دنیا کی کہانی
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18544
کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا سترہ بار ختم ہو کر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔ تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک معین وقت کے بعد وہ معین وقت دس ہزار سال بھی ہو سکتا ہے۔ خشک زمین پر آباد دنیا تہہ آب آ جاتی ہے۔ شعور زمین کے اندر غاروں سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج شعور جوان ہوتا ہے اور جیسے جیسے شعور جوانی کی دہلیز پر قدم بڑھاتا ہے انسان ترقی یافتہ کہلاتا ہے لیکن یہ بات ہر زمانے میں موجود رہتی ہے کہ انسان شعوری تقاضے پورے کرتا ہے۔ شعوری تقاضے کس طرح پورے کرتا ہے کہ ’’کس طرح‘‘ ہی ارتقاء ہے۔ کسی زمانے میں انسان آگ کا استعمال دیکھ کر ترقی کرتا ہے اور کبھی لوہے کی دریافت ترقی کا ذریعہ بنتی ہے اور ارتقاء کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان توانائی کے علم سے واقف ہو جائے۔ غاروں کی زندگی کا دور ہو، دھات کی دریافت کا زمانہ ہو، آگ سے واقفیت ہو یا انسانی ذہن توانائی کے فارمولوں سے واقف ہو جائے۔ بہرحال انسان گھٹتا، بڑھتا، مٹتا اور فنا ہوتا رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ جو لوگوں سے خراج وصول کرتے تھے جب زیر زمین دفن ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ جو خراج دیتے تھے اس زمین کو جس میں وہ دفن ہیں پیروں میں روندتے پھرتے ہیں۔
آبادی کی توجیہہ کی جائے تو آبادی دراصل گھٹنے اور بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ اس وقت زمین پر چھ ارب انسان آباد ہیں یقیناً یہ آبادی پہلے بہت کم تھی اور ہو سکتا ہے کہ چھ ارب کی آبادی اکیسیوں صدی میں ایک ارب ہو جائے۔
زمین جس سسٹم Systemپر چل رہی ہے۔ اس Systemمیں بنیادی عنصر یہ ہے کہ ہر مخلوق ایک نقطہ ہے۔ یہ سسٹم اس لئے ضروری ہے کہ نقطہ کا پھیلاؤ اگر تقسیم در تقسیم نہ ہو تو سسٹم میں ایسی خرابی واقع ہو جائے گی کہ سارا سسٹم تباہ و برباد ہو جائے گا اور جب سسٹم میں خرابی واقع ہوتی ہے۔ زمین سمندر بن جاتی ہے اور سمندر زمین بن جاتا ہے۔
دانشور مساوات کا درس دیتے ہیں۔ سائنسدان Human Rightsکا نعرہ لگاتے ہیں۔ زود و زیاں کا ایک سلسلہ ہے جو اس وقت سے قائم ہے جب سے دنیا آباد ہے اور اس وقت تک قائم رہے گا جب یہ سیارہ Collapsہو گا۔
کسی نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ نظام چلانے کیلئے توانائی موجود ہو توانائی فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ توانائی کی تخلیق ہوتی رہے۔ ضروری ہے کہ اسے فیڈنگ(Feeding) ملتی رہے اور جب ہم Feedingکا تذکرہ کرتے ہیں تو لامحالہ ذہن اس طرف جاتا ہے کہ مقتدر اعلیٰ ہستی جب کچھ کہتی ہے تو مثالوں اور ٹکڑوں میں بیان کرتی ہے اس لئے کہ مخلوق کا شعور مٹر کے دانے سے بھی چھوٹا ہے۔ اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا ہے کہ دو کھرب صلاحیتوں میں دو سو سے زائد صلاحیتوں پر عبور حاصل کرنے والا بندہ دنیا میں باشعور، باصلاحیت، دانشور، علامہ، مفکر اور سائنسدان کہلاتا ہے۔ شعور کی یہ محدودیت اس بات کی متقاضی ہے کہ بہت بڑی بات کو چھوٹی بات میں بیان کیا جائے۔ مقتدر اعلیٰ ہستی کہتی ہے:
’’یہ نظام(سسٹم) نورالاعلیٰ نور ہے جس پر چاہے اسے کھول دیتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘(القرآن)
نوع انسانی کا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ آدمی آدم کا بیٹا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک باپ آدم کی چھ ارب اولادیں ہیں۔ یہ چھ ارب اولادیں وہ ہیں جو زمانے کی شکست و ریخت سے بچ گئی ہیں اور جواب شکست و ریخت کے بھنور میں آ چکی ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ آدم کا ہر بیٹا، ہر بیٹی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات اس میں جس طرح چابی بھر دیتے ہیں کھلونا چلتا ہے، کودتا ہے، روتا ہے، ہنستا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، جیتا ہے اور مرتا ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ بوڑھا ہو لیکن بوڑھا ہوتا ہے۔ سنکھوں کی تعداد میں زمین پر آنے والے اور جانے والے لوگوں میں کوئی نہیں چاہتا کہ وہ مر جائے لیکن مرنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا یقین پیدا ہونے پر ہے۔ بات بہت بڑی ہے چھوٹی کر کے بیان کرنے کی ہو رہی تھی۔ انسانی زماریات سے سنکھوں زیادہ بڑی تعداد میں سسٹم کے کل پرزوں پر غور کیا جائے تو اندھی آنکھ کو بھی نظر آتا ہے کہ یہ سارا سسٹم ٹکڑوں اور فنائیت پر تقسیم شدہ ہے۔ جیسے جیسے آدم کی اولاد زمین پر پھیلتی گئی اسی مناسبت سے سسٹم تقسیم ہوتا رہا۔ چار اولادوں کے لئے ایک مکان بنا، چار سے زائد اولادوں کے لئے دوسرا مکان بنا، جیسے جیسے تعداد میں اضافہ ہوتا رہا خاندان، کنبہ، برادری، قبیلے، قومیں تشکیل ہوتی رہیں۔ حقیقت پر مبنی ان مثالوں سے ثابت ہیں کہ جب تک کوئی چیز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نہیں پھیلتی اس کا وجود مظہر نہیں بنتا۔ زمین کی یہ ڈیوٹی ہے کہ ٹکڑوں کو ذرات میں تبدیل کرے یہ ذرات ہی زمین کا کنبہ ہیں۔ مثال یہ ہے کہ ہم زمین کا ایک قطعہ تیار کریں اور قطعہ پر آم، بادام، امرود، انار، ناریل، چیکو، شریف، جامن، پپیتہ، سیب، گنا، پھول ترکاریاں وغیرہ کاشت کریں۔ جیسے ہی کسی ایک نوع کا بیج جس کو ہم نطفہ کہہ سکتے ہیں، زمین کے رحم میں داخل ہو جاتا ہے۔ زمین اسے توڑ دیتی ہے اور بیج زمین کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بیج کا فنا ہونا بیج کا مٹ جانا بیج کی اپنی حیثیت ختم ہو جانا ہی دراصل زمین کے اوپر درختوں، پودوں، پھلوں اور پھولوں کا مظاہرہ ہے۔ یہ بات شعور کی ہے۔
کس شعور کی؟ اس شعور کی جو دو کھرب خلیوں میں سے دو سو خلیوں پر قائم ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک کھرب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار آٹھ سو خلئے کہاں گئے۔ ہم ان سے واقف کیوں نہیں ہیں۔ جب کہ وہ ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہم اتنی بڑی تعداد کو اس لئے بھولے ہوئے ہیں کہ ہم دو سو صلاحیتوں کے گرداب میں قید ہو چکے ہیں اور قید سے آزادی کا قانون یہ ہے کہ جو چیز خود کو فنائیت میں منتقل کر دیتی ہے وہ چیز پھیلتی ہے، بڑھتی ہے۔ برگد کا درخت آپ کے سامنے ہے۔ مشہور ہے کہ برگد کے درخت کے نیچے باراتیں ٹھہرتی ہیں۔ تھکے ماندے مسافر بارش اور دھوپ میں برگد کا سایہ تلاش کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھے؟
میں کیا عرض کر رہا ہوں؟ آپ کیا سمجھے؟ کہ میں آپ کی توجہ کس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں؟ آپ کیا سمجھے کہ میں آپ کو کن گہرائیوں سے آشنا کرنا چاہتا ہوں؟ آپ کیا سمجھے کہ میں ’’علم لدنی‘‘ کا کونسا قاعدہ پڑھا رہا ہوں؟
برگد کا بیج خشخاش کے دانے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن جب زمین کے اندر جا کر اپنے مادی جسم (شعوری نظام) کو فنائیت میں تبدیل کر دیتا ہے تو قدرت اس ایثار کو پسند کرتی ہے اور برگد کا بیج جو خشخاش سے چھوٹا ہوتا ہے بہت بڑا درخت بن جاتا ہے۔
اس طرح جب کوئی انسان اپنے مادی وجود (شعوری نظام) کو روحانی نظام میں فنا کر دیتا ہے تو وہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق: ’’شجر سایہ دار بن جاتا ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 250 تا 252
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔