راضی برضا
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11374
امام ابوحنیفہؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا۔ ’’سمندر میں جہاز ڈوب گیا ہے اور کروڑوں کا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘
امام ابو حنیفہؒ چند سیکنڈ خاموش رہے اور کہا۔ ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘
کچھ عرصہ بعد خبر آئی جو جہاز ڈوبا تھا وہ امام اعظم کا نہیں بلکہ دوسرے سوداگر کا تھا۔ امام اعظم کا جہاز ساحل پر لگ گیا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔ سیکرٹری نے خوشی خوشی اطلاع دی۔
امام اعظم نے کہا۔ ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘
سیکرٹری نے پوچھا۔ ’’جہاز ڈوبنے کی خبر پر شکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘
امام اعظم نے فرمایا۔’’میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا۔ معلوم ہوا کہ دل پر خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔
دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال تھا۔
دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نقصان ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نفع ہو گیا۔ میں نے اس بات پر شکر کیا کہ دینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے ، لینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔
میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ راضی برضا ہوں اس لئے دونوں مرتبہ میں نے شکر ادا کیا ہے۔‘‘
یہ کیسی نادانی ہے کہ ۶۰ سال کا آدمی ۶۱ویں سال میں داخل ہونے کے لئے پریشان ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ پیدائش کے پہلے دن سے ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ نے ہر طرح میری کفالت کی ہے۔ میں بھوکا نہیں سویا۔ ننگا نہیں رہا۔ ایک تھا ایک سے دو ہوا۔ دو سے آٹھ ہوئے۔ بچوں کی شادیاں کیں، بچوں کے بچے ہوئے، بچوں کے بچوں کی تقریبات کیں۔
انسان اپنی مرضی پر کبھی غور نہیں کرتا کہ میں پیدا ہوا میری پرورش ہوئی، بچے ہوئے بچوں کے بچے ہوئے۔ پیدا ہوا تو میرے پاس جھونپڑی نہیں تھی اور میں اب ساٹھ سال کا ہوں۔ میرے تمام بچوں کے پاس زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔
یہ خیال کیوں نہیں آتا؟
اس لئے نہیں آتا کہ آدمی ذات کے خول میں بند ہے انسان مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے لیکن گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہیں کرتا۔ روحانی نقطہ نظر سے زندگی انسان کی ہو، زندگی سیاروں کی ہو، سورج یا چاند کی ہو یا درخت کی ہو یا کسی اور مخلوق کی ہو۔۔۔ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 97 تا 98
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔