دو رخ
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11592
ہر ذی روح دو رخوں میں زندگی گزارتا ہے، ایک رخ میں مادی وجود کا عمل دخل ہے اور دوسرے میں مادی وجود کا عمل دخل نہیں ہے۔ البتہ اس حد تک رشتہ قائم رہتا ہے کہ سانس آتا جاتا رہتا ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جو انفارمیشن کو قبول کرکے مادی وجود سے تعمیل کراتا ہے معطل ہو جاتا ہے۔ معطل ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ دماغ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہوتی ہے کہ دماغ مادی وجود سے اس حد تک تعلق رکھتا ہے کہ جسم میں زندگی دوڑتی رہے۔
ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ نیند کی حالت میں دماغ جسم کی حفاظت کرتا ہے۔ آدمی اگر کئی دن، کئی ہفتے، کئی مہینے بھی سوتا رہے تو جسم میں تغیر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کوما (Comma) ہے۔ کوما نیند کی ملتی جلتی حالت ہے۔ نیند میں آدمی زندہ رہتا ہے لیکن اس کے برعکس موت سے آدمی مر جاتا ہے۔ کومہ میں آدمی سال بھر یا کئی سال بھی زندہ رہتا ہے اور جسم میں تعفن پیدا نہیں ہوتا۔
جبکہ موت کے بعد آدمی میں یا کسی بھی مخلوق میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ نا صرف تعفن پیدا ہوتا ہے بلکہ جسم پانی اور ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے ہر مخلوق واقف ہے اور متاثر ہوتی ہے۔ یہ کیفیت صرف آدمی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مخلوق کے ساتھ یہ عمل ہوتا ہے۔
ہم اس کی تشریح کرنا چاہتے ہیں کہ
’’آدمی موت و حیات میں مستقل رد و بدل ہو رہا ہے۔‘‘
پیدائش کے بعد پہلے دن کی زندگی دوسرے دن کی زندگی میں تبدیل ہو جاتی ہے، چھ مہینے میں اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچہ پر ایک دن کی عمر کا تاثر قائم نہیں ہوتا اور اسی رد و بدل سے ہر ذی روح اور جس مخلوق کو غیر ذی روح سمجھا جاتا ہے وہ شب و روز میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
ہر مخلوق پیدا ہوتی ہے اور شب و روز میں رد و بدل ہوتی رہتی ہے۔ ہر مخلوق ہر منٹ، ہر گھنٹہ، ہر دن، ہر رات تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی واقع نہ ہو تو جمود طاری ہو جائے گا اور مخلوق کا کوئی فرد پالنے سے باہر نہیں آئے گا۔ بچپن، لڑکپن میں تبدیل نہیں ہو گا۔ لڑکپن، جوانی میں تبدیل نہیں ہو گا اور جوانی، بڑھاپے میں تبدیل نہیں ہو گی۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایک دن کا بچہ، وہ بچہ آدمی کا ہو، چوپائے کا ہو، پرندہ کا ہو، حشرات الارض ہوں یا کوہسار ہوں، سب رد و بدل ہو رہے ہیں۔ زندگی کا دارومدار حرکات و سکنات پر ہے اور حرکات و سکنات کا دارومدار سانس پر ہے۔ سانس کے بھی دو رخ ہیں۔
۱) سانس کا پہلا عمل یہ ہے کہ جسم میں سانس اندر جاتا ہے۔
۲) دوسرا عمل یہ ہے کہ سانس جسم میں سے باہر آتا ہے۔
اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ مخلوق کے اندر جب سانس جاتا ہے تو جسم Oxygenقبول کرتا ہے اور جب سانس باہر آتا ہے تو آکسیجن جلتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (Carbon Dioxide) باہر آتی ہے۔
میں نے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ ایک گھر میں دس آدمی رہتے ہیں، کہا یہ جاتا ہے کہ انسان یا کوئی ذی روح آکسیجن کے ذریعہ زندہ رہتا ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ایک گھر میں دس آدمی رہتے ہیں اور دس آدمیوں میں سے ایک آدمی مر جاتا ہے اور اس گھر میں نو آدمی زندہ رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گھر میں آسمان کے نیچے ماحول میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا۔ دس آدمیوں میں سے نو آدمی زندہ ہیں، متحرک ہیں، جذبات و احساسات ان کے اندر کام کر رہے ہیں، انہیں رنج و راحت کا احساس بھی ہے، وہ خوش ہو رہے ہیں، اور غمگین بھی۔ پھر اس بات کو کس طرح بیان کیا جائے گا کہ دس آدمیوں میں سے ایک آدمی مر گیا۔ جبکہ ہوا، آکسیجن اور دوسری گیس (Gases) وہاں موجود ہیں۔ دس میں سے ایک آدمی آکسیجن یا دوسری گیس سے کیسے محروم ہوا؟ جبکہ نو آدمی زندگی کے عوامل میں متحرک ہیں۔
یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ جب ماحول میں سب کچھ موجود ہے۔ ہوا، پانی، آکسیجن اور دوسری گیس (Gases) تو ہزاروں آدمیوں میں سے ایک آدمی زندگی سے کس طرح محروم ہو گیا؟ اگر ایک آدمی گیس اور آکسیجن ختم ہونے سے مرگیا تو ہزاروں آدمی آکسیجن سے کیسے محروم نہیں ہیں؟
زندگی کا تعلق سانس سے ہے، سانس مادی وجود سے تعلق نہ رکھے تو آدمی مر جاتا ہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں۔
ہمارا تجربہ ہے کہ زندہ آدمی کے جسم پر نشتر لگایا جائے تو دماغ اس آدمی کو نشتر لگنے کے عمل سے مطلع کرتا ہے لیکن مادی وجود سے سلطان اگر رشتہ منقطع کر لے تو مردہ آدمی کے اندر کوئی مدافعت نہیں رہتی۔ رات دن اسپتالوں میں پوسٹ مارٹم ہوتا رہتا ہے، کبھی کسی مردہ جسم نے مدافعت نہیں کی۔ مادی جسم کی حرکات و سکنات اس وقت تک ہوتی ہیں جب تک جسم میں سلطان موجود ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 197 تا 200
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔