دین اوردنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟
مکمل کتاب : دین اوردنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟
مصنف :
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47317
جنوری 2000ء میں مائیکروسافٹ نیٹ ورک براڈ کاسٹنگ کی طرف سے ایک بین الاقوامی سروے ہوا۔ اس سروے میں یہ طے کیا جانا تھا کہ ایک ہزار سال میں کونسی ہستی سب سے زیادہ محترم اور شخصیت ساز ہوئی ہے۔ متفقہ طور پر حضرت محمد ؐ کو ہزار سال میں تمام انسانوں میں عظیم انسان تسلیم کیا گیا ہے۔
مشرق و مغرب دونوں خطوں کے دانشوروں نے حضرت محمدؐ کو آخری Reformer بتایا ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ حضرت محمدؐ کے بعد کوئی ایسی ہستی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی جو حضرت محمدؐ سے کسی بھی طور پر بڑھ کر ہو۔
ہندو ریسرچ اسکالر ڈاکٹر پنڈت وید پرکاش اپادھیائے نے برس ہا برس کی تحقیق کے بعد ایک معرکتہ الآراء کتاب ‘‘کالکی اوتار’’ لکھی ہے۔ آٹھ عالِم فضل پنڈتوں نے بغور مطالعہ کے بعد اس کتاب میں مَسوَدّہ کو ہر اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔
کتاب میں ہندو دھرم کی مقدس کتابوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ:
• ہندو مَت کے ماننے والے جس آخری اَوتار کا انتظار کررہے ہیں وہ چودہ سو سال پہلے اس دنیا میں تشریف لاچکے ہیں۔
• آخری پیغمبر (حضرت محمدؐ) کی نسبت ڈاکٹر پرکاش نے وضاحت کی ہے کہ قدیم صحائف میں درج کالکی اَوتار کے والد کے نام وِشنُو بھگَت کا مطلب ہے ‘‘بھگوان کا غلام’’ یا ‘‘اللہ کا بندہ’’ اور والدہ سَومَتی کے نام کا مطلب ‘‘امن، سکون یا قرار’’ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے والد محترم کا نام عبداللہ ہے جس کے معانی ‘‘اللہ کا بندہ’’ جبکہ والدہ محترمہ کا نام آمنہ ہے جو ‘‘امن’’ سے ماخوذ ہے۔
• ڈاکٹر پرکاش نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ قدیم ہندو صحیفوں کے مطابق آخری پیغمبر (کالکی اَوتار) کی پیدائش ایک جزیرہ پر ہوگی
• کھجور اور زیتون ان کی بنیادی خوراک ہوگی اوراپنے علاقے میں سچے اور امین کے طور پر جانے جائیں گے۔
• وَیدوں کے مطابق آخری اَوتار کی پیدائش اپنے عہد کے معزز ترین قبیلہ میں ہوگی…. اور
• خدا آخری اَوتار کو ایک برق رفتار گھوڑے پر آسمانی سیر کرائے گا
مختصراً یہ کہ موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ کو سب سے بڑا انسان اور آخری نجات دہندہ کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے نوعِ انسانی کی رہنمائی اور حقیقت کی انسپائریشن ہے۔ انسپائریشن کو قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے قلب و نظر کو وہ روشنی عطا ہوجاتی ہے جو انہیں حقیقت سے آشنا و ہمکنار کردیتی ہے۔
زمین پر فساد کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل نے ابلیس کے فریب میں آکراپنے بھائی ہابیل کا خون کیا۔ تب سے اب تک زمانہ نیکی و بدی کے نئے نئے تغیرات سے دوچار ہے۔
حضرت محمدؐ کی تشریف آوری کے باعث اولادِ آدم شرف و احترام کے نئے تصوّرات سے واقف ہوئی۔
آپ ؐ نے اللہ کی آخری کتاب قرآن کے ذریعہ انسان کو فلاح و کامرانی کے اصول اور طَور طریقے سکھائے۔
آپ ؐ کی تعلیمات سے انسان نے اس دنیا میں خودداری اور عزت و سربلندی کے ساتھ جینا سیکھا اور آخرت میں سرخروئی کے رازوں سے واقف ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف زمین پر امن و امان قائم ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ہمیں رہنمائی عطا کرتی ہیں کہ بندہ ایسی طرزِ فکر اختیار کرے جو راست بازی، خیر اور تعمیر پر مبنی ہو
حضرت محمدؐ نے قبیلوں میں منتشر اور خانہ جنگی میں مبتلا لوگوں کو ایک منظّم قوم کی شکل دی۔
آپ کی انقلابی قیادت میں مدینہ کی ریاست محض دس سالوں کے اندر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا مرکز بن گئی۔
نبی کریمؐ نے جونظام زندگی عطا فرمایا اس پر عمل کرکے تھوڑے عرصہ میں ریاست کے پاس اس قدر وسائل آگئے کہ ریاست غریبوں کی کفیل بن گئی۔ اس نظام پر عمل کرنے سے مملکت میں غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی۔ خوشحالی میں اضافہ ہوا اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ دن آگیا کہ زکوٰۃ دینے والوں کو مستحقین لوگ نہیں ملتے تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ کیسے بنایا جائے؟ جبکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معیارات (Life Standards) میں زمین و آسمان کا فرق آچکا ہے۔ پہلے سفر کے لئے اونٹ، بیل گاڑیاں اور دیگر چوپائے استعمال ہوتے تھے جبکہ آج مہینوں اور ہفتوں پر محیط مسافتیں دنوں اورگھنٹوں میں طے ہوجاتی ہیں۔معاش اور معاشرت کے لئے رابطے پہلے وقت طلب سفر اور بہت سارا وقت صرف کرکے براہ راست ملاقاتوں پرمنتج ہوتے تھے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت نسان آج اس قابل ہوچکا ہے کہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر دنیا بھر کی خبر رکھ سکتا ہے، دوست احباب سے بالمشافہ گفتگو کرسکتا ہے ایک بٹن دبا کر کاروباری لین دین کرسکتا ہے۔
حضرت محمدؐ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت دی ہے کہ آپؐ انسانی فطرت کی تمام خوبیوں سے واقف ہیں۔ چودہ سو سال سے اب تک دنیا بہت سے مدّوجزر سے گزری، بہت سے عروج و زوال کا مظاہرہ ہوا لیکن حضرت محمدؐ کی تعلیمات ہر دورمیں نوعِ انسانی کی رہنمائی کرتی رہیں۔
حضرت محمدؐ کی تعلیمات جنگ ہو یا امن، خوشی ہو یا غمی، غربت ہو یا امیری، گمنامی ہو یا ناموری، خسارہ ہو یا منافع، تحقیق ہو یا تقلید، تدریس ہو یا تحصیل علم، مزدوری ہو یا تجارت غرض زندگی کے ہر پہلو، ہر انسانی رویئے، ہر طبقے اور ہر خطے میں اپنی دائمی اساس پر قائم ہیں۔
اللہ کے محبوب ؐ کے عہد میں دس سال کے عرصہ میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر لاکھوں انسانوں نے نہ صرف آپؐ کی تعلیمات کو تسلیم کیا بلکہ اپنے علاقوں اور قبیلوں پر بحیثیت حکمران آپؐ کی فرماں روائی بھی قبول کی۔ اس طرح تقریباً 274 میل روزانہ کی اَوسط سے دس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان فتوحات میں دشمن کے ماہانہ اَوسطاً دو سے بھی کم آدمی قتل ہوئے، جبکہ مسلمانوں کا جانی نقصان اس سے بھی کئی گنا کم رہا۔ یہ دنیا میں سب سے پرُامن انسانی نفوذکا حیرت انگیز واقعہ ہے کیونکہ حضرت محمدؐ کا اولین مقصد اللہ کے پیغام کو پھیلانا تھا، دلوں میں محبت کے دیپ جلانا تھا، اعلیٰ انسانی قدروں سے آراستہ معاشرہ کی تشکیل کرنا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے امن و آشتی کا پیغام عام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست علمی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کی بدولت مختصر سی مدت میں مسلمان قوم علم کی مورثِ اعلیٰ بن گئی۔ صحابہ کرامؓ کی تعلیم و تربیت کے لئے آپؐ نے جو ماحول تشکیل دیا وہ فطری تقاضوں اوراخلاقی معیار کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ تھا۔
خطۂِ عرب میں باقاعدہ تعلیم کا پہلا مرکز ‘‘صُفّہ’’ رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبویؐ میں قائم کیا۔ اس مرکز کی حیثیت مدینہ میں یونیورسٹی کی تھی جس کا بنیادی نصاب قرآن تھا۔ مسجد نبویؐ میں صُفّہ کی تعمیر سے علم و فن کے حصول کی راہیں متعین ہوئیں اور مظاہرِ قدرت میں غور و فکر اور تلاش و جستجو کے احکامات پر مبنی قرآنِ حکیم کی طرز فکر ذہنوں میں راسخ ہوگئی۔
صُفّہ میں زیرتعلیم طالبات اور طلبہ میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ باقاعدہ طالب علموں کے علاوہ کسب معاش کا فریضہ پورا کرنے کے بعد علم حاصل کرنے کے لئے آنے والے طالب علموں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ ہفتہ میں ایک دن خواتین کے لئے مخصوص تھا۔
صُفّہ میں علمی نشستوں کا اہتمام اس طرح بھی ہوتاتھا کہ رسول اللہ ﷺ سے قرآن اور قرآن میں بتائی گئی حکمتوں کے بارے میں آپؐ کے ارشادات سننے کے بعد صحابہ کرامؓ ٹولیوں میں بیٹھ کر ان ارشادات پر غور و فکر کرتے تھے اور اپنی اپنی رائے قائم کرکے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تبادلۂِ خیال کرتے تھے۔
صُفّہ کا ایک حصہ طلباء کے لکھنے پڑھنے اور ابتدائی تعلیم دینے کے لئے مختص تھا۔
دوسرے حصہ میں مختلف ممالک کی زبانیں سکھانے کا انتظام تھا۔ دوسرے ممالک کی سفارت پر جانے والے نبوی سفیر پہلے اس ملک کی زبان سیکھتے تھے۔ کئی صحابہ کرامؓ ایک سے زائد زبانیں جانتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:
‘‘جس نے دشمن کی زبان سیکھ لی، وہ دشمن کے شر سے محفوظ ہوگیا’’۔
حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے علم کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس علم کی مثال اس بارش کی طرح ہے کہ جو کسی جگہ برسی
زمین کے اچھے حصے نے پانی جذب کیا اور وہاں خوب سبزہ اور گھاس اُگی۔ کچھ زمین بنجر تھی وہاں پانی جمع ہُوا، اللہ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، وہاں سے لوگوں نے پانی پیا، جانوروں کو پلایا اور اس سے فصلوں کو سینچا۔
جبکہ کچھ زمین ناہموار، چٹیل میدان کی شکل میں تھی جہاں پانی رکتا ہے نہ گھاس اگتی ہے۔
پہلی مثال اس شخص کی ہے جس نے دین میں مہارت حاصل کی اور اللہ نے میری بعثت سے اسے فائدہ پہنچایا چنانچہ اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔
جبکہ دوسری مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین کی طرف توجہ نہیں کی اور جو ہدایت دے کر مجھے مبعوث کیاگیا ہے اسے قبول نہیں کیا’’۔
رسول اللہ ﷺ صرف زبانی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ خود عمل کرکے عملی تربیت کے مراحل بھی طے کراتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے….
‘‘علم پکارتا ہے عمل کو، پس اگر عمل آجاتا ہے تو علم ٹھہرجاتا ہے، ورنہ چلاجاتا ہے’’۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ حضرت کلاہؓ بن حنبل حاضر ہوئے اور سلام کئے بغیر محفل میں شریک ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں محفل میں مہذب طریقہ سے شامل ہونے کا طریقہ عملی طور پر یوں تعلیم کیا کہ انہیں حکم دیا کہ
‘‘واپس لوٹ جاؤ، پہلے السلام علیکم کہو اور پھر پوچھو کیا میں اندر آسکتا ہوں’’۔
عام مشاہدہ ہے کہ عادتوں کو مستحکم کرنے میں تکرار کی بڑی اہمیت ہے۔ جب کوئی عمل بار بار اور بکثرت کیا جاتا ہے تو عادت مستحکم ہوجاتی ہے۔
جدید تجرباتی تحقیق نے یادداشت اور تکرار کے درمیان مضبوط رشتہ ثابت کیا ہے۔تکرار سے معلومات ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں اور فن میں پختگی آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ جو بات بھی تعلیم فرماتے تھے اسے تاکیداً ایک سے زیادہ مرتبہ دہراتے تھے تاکہ سننے والے پوری طرح سمجھ جائیں اوراُن کے ذہن معانی کا احاطہ کر لیں۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ جب کوئی بات سمجھاتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے قرآن کی دس آیات سیکھتے تھے اور اس کے بعد والی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے جب تک کہ پہلی دس آیات کے معنی کو اچھی طرح جان کران پرعمل نہ کرلیں۔
رسول اللہ ﷺ گفتگو کے دوران لوگوں کو متوجہ رکھنے، ان کے ذہنوں میں غور و فکر کی طرزیں مستحکم کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔ اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آپ دورانِ گفتگو حاضرین سے سوالات کرتے تھے۔
حجتہُ الوداع کے موقع پر خطاب کے دوران آپؐ نے حاضرین کومخاطب کرکے فرمایا:
‘‘یہ کونسا مہینہ ہے؟’’
حاضرین نے جواب دیاکہ اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ واقف ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے توقف فرمایا، صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ آپؐ کسی اور نام سے اس مہینہ کو پکاریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول اللہ نے فرمایا ‘‘کیا یہ ذو الحج نہیں ہے؟’’
حاضرین نے یک زبان ہو کر عرض کیا: کیوں نہیں یہ ذو الحج ہی ہے
پھر رسول اللہ ﷺ نے استفسار کیا۔‘‘یہ کون سا شہر ہے’’۔
کچھ توقف کے بعد آپؐ نے فرمایا ‘‘ کیا یہ مکہ معظمہ نہیں ہے؟’’
لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا: ‘‘یہ کون سا دن ہے؟’’
کچھ دیر سکوت کے بعد آپؐ نے فرمایا: ‘‘کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟’’
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: جی ہاں بالکل ہے۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے پاک دن، پاک مقام اور پاک مہینہ کی اہمیت واضح کرنے کے بعدفرمایا: ‘‘بےشک تمہارا خون، تمہارا مال اور آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے لئے یہ دن، شہر اور مہینہ’’۔
علم وعمل کے ساتھ شخصی تعمیر (Personal Growth) کے دیگر پہلوؤں کی طرف بھی رسول اللہ ﷺ نے خصوصی توجہ دی ہے۔ شخصیت کی تعمیر یا ٹوٹ پھوٹ میں ہم نشینوں کی صحبت اور ان کے ماحول کا بڑا اثر ہے۔ مجموعی طور پر پاک طینت افراد کے درمیان رہنے کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے واضح ہے۔‘‘آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے، اس لئے دیکھ لینا چاہئے کہ تم کس سے دوستی کررہے ہو؟’’۔
اسی طرح قدسی نفس برگزیدہ بندے کی تلاش اور قربت و صحبت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
‘‘جس نے زمانے کے امام کو اِدراکِ قلبی سے تلاش نہیں کیا، وہ جاہلیت کی موت مرا’’۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ‘‘تم مومن کو ہی اپنا ساتھی بناؤ’’۔ ایک صاحب نے پوچھا۔‘‘ہم نشین کیسے ہونے چاہئیں اور کن لوگوں کی قربت اختیار کی جائے؟’’۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے۔ جن کی گفتگو سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلادے’’۔
ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
چار باتیں آدمی کی خوش نصیبی کی علامت ہیں۔
① اس کی بیوی نیک ہو
② اولاد فرمانبردار اور صالح ہو
③ اس کے ساتھی نیک ہوں… اور
④ اس کا رزق اپنے وطن میں ہو۔
مالکِ ارض و سماء نے رسول اللہ ﷺ کوعالمین کے لئے رحمت بناکر بھیجاہے۔ آپ ؐ دنیا بھر کے انسانوں کے لئے معلّم و ہادی ہیں اورامراضِ ظاہری و باطنی کے لئے طبیبِ کامل بھی۔ آپؐ نے روحانیت، تہذیب و تمدن اور معاشرت کے اعلیٰ اصول دنیا کو بتائے۔ پاکیزہ اور صحت بخش زندگی کے انمول فارمولوں کا فہم عطا کیا اور معمولاتِ زندگی کو بہتر طور پر جاری رکھنے کے لئے صحت مند تفریح اپنانے کی عملی تعلیم دی۔
یہ تعلیمِ نبویؐ کا اعجاز ہے کہ آج کے مہذب معاشرہ میں ان تمام انسانی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے جو ایک صحت مند اور فعال معاشرہ کے لئے لازمی ہیں۔
اہل باطن کہتے ہیں کہ…. زمانہ کسی بھی نہج پر رواں دواں ہو، حقیقت ہر دَور اور ہرماحول میں یکساں رہتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے فرد کے لئے زندگی کے ہر کردار کے لئے رہنما مثالیں موجود ہیں۔ یہ رہنمائی اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ زمانہ کی دست بُرد اس پر اثرانداز نہیں ہوتی…. بلکہ یہ ہر دَور اور اِرتقاء کے ہر زینہ پر …. نوعِ انسانی کے لئے اس کا اِتّباع…. کامیابی اور کامرانی کی ضمانت ہے۔
سیرت طیبہ کا مطالعہ یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاشرے میں نہایت عملی اور تعمیری کردار ادا فرمایا ہے اور ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو کہ ہر دَور میں ہر فرد کے لئے قابلِ تقلید ہیں۔
آپ ؐ ایک مخلص شوہر تھے۔ آپؐ صاحب شفقت باپ تھے۔ فرمانبردار بیٹے اور تابعدار بھتیجے تھے۔ خیرخواہ ہمسائے اور قابلِ بھروسہ ساتھی تھے۔ ہمدرد آجر (EMPLOYER) اور دیانتدار تاجر تھے۔ آپؐ رشتہ داروں کا خیال رکھنے والے اور عہد کا پاس کرنے والے تھے۔ خوش اخلاق، دانش مند، امانت دار اور رحم دل انسان تھے۔
گھر کے فرد سے لے کر خاندان کے سربراہ تک قریبی دوست سے لے کر دُور کی قرابت داری تک یا روزگارِ حیات میں معمولی اَجیر سے لے کر صاحبِ ثروت آجر تک …. غرض انسانی معاشرے کا کوئی بھی کردار ہو…. رسول اللہ ﷺ کی طرز فکر سے ہر کوئی اپنی اِستعداد کے لحاظ سے روشنی حاصل کرسکتا ہے۔ معاشرہ میں فرد چاہے کوئی بھی کردار ادا کررہا ہو، اگر خلوصِ نتّر، خیرخواہی، محبت و اِخلاص سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو معاشرتی فلاح و بہبود کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا۔
معاشرے کے افراد بظاہرالگ الگ ہونے کے باوجود ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے قطع تعلق کو ناپسند فرمایا ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے۔‘‘تم میں سے کسی شخص کے لئے یہ رَوا نہیں کہ ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرلے۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو صلح میں پہل کرے’’۔
گھر معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے۔ معاشرے کی بہتری یا ابتری کا انحصار اس بنیادی یونٹ کے استحکام پر ہے۔ اگر گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے تو اس کے افراد معاشرتی بگاڑ کا باعث بن جاتے ہیں۔ میاں بیوی اگر ایک دوسرے سے مخلص اور خیرخواہ ہوں، ایک دوسرے کے حقوق کا بھرپور خیال رکھیں۔ چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظرانداز کرکے ایک دوسرے کا ادب احترام ملحوظ رکھیں تو یہ گھر ایک ایسا ادارہ (Institution) بن جاتا ہے جس کے افراد اوروں کے لئے قابلِ تقلید مثال ہیں۔
ایک سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کا اونٹ پیچھے رہ گیا تو وہ رونے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپؐ اُن کے پاس گئے اور تسلی دی۔ آپؐ جس قدر تسلی دیتے وہ اورزیادہ روتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی چادر کے پلّو سے اس وقت تک ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کے آنسو پونچھتے رہے جب تک ان کے آنسو بند نہیں ہوگئے۔
ایک مرتبہ امُ المؤمنین حضرت حفصہؓ نے ام المؤمنین حضرت صفیہؓ سے کہہ دیا کہ تم پہلے یہودی تھیں جب کہ ہم آپؐ کی برادری سے ہیں۔ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ غمناک ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس تشریف لائے تو وہ رورہی تھیں۔ صورت حال معلوم ہونے پر آپؐ نے فرمایا: ‘‘اس میں رونے کی کونسی بات ہے! تم نے کیوں نہ کہا کہ میرا باپ ہارونؑ اور میرا چچا موسیٰؑ ہے، جبکہ میرا شوہر محمدؐ ہے۔ پھر بھلا مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟’’ اس تسلی آمیز جواب پر حضرت صفیہؓ خوش ہوگئیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کسی بات پر ناراض ہوگئیں اور دورانِ گفتگو اُن کی آواز رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند ہوگئی۔ اسی دوران حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لے آئے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا تو ہاتھ اُٹھا کر بیٹی کی طرف بڑھے۔ رسول اللہ ﷺ باپ بیٹی کے درمیان آگئے۔ حضرت عائشہ ؓ سہم کر بیٹھ گئیں۔ رسول اللہ ﷺ اُن کے پاس آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا…. ‘‘عائشہ ! میں نے کس طرح تمہیں بچالیا؟’’ ….. یہ سن کر حضرت عائشہؓ کا سارا غصہ اور خوف ختم ہوگیا اور وہ بھی مسکرانے لگیں۔
ماں باپ اولاد کی پرورش جب اس طرز فکرکے تحت کرتے ہیں کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک نعمت اور ذمہ داری ہے، جس کو احسن طریقہ سے پروان چڑھا کر ہم اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے حضور سرخروہوں گے اور اس میں کوئی اور غرض و غایت شامل نہیں ہوتی، توایسے ماں باپ کی اولاد سعید اور سعادت مند ہوتی ہے اور وہ والدین کو اللہ کا انعام اور رحمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
حضرت زینبؓ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ کم سنی میں ہی ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوگئی تھی۔ ہجرت کے دوسرے سال جنگِ بدر ہوئی تو حضرت زینب ؓکے شوہر ابوالعاص بھی قریش کی جانب سے شریک ہوئے اور جنگی قیدی بنے۔ مکہ والوں نے اپنے قیدی چھڑانے کے لئے فدیہ بھیجا۔ حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے جہیز کا قیمتی عقیق کا ہار عمرو بن ربیع کو دے کرمدینہ بھیجا۔ قیدی اور فدیہ میں بھیجی جانے والی اشیاء رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ آپؐ بیٹی کا ہار دیکھ کر خاموش اور مغموم ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا۔ ‘‘یہ ہار محمدؐ کی بیٹی زینبؓ کا ہے جو اس کی ماں خدیجہؓ نے اسے جہیز میں دیا تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ ابوالعاص کو فدیہ کے بغیر چھوڑدیا جائے لیکن مناسب سمجھو تو یہ ہار زینبؓ کو واپس کردواور ابوالعاص کو کسی اور فدیہ کے عوض رہا کردو۔ تم خود سوچو کہ فدیہ کیا ہو’’۔ صحابہ کرامؓ نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ابوالعاص کا فدیہ یہ ہے کہ مکہ جا کر رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت زینبؓ کو مدینہ بھیج دیں گے لہٰذا ہار واپس کردیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس فیصلہ کی اطلاع ملی تو آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے ملنے کے بعد آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور وہیں سے رخصت ہوتے اور جب واپس تشریف لاتے تو پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر خیریت معلوم کرنے جاتے تھے۔
منبر نبویؐ پر خطبہ دیتے ہوئے بارہا ایسا ہوا کہ نونہال حسنؓ اور حسینؓ تیز دوڑتے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہوتے اور جلد سے جلد منبر تک پہنچنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اتر کر نواسوں کے پاس جاتے انہیں گود میں اُٹھالیتے اور منبر کے پاس انہیں لاکر سامنے بٹھالیتے تھے۔
صحابہ کرامؓ نے یہ بھی دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ادا کررہے ہیں اور آپؐ کی ننھی نواسی اُمامہؓ بھاگ کر آئیں اور نانا کے کندھوں پر سوار ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ جب رکوع میں جانے لگے تو نواسی کو نرمی سے گود میں لے کر نیچے اتاردیا اور رکوع وسجود کے بعد پیاری نواسی پھر نانا کے کاندھوں پر سوار ہوگئیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس معصوم شرارت پر نواسی کو بہت دیر تک محبت کے ساتھ سینۂِ اطہر سے چمٹائے رکھا۔
رسول اللہ ﷺ مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے کہ حضرت زینبؓ نے کہلوابھیجا کہ آپ کا نواسہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور بیٹی کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت زینبؓ نے بچہ آپ کی گود میں ڈال دیا۔ نواسہ آخری ہچکیاں لے رہا تھا، یہ دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ساتھ آئے صحابہ کرامؓ میں سے حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ رورہے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ ‘‘یہ رحم ہے…. رحم! جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور اللہ انہی بندوں پر رحم فرماتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں’’۔
رسول اللہ ﷺ اپنے والد ماجد حضرت عبداللہؓ کی خادمہ اُم ایمنؓ کا بہت ادب اور احترام کیا کرتے تھے۔ آپ ؐ ان کے مکان پر تشریف لے جاتے اور فرماتے تھے۔ ‘‘یہ میری دوسری ماں ہیں’’۔
رسول اللہ ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ جب بھی تشریف لاتیں، آپ ؐ ‘‘میری اماں ’’ کہہ کر احتراماً کھڑے ہوجاتے اور اپنی چادر اتار کر ان کے بیٹھنے کے لئے بچھادیتے تھے۔ جب تک حضرت حلیمہؓ بیٹھ نہ جاتیں آپؐ کھڑے رہتے تھے۔
قبیلہ بنوسعد کے بہت سے مرد اور عورتیں ایک جنگ میں اسیر ہوگئے تو حضرت حلیمہ سعدیہؓ ان کی رہائی کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں۔ آپؐ نے اسی وقت اپنے اور اپنے خاندان کے حصہ کے قیدی رہا کردیئے اور صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ‘‘میری رضاعی والدہ حلیمہؓ جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے میرے پاس آئی ہیں۔ میں نے اپنا حصہ آزاد کردیا ہے۔ تم بھی میری رضاعی والدہ کی قوم کو آزاد کردو’’۔ چنانچہ بنوسعد کے تمام مرد اور عورتیں رہا کردیئے گئے۔
قبیلہ ہوازن کی جنگ کے بعد جنگی قیدی جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے گئے تواُن میں آپ ؐ کی رضاعی بہن حضرت شیماؓ بھی تھیں۔ حضرت شیماؓ نے اپنا تعارف کرایا اور آپؐ کو وہ زمانہ یاد دلایا کہ جب وہ آپ کو گود میں لے کر یہ گیت گاتی تھیں….. ‘‘اے ربّ! محمدؐ کو جیتا رکھ کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کو جوان اورایک معزز سردار دیکھیں۔ ان سے حسد کرنے والے دشمن ذلیل اور سرنگوں ہوں۔ خدایا ! تو انہیں ایسی عزت عطا کر جوہمیشہ ہمیشہ رہے’’۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ یہ کہتے ہوئے حضرت شیماؓ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رَواں ہوگئے۔ بچپن کی باتیں سن کر اور رضاعی بہن سے مل کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ آپ ؐ نے عزت سے بہن کو بٹھایا اور کہا۔ ‘‘اگر تم میرے پاس رہنا چاہو تو خوشی سے یہاں رہو اور اگراپنے قبیلہ میں واپس جانا چاہو تو وہاں روانہ کردیا جائے گا’’۔ حضرت شیماؓ نے اپنے قبیلہ میں واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں تین غلام، ایک کنیز، بکری اور کچھ نقد رقم دے کرعزت و احترام کے ساتھ رخصت کردیا۔
حضرت فاطمہؓ کسی بات پر ناراض ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور حضرت علیؓ کے سخت رویہ کی شکایت کرتے ہوئے رونے لگیں۔ حضرت علیؓ انہیں لینے آئے لیکن باپ بیٹی کو گفتگو کرتا دیکھ کر انہیں رسول اللہ ﷺ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ چہیتی بیٹی کو روتا دیکھ کر رسول اللہ ﷺ مغموم ہوئے لیکن عزیز دامادکے خلاف کوئی بات کہنے کے بجائے آپؐ نے شفقت سے حضرت فاطمہؓ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا ‘‘بیٹی ! تمہارا نکاح اس شخص سے کیا گیا ہے جو قریش کے جوانوں میں افضل ہے اور اسلام لانے میں جس نے پہل کی ہے۔ میاں بیوی میں ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہوجاتی ہیں۔ اللہ تم دونوں کو خوش اور آباد رکھے اور میں تم دونوں کو دیکھ کراپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں’’۔
غزوۂ بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی شامل تھے۔ جنگی قیدیوں کے ہاتھ پیر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت عباسؓ کی رسیاں اتنی سخت بندھی ہوئی تھیں کہ وہ درد سے کراہ رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے کانوں تک حضرت عباسؐ کے کراہنے کی آواز پہنچی تو آپؐ بے قرار ہوگئے اور بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کی بے قراری کی وجہ چند صحابہ کرامؓ سمجھ گئے۔انہوں نے فوراً جاکر حضرت عباسؓ کی رسیوں کی گرفت ڈھیلی کردی۔ کراہیں بند ہوگئیں تو رسول اللہ ﷺ کو بھی آرام ملا اور آپؐ سوگئے۔
رسول اللہ ﷺ عید کی نماز کے لئے جارہے تھے۔ عید کی چہل پہل تھی۔ راستے میں آپؐ نے ایک بچے کو دیکھا جو پرانے کپڑے افسردہ غمگین ایک طرف کھڑا تھا اور کھیل کود میں دوسرے بچوں کے ساتھ شریک نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا: ‘‘بیٹے تم کیوں نہیں کھیل رہے ہو؟ تم نے کپڑے بھی نہیں بدلے، اتنے افسردہ کیوں ہو؟’’۔ ہمدردی کے دو بول سن کر بچے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے سر اٹھا کر ایک نظر اس مہربان ہستی پر ڈالی جو اس کے سر پر دستِ شفقت رکھنے آیا تھا اور بولا۔ ‘‘میرا باپ ایک جنگ میں اللہ کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا ہے۔ میری ماں نے دوسری شادی جس شخص سے کی ہے اُس نے ناراض ہو کر مجھے گھر سے نکال دیا ۔ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے’’۔ بچے کی دکھ بھری داستان سن کر رسول اللہ ﷺ نے اسے سینے سے لگایا اور فرمایا۔ ‘‘کیا تم پسند کروگے کہ محمدؐ تمہارے باپ ہوں اور عائشہؓ تمہاری ماں ہوں، علیؓ تمہارے چچا ہوں اور حسنؓ اور حسینؓؓ تمہارے بھائی ہوں’’۔ بچہ یہ سن کر خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس تکنے لگا اور بولا۔ ‘‘مجھ سے زیادہ خوش نصیب کون ہوگا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کا خاندان مل رہا ہے’’۔ یہ بچہ آخر وقت تک رسول اللہ ﷺ کے پاس رہا۔
تجارت رسول اللہ ﷺ کا ذریعہ معاش تھا۔ آپؐ معاملہ میں اس قدر راست باز تھے کہ مکہ کے تاجر اس انتظار میں رہتے کہ آپؐ تجارتی قافلہ لے کر جائیں اور وہ بلاخوف و خطر اپنا مال آپؐ کے سپرد کردیں۔ آپؐ نے جب بھی تجارتی سفر کیا، تاجروں کو اچھا منافع ملا اور کسی کو آپؐ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ جو کہ مکہ کی ایک مُتموّل تاجرہ تھیں، ان سے تعارف اور تعلق کا ذریعہ بھی آپؐ کی یہی کاروباری صداقت اورامانت داری تھی۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا گزر بازار سے ہوا۔ ایک بدّو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور غلہ کے ڈھیر میں دست مبارک ڈالاجس سے انگلی تر ہوگئی۔ آپؐ نے غلہ والے سے پوچھا۔ ‘‘یہ کیا ہے؟’’۔ اس نے عذر پیش کیا کہ بارش کا پانی لگ گیا تھا۔ آپ ؐ نے سرزنش فرمائی ‘‘تم نے اس کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ خریدنے والا اس کو دیکھ سکے’’۔ پھر ارشاد فرمایا ‘‘جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں’’۔
طارق بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم چند افراد کھجوریں خریدنے مدینہ گئے۔ ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا۔ مدینہ کے نواح میں ایک صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اونٹ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تو ہم نے کھجور کے بدلے میں اونٹ کا سودا طے کیا۔ وہ صاحب اونٹ کی مُہار پکڑ کر شہر کی جانب روانہ ہوگئے اور کہا میں کھجوریں بھجواتا ہوں۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ایک اجنبی کو اونٹ دے دیا۔ ہمارے سردار کی بیوی نے کہا، تم لوگ ذرا بھی فکر نہ کرو۔ اونٹ کے خریدار کا چہرہ چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن ہے، یہ شخص دھوکہ نہیں دے سکتا۔ کچھ دیر کے بعد شہر کی جانب سے ایک شخص تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہمارے پاس آیا اور مطلوبہ مقدار سے زیادہ کھجوریں دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘اللہ کے رسولؐ نے تم سے جو سودا کیا ہے، یہ اس کی کھجوریں ہیں۔ اضافی کھجوریں مہمانداری کے لئے ہیں’’۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 182 تا 200
دین اوردنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔