کا تذکرہ کرنے سے پہلے نظر کا قانون سمجھ لینا ضروری ہے۔
آدمی دراصل نگاہ ہے۔ نگاہ یا بصارت جب کسی شئے پر مرکوز ہو جاتی ہے تو اس شئے کو اپنے اندر جذب کر کے دماغ کے سکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس میں معنی پہناتا ہے۔ نظر کا قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو اپنا ہدف بناتی ہے تو دماغ کی اسکرین پر اس شئے کا عکس پندرہ سیکنڈ تک قائم رہتا ہے اور پلک جھپکنے کے عمل سے یہ آہستہ آہستہ مدہم ہو کر حافظہ میں چلا جاتا ہے۔ اور دوسرا عکس دماغ کی اسکرین پر آ جاتا ہے۔ اگر نگاہ کو کسی ہدف پر پندرہ سیکنڈ سے زیادہ مرکوز کر دیا جائے تو ایک ہی ہدف بار بار دماغ کی اسکرین پر وارد ہوتا ہے۔ اور حافظہ پر نقش ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً ہم کسی چیز کو پلک جھپکائے بغیر مسلسل ایک گھنٹہ تک دیکھتے ہیں تو اس عمل سے نگاہ قائم ہونے کا وصف دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے اور دماغ میں یہ پیوستگی ذہنی انتشار کو ختم کر دیتی ہے۔ ہوتے ہوتے اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ شئے کی حرکت صاحب مشق کے اختیار اور تصرف میں آجاتی ہے۔ اب وہ شئے کو جس طرح چاہے حرکت دے سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نگاہ کی مرکزیت کسی آدمی کے اندر قوت ارادی کو جنم دیتی ہے اور قوت ارادی سے انسان جس طرح چاہے کام لے سکتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہی ہے کہ انسان کسی ایک نقطہ پر نگاہ کو مرکوز کرنے پر قادر ہو جائے۔ نگاہ کی مرکزیت حاصل کرنے میں کوئی نہ کوئی ارادہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے نگاہ کی مرکزیت پر عبور حاصل ہوتا ہے اسی مناسبت سے ارادہ مستحکم اور طاقت ور ہو جاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی جاننے والا کوئی شخص جب یہ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے خیال کو دوسرے آدمی کے دماغ کی اسکرین پر منعکس کر دے تو اس شخص کے دماغ میں یہ ارادہ منتقل ہو جاتا ہے۔ وہ شخص اس ارادہ کو خیال کی طرح محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ شخص ذہنی طور پر یکسو ہے تو یہ خیال تصور اور احساسات کے مراحل سے گزر کر مظہر بن جاتا ہے۔ اگر اسی ارادہ کو بار بار منتقل کیا جائے تو دماغ اگر یکسو نہ بھی ہو تو یکسو ہو کر اس خیال کو قبول کر لیتا ہے۔ اور ارتکاز توجہ سے خیال عملی جامہ پہن کر منظر عام پر آ جاتا ہے۔
ٹیلی پیتھی محض خیالات کو دوسرے تک منتقل کرنے کا علم ہی نہیں ہے بلکہ اس علم کے ذریعہ ہم اپنی زندگی کا مطالعہ کر کے زندگی کو خوش آئینہ تصورات سے لبریز کر سکتے ہیں۔ زندگی خواہشات، تمناؤں اور آرزوؤں کے تانے بانے پر قائم ہے۔
زندگی بنیادی طور پر خواہشات کے خمیر سے مرکب ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندر پہلی خواہش بھوک کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے اور جب ماں بچہ کو سینے سے لگاتی ہے تو بچہ اپنی اس خواہش کی تکمیل اس طرح کرتا ہے جیسے یہ ماں کے پیٹ سے ہی یہ عمل سیکھ کر آیا ہے۔ خواہشات کی تکمیل کے مراحل طے کرنے کا دوسرا نام نشوونما ہے۔ خواہشات کی تکمیل دو طرح ہوتی ہے۔
ایک شعوری طور پر اور دوسرے لاشعوری طور پر۔ شعور اور لاشعور دراصل ایک ورق کے دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر خیالات اور تصورات کے نقوش زیادہ روشن اور واضح ہیں اور دوسرے صفحہ پر دھندلے اور کم روشن جس صفحہ پر نقوش زیادہ روشن اور واضح ہیں اس صفحہ کا نام لاشعور ہے اس جس صفحہ پر نقوش دھندلے اور کم روشن ہیں اس صفحہ کا نام شعور ہے۔ روحانیت میں یہ بات مشاہدہ کرائی جاتی ہے کہ روشن اور واضح خیالات میں ٹائم اسپیس نہیں ہوتا۔ غیر واضح خیالات اور تصورات کا ہر قدم ٹائم اسپیس کے ساتھ بندھا ہوتا ہے۔ ہم جب کسی ایک خواہش اور اس کی تکمیل کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے۔ خواہش کو جب الگ معنی پہنا دیئے جاتے ہیں تو اس کی الگ ایک حقیقت بن جاتی ہے۔ مثلاً بھوک ایک خواہش ہے اور اس کی تکمیل کا ذریعہ کچھ کھا لینا ہے۔ ایک آدمی بھوک کی تکمیل روٹی اور گوشت کھا کر لیتا ہے، دوسرا گوشت کی بجائے کسی اور غذا سے پیٹ بھر لیتا ہے۔ شیر گھاس اور پتے نہیں کھاتا، بکری گوشت نہیں کھاتی۔ ایک آدمی کو انتہائی درجہ مٹھائی سے رغبت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرا شخص نمکین چیزیں زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس حقیقت سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے وابستہ ہے۔ کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہوتا ہے اور کوئی خیال انتہائی کرب ناک، ڈر، خوف، شک، حسد، طمع، نفرت و حقارت، غرور و تکبر، خود نمائی وغیرہ وغیرہ سب خیالات کی پیداوار ہیں۔ اور اس کے برعکس محبت، ایثار، یقین، انکساری اور حزن و ملال کا ہونا بھی خیالات کی کارفرمائی ہے۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوندا جاتا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے گا۔ حالانکہ حادثہ پیش نہیں آیا لیکن یہ خیال آتے ہی حادثات سے متعلق پوری پریشانیاں، کڑی در کڑی ہم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہی حال خوشی اور خوش حال زندگی کا ہے۔ جب کوئی خیال تصور بن کر ایسے نقطہ پر مرکوز ہو جاتا ہے جس میں شادمانی اور خوش حالی کی تصویریں موجود ہوں تو ہمارے اندر خوشی کے فوارے ابلنے لگتے ہیں۔
غم اور خوشی دونوں تصورات سے وابستہ ہیں۔ اور تصورات خیالات سے جنم لیتے ہیں۔ آپ نے ایسے مریض ضرور دیکھے ہوں گے کہ ان کے دماغ میں یہ بات نقش ہو گئی ہے کہ وہ اگر گھر سے باہر نکلیں گے تو ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ خیال کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ گھرسے باہر نکلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں چھپکلی یا بلی کا خوف بیٹھ جاتا ہے۔ اور یہ خوف ان کے دماغ سے اس طرح چمٹ جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن کر رہ جاتے ہیں حالانکہ اس خوف کی بظاہر کوئی وجہ موجود نہیں ہوتی۔ بس ایک مفروضہ کے تحت خیال خوف بن کر دماغ پر چھا جاتا ہے۔
میرے پاس ایک مریضہ لائی گئی جس کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ اس کے اوپر جادو کیا گیا ہے۔ اور اس جادو کی وجہ سے کھانے کے بعد اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ شوہر اس بات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے۔ میری تشخیص بھی یہی تھی کہ یہ محض وہم ہے۔ علاج کے سلسلہ میں ہضم سے متعلق کچھ دوائیں دے دی گئیں لیکن مرض میں افاقہ کی بجائے اور اضافہ ہو گیا۔ اور درد کی شدت اتنی بڑھی کہ مریضہ کو دماغی دورے پڑنے لگے۔ اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ علاج پر کئی ہزار روپے خرچ ہونے کے باوجود مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مرض دگرگوں ہو گیا۔ اس کے بعد نفسیاتی اسپتال میں ایک ماہ تک علاج ہوتا رہا۔ پھر عامل حضرات سے رجوع کیا گیا۔ جب کسی بھی صورت سے فائدہ نہ ہوا، مریضہ کو میرے پاس دوبارہ لایا گیا۔ میں نے نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ ان کے تمام حالات سنے اور ان سے کہا میں دیکھ کر بتاؤں گا کہ آپ کے اوپر کس قسم کا اثر ہے اور ان کو ہدایت کر دی کہ آپ دو تین روز کے بعد معلوم کر لیں۔ پندرہ روز تک وہ اپنے بارے میں مجھ سے پوچھتی رہیں اور میں ان سے فرصت نہ ملنے کی معذرت کرتا رہا۔ جب ان کا یقین اس نقطہ پر مرکوز ہو گیا کہ میرے سوا ان کا علاج کوئی نہیں کر سکتا تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ آپ کے اوپر زبردست اثر ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آپ صبح اذان سے پہلے اتنے بج کر اتنے منٹ پر بند آنکھوں سے میرا تصور کر کے بیٹھ جائیں۔ میں اپنی روحانی قوت سے یہ اثر ختم کر دوں گا۔ اب آپ مریضہ کی زبان سے ان کا حال سنئے۔ مریضہ نے مجھے بتایا:
اس خیال سے کہ صبح وقت مقررہ پر میری آنکھ کھلے میں ساری رات جاگتی رہی۔ گھڑی دیکھ کر وقت مقررہ پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے اندر سے میرے دماغ میں لہریں منتقل ہو رہی ہیں۔ جیسے ہی یہ لہریں میرے دماغ سے ٹکرائیں میں نے دیکھا کہ میں ایک پرانے قبرستان میں ہوں۔ وہاں دو پرانی قبروں کے درمیان ایک جگہ میں نے مٹی کھودی اور اس میں سے ایک گڑیا برآمد ہوئی۔ اس گڑیا کے سینہ پر دل کی جگہ میرا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے وہ گڑیا قبرستان کے کنوئیں میں ڈال دی اور اسی وقت پیٹ کا درد ختم ہو گیا۔
وقت مقررہ پر میں نے صرف یہ عمل کیا کہ اپنے خیال کی قوت سے مریضہ کو یہ بتایا کہ آپ کے اوپر جو اثر تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اوپر کوئی اثر یا جادو نہیں تھا۔
قانون تخلیق کے تحت انسان تین پرت کا مجموعہ ہے۔ ایک پرت صفاتی ہے، دوسرا پرت ذاتی ہے اور تیسرا پرت ذات اور صفات کو الگ الگ کرتا ہے۔ ان ہی پرت کو ہم جسد خاکی کہتے ہیں۔
ہر پرت کے محسوسات جداگانہ ہیں۔ ذات کا پرت وہم اور خیال کو بہت قریب سے دیکھتا، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ صفات کا پرت وہم اور خیال کو تصور بنا کر جسد خاکی کو منتقل کر دیتا ہے۔ اور تصورات کو معانی کا لباس پہنا کر خوشی یا غم کا مفہوم دیتا ہے۔ اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی خوبصورت باغ سے متعلق ہوں تو اس کے اندر رنگین لہریں، رنگین روشنیاں، خوشبو کے طوفان، حسن کے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں اور اگر ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہوں تو اس کے اندر رنگین روشنیوں کی بجائے تاریکی، خوشبو کی جگہ بدبو، حسن کی جگہ بدصورتی، خوشی کی جگہ غم، امید کی بجائے مایوسی اور محبت کی جگہ نفرت جیسے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں۔
قدرت نے جس پرت کو غیر جانبدار بنایا ہے اس میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک نقش باطن جس کے اندر لطیف انوار کا ذخیرہ ہوتا ہے اور ٹائم اسپیس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ دوسرا نقش ظاہر، جس کے اندر غرض پسندی، حسد، ذہنی تعیش، احساس کمتری، کم ظرفی اور تنگ نظری جیسے جذبات تشکیل پاتے ہیں۔
اصل بات خیالات کو معنی پہنانے کی ہے۔ خیالات کو جو معنی دیئے جاتے ہیں وہ تصور سجاتا ہے اور پھر یہی تصور مظاہراتی خدوخال اختیار کر کے ہماری زندگی کی راہ متعین کرتا ہے۔ غم و اندوہ سے لبریز یا آرام و آسائش سے بھرپور۔
تصورات میں اگر پیچیدگی ہے تو یہ الجھن اضطراب اور پریشانی کا جامہ پہن لیتا ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو نقش باطن میں خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ یہی خراشیں اخلاقی امراض کی بنیاد ہیں۔ ان ہی خراشوں سے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً مرگی، دماغی فتور کا عارضہ، مالیخولیا، خفقان، کینسر، بھنگندر، دق سورسل وغیرہ۔
بڑی مشکل یہ پیش آ گئی ہے کہ ہم رگ پٹھوں کی بناوٹ اور ہڈیوں کے ڈھانچہ کو انسان کہتے ہیں۔ دراصل یہ انسان وہ نہیں ہے قدرت جس کو انسان کہتی ہے۔ اس انسان کو ہم اصل انسان کا لباس کہہ سکتے ہیں۔ ہم جب مر جاتے ہیں تو ہمارے جسم میں کسی قسم کی اپنی کوئی حرکت نہیں رہتی۔ اس جسم کے ہر عضو کو کاٹ ڈالئے، پورے جسم کو گھسیٹئے، مضروب کیجئے، جب تک ہماری بنیادی خواہشات غیر آسودہ رہتی ہیں ہم مغموم رہتے ہیں۔ یہ غیر آسودگی ہمیں غیر مطمئن اور مضمحل رکھتی ہے۔ زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم ایسی چیز کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جس میں مسرت کا پہلو نمایاں ہو۔ چونکہ ہم غم زدہ یا پُر مسرت زندگی گزارنے کے قانون سے ناواقف ہیں اس لئے زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ہم مسرت کی تلاش میں اکثر و بیشتر غلط سمت قدم بڑھاتے رہتے ہیں اور ناواقفیت کی بناء پر اپنے لئے ایسا راستہ کا انتخاب کر لیتے ہیں جس میں تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم جب زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ زندگی کے روز و شب اور ماہ و سال آدھے سے زیادہ آرزودگی اور مایوسی میں گزر جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے میں مسرت کے روشن قندیل اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ ہم ناخوش اور غیر مطمئن اس لئے ہوتے ہیں کہ ہمارے اندر جو خواہش پیدا ہوتی ہے وہ غیر شعوری ہے اور ہم خواہش کے پس پردہ ضرورت سے ناواقف ہیں۔
انسان دو تقاضوں سے مرکب اور محرک ہے۔ ایک تقاضہ جبلی ہے اور ایک فطری۔ جبلی تقاضہ پر ہم بااختیار ہیں اور فطری تقاضہ پر ہمیں کسی حد تک تو اختیار حاصل ہے مگر ہم اس تقاضے کو کلیتاً رد کرنے پر قادر نہیں ہیں۔
ایک ماں اپنے بچے سے محبت کرتی ہے بچہ مر جاتا ہے۔ ماں رو دھو کر بالآخر صبر کر لیتی ہے۔ عرف عام میں ماں کی محبت کو فطری تقاضہ کہا جاتا ہے۔ اس مردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے، کچھ بھی کیجئے، جسم کی طرف سے اپنی کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اب ہم اسی بات کو دوسری طرح بیان کرتے ہیں:
آپ نے قمیض پہنی ہوئی ہے۔ اگر آپ یہ چاہیں کہ قمیض بذات خود جسم سے الگ بھی حرکت کرے تو یہ بات ناممکن ہے جب تک قمیض جسم کے اوپر ہے جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے اندر بھی حرکت موجود ہے۔ اگر آستین ہاتھ کے اوپر ہے تو ہاتھ ہلانے سے آستین کا ہلنا بھی ضروری ہے۔ ہاتھ سے الگ آستین کی حرکت بعید از قیاس ہیں۔ آپ یہ چاہیں کہ ہاتھ تو حرکت کرے لیکن آستین حرکت نہ کرے، ایسا نہیں ہوتا۔ جب تک ہاتھ کے اوپر آستین ہے ہاتھ کی حرکت کے ساتھ آستین کا ہلنا ضروری ہے۔ بالکل یہی حال جسم کا ہے۔ جسم کو جب ہم لباس کہتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ خاکی جسم روح کا لباس ہے۔ جب تک روح(انسان) موجود ہے جسم بھی متحرک ہے۔ اور اگر روح موجود نہیں ہے تو روح کے لباس(جسم) کی حیثیت قمیض کی طرح ہے۔
ہر انسان کی یہ طبعی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور خیالات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مل کر کس طرح زندگی بنتے ہیں۔ زندگی میں خواہشات کی حیثیت کیا ہے۔ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ دراصل یہ تقاضہ فطری نہیں جبلی ہے۔
بھوک کا تقاضہ ابھرتا ہے۔ زندگی میں سونے اور بیدار رہنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کوئی آدمی بھوک کو رفع کرنے کے لئے خوراک میں کمی بیشی کر سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کبھی کچھ نہ کھائے یا پیاس کا تقاضہ پورا کرنے کے لئے پانی نہ پئے یا ساری عمر جاگتا رہے یا ساری عمر سوتا رہے۔ ماں کی محبت کو اگر فطری جذبہ قرار دیا جائے تو ماں بچے کی جدائی کے غم میں بچہ کے ساتھ مر جائے گی یا بچہ کی یاد اس کے حواس کا شیرازہ بکھیر دے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
دنیا میں رائج علوم کی اگر درجہ بندی کی جائے تو ہم انہیں تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
1۔ طبیعات (فزکس)
2۔ نفسیات (سائیکالوجی)
3۔ مابعد النفسیات (پیرا سائیکالوجی)
علم طبیعات کے ضمن میں زندگی کے وہ اعمال و اشغال آتے ہیں جن سے کوئی آدمی محدود دائرے میں رہ کر مستفیض ہوتا ہے۔ یعنی اس کی سوچ کا محور مادہ اور صرف مادہ ہوتا ہے۔ مادی دنیا کے اس خول سے وہ باہر نہیں نکلتا۔
نفیسات وہ علم ہے جو طبیعات کے پس پردہ کام کرتا ہے۔ خیالات و تصورات اور احساسات کا تانا بانا اسی علم سے مرکب ہے۔ خیالات اگر تواتر کے ساتھ علم الطبیعات کے دائرے میں منتقل ہوتے رہیں تو آدمی صحت مند خیالات کا پیکر ہوتا ہے اور اگر خیالات کے اس لامتناہی سلسلے میں کوئی رخنہ در آئے اور علم طبیعات کا دائرہ اس خیال میں مرکوز ہو جائے تو آدمی نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔
علم مابعد النفسیات علم کی اس بساط کا نام ہے جس کو روحانیت میں مصدر اطلاعات یعنی (سورس آف انفارمیشن) کہا جاتا ہے۔ علمی حیثیت میں یہ ایک ایسی ایجنسی ہے جو لاشعور کے پس پردہ کام کرتی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہوئی کہ آدمی تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور، لاشعور اور ورائے لاشعور۔ جب ہم کسی مظاہراتی خدوخال میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں ان تین دائروں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ یعنی پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصوراتی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصوراتی نقش و نگار مظہر کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اسی بات کو ہم دوسری طرح بیان کرتے ہیں تا کہ بات پوری طرح واضح ہو جائے۔
کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ خیالات یعنی اطلاع (انفارمیشن) تمام موجودات میں قدر مشترک رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پانی کو ہر آدمی، ہر حیوان اور نباتات و جمادات پانی سمجھتے ہیں اور اسی طرح اس سے استفادہ کرتے ہیں جس طرح ایک آدمی کرتا ہے۔ جس طرح پانی کو پانی کہا جاتا ہے اسی طرح آگ ہر مخلوق کے لئے آگ ہے۔ آدمی اگر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو بکری، کبوتر، شیر اور حشرات الارض بھی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آدمی مٹھاس پسند کرتا ہے، دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتا لیکن یہ ہر دو اشخاص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہنے پر مجبور ہیں۔ پتا یہ چلا کہ جہاں آدمی خیالات اور تصورات میں قدر مشترک رکھتے ہیں وہاں وہ خیالات میں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق معانی پہنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ آپ کا یہ سوال کہ کیا ہم اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور کیا دوسروں کے خیالات معلوم کر سکتے ہیں؟ کے جواب میں عرض ہے کہ آپس میں خیالات کی منتقلی کا نام ہی زندگی ہے۔ ہم اپنے سے علاوہ دوسرے فرد کو صرف اس لئے پہچانتے ہیں کہ اس کے تشخص کے خیالات ہمیں منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر زید کے خیالات اور خیالات کا مجموعہ زندگی، بکر کے دماغ کی اسکرین پر منتقل نہ ہو تو بکر زید کو نہیں پہچان سکتا۔ درخت کی زندگی میں کام کرنیوالی وہ لہریں جن کے اوپر درخت کا وجود قائم ہے۔ اگر آدمی کے اندر منتقل نہ ہوں تو آدمی درخت کو نہیں پہچان سکے گا۔
دیکھنے اور سمجھنے کی طرزیں دو رخ پر قائم ہیں ایک براہ راست اور دوسری بالواسطہ۔ بالواسطہ دیکھنے کی طرز یہ ہے کہ ہم علمی اعتبار سے دو وجود کا تعین کرتے ہیں۔ ایک وجود شاہد یعنی دیکھنے والا دوسرا وجود مشہود جو دیکھا جا رہا ہے۔ ایک آدمی جب بکری کو دیکھتا ہے کہ یہ بکری ہے۔ بالفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں بکری کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ بالواسطہ دیکھنا ہے۔ دوسری طرز یہ ہے کہ بکری ہمیں دیکھ رہی ہے اور ہم بکری کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یعنی بکری کی زندگی کو قائم کرنیوالی لہریں ہمارے دماغ کی اسکرین پر بصورت اطلاع وارد ہوئیں۔ دماغ نے ان لہروں کو نقش و نگار میں تبدیل کیا اور یہ نقش نگار جب شعور کی سطح پر نمودار ہوئے تو بکری کی صورت میں مظہر بن گئے۔ قانون روحانیت کی رُو سے فی الواقع براہ راست دیکھنا ہی صحیح دیکھنا ہے اور بالواسطہ دیکھنا محض مفروضہ (فکشن) ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بہت زیادہ توجہ طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ حضورﷺ سے ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘اور تُو دیکھ رہا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں، تیری طرف، وہ کچھ نہیں دیکھ رہے۔’’ الاعراف 198
آیت مقدسہ کے مفہوم پر غور کیجئے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن باوجود دیکھنے کے وہ کچھ نہیں دیکھ رہے۔
حاصل کائنات فخر موجودات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدسی نفس تشخص میں اللہ تعالیٰ کی جو تجلیات اور انوار کام کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی آنکھوں سے مخفی ہیں اور تجلیات اور انوار کو نہ دیکھنا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کچھ نہ دیکھنا ہے۔
اپنی حدود میں رہتے ہوئے براہ راست دیکھنے کی طرز رکھنے والے جن بندوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اندر موجود انوار و تجلیات کا مشاہدہ کیا۔ وہ حضورﷺ کے ہم خیال بن گئے، یہ بات الگ ہے کہ براہ راست دیکھنا کسی بندے میں قلیل تھا اور کسی بندے میں زیادہ۔
ٹیلی پیتھی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جدوجہد اور کوشش کر کے براہ راست دیکھنے کی طرز سے قریب ہو جائے۔ جن حدود میں وہ براہ راست طرز نظر سے وقوف حاصل کر لیتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہ لہریں جو خیال بنتی ہیں اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ عجیب سربستہ راز ہے کہ پوری کائنات کے افراد اطلاعات اور خیالات میں ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ البتہ اطلاعات میں معانی پہنانا الگ الگ وصف ہے۔ بھوک کی اطلاع شیر اور بکری دونوں میں موجود ہے لیکن بکری میں اس اطلاع کی تکمیل میں گھاس کھاتی ہے اور شیر بھوک کی اس اطلاع کو پورا کرنے کے لئے گوشت کھاتا ہے۔ بھوک کے معاملے میں دونوں کے اندر قدر مشترک ہے۔ بھوک کی اطلاع کو الگ الگ معانی پہنانا دونوں کا جداگانہ وصف ہے۔
آپ کا یہ سوال کہ ٹیلی پیتھی کو جاسوسی میں کیوں استعمال نہیں کیا جاتا اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے سربستہ راز کیوں معلوم نہیں کئے جاتے، اس کے بارے میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ ہپناٹزم کے ذریعے یورپ میں بڑے بڑے آپریشن کر دیئے جاتے ہیں اور مریض کو تکلیف کا احساس بالکل نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی ایک ہی قبیل کے دو علم ہیں۔ ان کا منبع اور مخزن ایک ہے یعنی خیالات کے اوپر گرفت کا مضبوط ہونا۔
ایسے صاحب روحانیت جو ٹیلی پیتھی کے قانون سے واقف ہیں وہ آزاد ذہن ہوتے ہیں، انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ جاسوسوں کو پکڑتے پھریں اور پولیس کا کردار انجام دیں۔ البتہ یہ بات عام طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ کوئی بندہ کسی صاحب روحانیت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اگر اس بندے کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ انہوں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بیان کر دیا۔
اہرام مصر کب اور کیوں قائم ہوئے اور ان کو تیس(۳۰) لاکھ تراشے ہوئے پتھروں سے کس طرح بنایا گیا جب کہ ہر چٹان کا وزن ستر (۷۰) ٹن ہے اور یہ زمین سے تیس سے چالیس فٹ کی بلندی پر نصب ہیں اور ان اہرام کا فاصلہ کم سے کم پندرہ(۱۵) میل اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو میل ہے یعنی جن پتھروں سے اہرام مصر کی تعمیر ہوئی وہ پانچ سو میل دور سے لائے گئے تھے۔
میرے بھائی! کسی صاحب مراقبہ کے لئے یہ بات معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن ان کے سامنے اس سے بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے رموز ہوتے ہیں اور وہ ان رموز تجلیات میں محو استغراق رہتے ہیں۔
ایک بزرگ رمپا خیالات کی لہروں کے علم سے وقوف رکھتے ہیں۔ انہوں نے ماہرین آثار قدیمہ کے اصرار پر یہ انکشاف کیا ہے کہ بیس (۲۰) ہزار سال پہلے کے وہ لوگ جنہوں نے اہرام مصر بنائے ہیں آج کے سائنسدانوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے، اور وہ ایسی ایجادات میں کامیاب ہو گئے تھے جن کے ذریعے پتھروں میں سے کشش ثقل ختم کر دی جاتی تھی۔ کشش ثقل ختم ہو جانے کے بعد پچاس (۵۰) یا سو (۱۰۰) ٹن وزنی چٹان ایک آدمی اس طرح اٹھا سکتا ہے جیسے پروں سے بھرا ہوا ایک تکیہ۔ اس طرح سائنس کی اس دنیا میں ایک اور بزرگ جناب ایڈگر کیسی کے مطابق ان پتھروں کو ہوا میں تیرا(فلوٹ) کر موجودہ جگہ بھیجا گیا ہے۔
اہرام مصر کے سلسلے میں ان دانشور بزرگوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ لہروں کی منتقلی کے اس قانون کے مطابق ہے جس کو ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے۔
فلپائن میں آپریشن کی دنیا میں یہ حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے کہ ایک ڈاکٹر اور ان کی ساتھی انگلی کے اشارے سے بڑے سے بڑا آپریشن کر دیتے ہیں۔ اور بڑی سے بڑی رسولی انگلی کے اشارے سے جسم سے باہر آ جاتی ہے۔ یہ کوئی توہماتی بات نہیں۔ مووی کیمرے سے اس کی باقاعدہ فلم لی گئی ہے اور بڑے بڑے دانشوروں نے اسکرین پر اس فلم کو دیکھا ہے۔
ہمارے اسلاف میں ایک بزرگ شاہ ولی اللہؒ گزرے ہیں جن کے ہاتھ اس جرم میں توڑ دیئے گئے کہ انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا تھا۔ انہی بزرگ نے تحریری طور پر یہ بتایا کہ انسان کے جسم سے اوپر ایک اور انسان ہے جو روشنیوں کی لہروں سے مرکب ہے جس کا اصطلاحی نام انہوں نے نسمہ رکھا ہے اور جسے ڈاکٹر رمپا نے اورا کا نام دیا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے یہ بات واضح دلیل کے ساتھ بتائی ہے کہ اصل انسان نسمہ یعنی اورا ہے جتنی بیماریاں یا الجھنیں اور پریشانیاں انسان کو درپیش ہوتی ہیں وہ نسمہ میں ہوتی ہیں۔ گوشت پوست سے مرکب خاکی جسم میں نہیں ہوتیں۔ البتہ نسمہ کے اندر موجود کسی بیماری یا پریشانی کا مظاہرہ جسم پر ہوتا ہے یعنی جسم دراصل ایک اسکرین ہے اور نسمہ فلم ہے۔ فلم میں سے اگر داغ دھبہ دور کر دیا جائے تو اسکرین پر تصویر واضح اور صاف نظر آتی ہے۔ بالفاظ دیگر اگر نسمہ کے اندر سے بیماری کو نکال دیا جائے تو جسم خود بخود صحت مند ہو جائے گا۔
شاہ ولی اللہؒ نے اس بات کی بھی تشریح کی ہے کہ آدمی اطلاعات، انفارمیشن یا خیالات کا مجموعہ ہے۔ صحت مند خیالات پرسکون زندگی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس کے برعکس اضمحلال، پریشانی، اعصابی کشاکش، دماغی کشمکش اور نت نئی بیماریاں خیالات میں پیچیدگی، پراگندگی اور تخریب کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ ٹیلی پیتھی چونکہ انفارمیشن، خیالات یا اطلاع کو جاننے کا علم ہے اس لئے یہ علم سیکھ کر کوئی آدمی خود بھی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس چیز کے اندر کام کرنیوالے اوصاف، اس کی حقیقت اور اس کی ماہیت سے وقوف حاصل ہو۔ وقوف سے مراد یہ ہے کہ میں نہ صرف یہ کہ لہروں کے علم سے واقفیت ہو بلکہ ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ لہریں منجمد نہیں ہوتیں اور متحرک ہیں اور ان کی ہر حرکت زندگی کے اندر کام کرنیوالا ایک تقاضہ ہے اور ان تقاضوں سے زندگی کے اجزاء مرتب ہوتے ہیں۔ ہر لہر اپنے اندر ایک وصف رکھتی ہے اور اس وصف کا نام ہی طاقت (فریکوینسی) رکھتے ہیں۔ کسی طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس طاقت کے استعمال سے واقف ہوں۔ اسی وقوف کو اللہ نے حکمت کا نام دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘اور ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ وہ اسے استعمال کرے اور جو لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہیں فائدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ اس کا کفران کرتے ہیں وہ خسارے میں رہتے ہیں۔’’ سورۃ القمان – 12
قرآن پاک پوری نوع انسانی کے لئے منبع ہدایت ہے جو لوگ حکمت کے قانون میں تفکر کرتے ہیں اور اس کی ماہیت میں اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں مرکوز کر دیتے ہیں ان کے اوپر طاقت کے استعمال کا قانون منکشف ہو جاتا ہے اور نئی سے نئی ایجادات مظاہر بن کر سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی استعمال کا یہ قانون ایٹم بم بن جاتا ہے اور کبھی ریڈیو اور ٹی وی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد ہے ‘‘اور ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے۔’’
غور و فکر کا تقاضہ ہے اور اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہانے کا مقام ہے کہ موجودہ سائنس کی ہر ترقی میں لوہے کا وجود زیر بحث آتا ہے جن لوگوں نے لوہے کی خصوصیات اور اس کے اندر کام کرنیوالی لہروں کی طاقت کو تلاش کر لیا ان کے اوپر یہ راز منکشف ہو گیا کہ بلاشبہ لوہے میں نوع انسانی کے لئے بے شمار فوائد مضمر ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو محض ایصال ثواب اور حصول برکت کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قرآن پاک میں تسخیر کائنات سے متعلق جو فارمولے بیان ہوئے ہیں ان کو ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جن لوگوں نے تسخیر کائنات سے متعلق فارمولوں کے رموز و نکات پر ریسرچ کی، اس کوشش میں اپنی زندگی کے ماہ و سال صرف کر دیئے انہیں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا کی۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 220 تا 236
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔