دست رحمت
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13061
حضرت ابیض بن حمالؓ کے چہرے پر داد تھا۔ جس سے چہرہ بدنما لگتا تھا۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک روز انہیں اپنے قریب بلایا اور سامنے بٹھا کر ان کے چہرے پر اپنا دستِ مبارک پھیرا۔ داد کے نشانات چہرے پر سے ختم ہو گئے۔
حضر ت یزید بن قنافہ طائی گنجے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر دستِ مبارک پھیرا تو ان کا گنج دور ہوگیا اور ان کے سر پر بال اگ آئے۔ یہ بال اتنی کثرت سے تھے کہ ان کا لقب ’’بلب‘‘ یعنی بہت زیادہ بالوں والا ہوگیا۔
جنونی لڑکا
ایک بار ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس لڑکے کو جنون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو اپنے پاس بٹھالیا اور اس کے سینے پر اپنا دستِ مبارک پھیرا۔ ذرا دیر بعد لڑکے کو سیاہ رنگ کی قے ہوئی اور اسے جنون کے مرض سے نجات مل گئی۔
آنکھ کا ڈیلا
غزوۂ احد میں جب مسلمانوں کی صفیں بکھر گئیں تو دشمنوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ جن صحابہؓ نے کمالِ جاں نثاری سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا دفا ع کیا ان میں حضرت ابو دجانہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت قتاوہ بن نعمان انصاریؓ شامل تھے۔ حضرت قتاوہ بن نعمانؓ کی آنکھ میں تیر لگا۔ آنکھ زخمی ہوگئی اور آنکھ کا ڈیلا نکل کر لٹک گیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈیلا واپس آنکھ میں رکھ دیا۔ چنانچہ ان کی وہ آنکھ نہ صرف ٹھیک ہو گئی بلکہ اس کی نگاہ دوسری آنکھ سے زیادہ تیز ہوگئی ۔
حرم میں اذان
حضور علیہ الصلوۃ والسلام غزوۂ حنین سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں نماز کا وقت آگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ دستور ٹھہر گئے۔ موذن نے اذان دی۔ ابو مخدورہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ قریب موجود تھے۔ اذان سن کر انہوں نے استہزا کے طور پر چلّا چلّا کر اذان کی نقل اتارنی شروع کی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی بھیج کر ان سب کو بلوایا۔ جب وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے لائے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے باری باری اذان کہلوائی۔ ابو مخدورہ خوش الحان تھے اور ان کی آواز بھی سب سے بلند تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا اور باقی سب کو جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اابو مخدورہ کو اپنے سامنے بٹھالیا اور پیشانی سے چہرے تک ہاتھ پھیرتے ہوئے سینے تک لائے اور سینے سے پیٹ، کلیجے اور ناف تک ہاتھ پھیرا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’ اللہ تعالی تجھے برکت عطا فرمائے اور تجھ پر اپنا فضل و کرم کرے۔ جاؤ حرم شریف میں اذان دو۔‘‘
مٹی تریاق بن گئ
سیدنا حضور علی الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بنو حارث کے قیبلے سے گزرے ایک شخص سخت بخار میں مبتلا تھا۔ اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے علاقے میں بخار وبائی صورت اختیار کرگیا ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، مقام صعیب سے مٹی لو اور ایک دعا تعلیم کی کہ یہ پڑھ کر جسم پر مٹی مل لو۔ بخار میں مبتلا مریض شفایا ب ہوگئے۔ اس طرح برص اور دوسری جلد کی بیماریوں کے لئے بھی یہ مٹی تریاق بن گئی۔
بکری زندہ ہوگئی
مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو خزاعہ کی خاتون عاتکہ بنت خالد کے خیمےکے پاس سے گزرے۔ یہ خاتون امِ معبہ کے نام سے مشہور تھی اور آنے جانے والوں کو پانی پلاتی اور کھانا کھلاتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے کی چوب سے ایک بکری بندھی دیکھی۔ دریافت فرمانے پر امِ معبہ نے کہا۔ ’’ یہ بکری کمزور اور بیمار ہے۔ ریوڑ کے ساتھ نہیں جاسکت۔ لاغری کے سبب دوسری بکریوں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ دودھ دیتی ہے۔ ام معبہ نے جواب دیا اسے دودھ نہیں اترتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن طلب کر کے دودھ دوہنا شروع کیا۔ جب برتن بھرگیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ام معبہ کو پلایا۔ پھر حضورؐ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا۔ سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دودھ کو خود نوش فرمایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ کے پاس ایک بکری اور کچھ بچا ہوا توشہ موجود تھا۔ انہوں نے بکری کو ذبح کیا ان کی بیوی نے آٹا پیس کر روٹی اور گوشت پکایا اور ایک پیالے میں *ثرید تیار کیا۔ حضرت جابرؓ ثرید کا پیالہ لے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت جابرؓ سے فرمایا۔ ’’اے جابر! اپنے ساتھیوں کو جمع کر اور ان کو میرے پاس ایک ایک کر کے بھیج دے۔‘‘ حضرت جابرؓ ایک ایک جماعت بنا کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیجتے رہے۔ سب نے سیر ہوکر کھایا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کھانے والوں سے صرف اتنا فرماتے تھے کہ ’’ کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو۔‘‘ سب لوگ جب ثرید کھاکر چلے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کے درمیان ہڈیوں کو جمع کیا اور ان پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر کچھ ارشاد فرمایا بکری کان ہلاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ ’’جابرؓ اپنی بکری لے جاؤ۔‘‘
**********************
حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی علوم و قوانین پر مبنی کتاب ’’ لوح و قلم ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ میں یہ کتاب پیغمبرِ اسلام حضور علی الصلوۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے بطریقِ اویسیہ ملا ہے۔‘‘ کتاب ’’ لوح و قلم ‘‘ صفحہ ۱۲۱ پر معجزہ ، کرامت اور استدراج کے بارے میں قلندر بابا اولیاءؒ لکھتے ہیں کہ :
تجلی تنزل کرکے نور بنتی ہے اور نور تنزل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ یہی مظہر شٔے ہے جو تجلی اور نور کی مظہراتی شکل ہے۔ باالفاظ دیگر تجلی تنزل کر کے نور بنی اور نور تنزل کر کے مظہر یا شٔے بنا۔ یہ مظہر تجلی اور نور سے تخلیق ہوا پھر نور اور تجلی ہی میں فنا ہوگیا اور اگر اللہ چاہے گا تو اس ناموجود کو پھر موجود کردے گا۔ عارف علمِ شٔے میں ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شٔے پر براہِ راست پڑتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں۔
- معجزہ
- کرامت
- استدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیرِ سایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بناء پر پرورش پاجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف ابنِ صیاد نام کا ایک لڑکا مدینہ کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کردیتا۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا، ’’ آؤ، ذرا ابنِ صیاد کو دیکھیں۔‘‘
اس وقت وہ مدینہ کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے سوال کیا۔ ’’ بتا! میں کون ہوں‘‘
وہ رکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’ آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ ’’ تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا، اچھا بتا! میرے دل میں کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا، ’’ دخ ہے‘‘ ( ایمان نہ لانے والا) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’ پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کرسکتا۔ تو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا۔ ’’ اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔‘‘
غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے خواہ وہ وہم ہو، خیال ہو یا احساس، اگر کسی انسان کی چھٹی حس بیدار ہے تو اسکے ذہن میں غیب بینی کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ عبرانی زبان میں نبی غیب بین کو کہتے ہیں اور رسول غیب کے قاصد کو۔ اس ہی وجہ سے ابنِ صیاد حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مرتبۂ رسالت کو صحیح نہیں سمجھ سکا۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام غیب کے قاصد ہیں اور اس کی غیب کی روشناسی اپنی ہی حد تک تھی یا ان اجنّہ کی حد تک تھی جو اس کے دوست یا استاد تھے۔ وہ ملائکہ کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرسکتا تھا۔ بس یہیں تک اس کے فن کی رسائی تھی۔ جب اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھنے کی کوشش کی تو معرفتِ الہی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو غیب کا رسول قرار دیا۔ اس کی غیب بینی صرف اس حد تک تھی کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک اُمی قوم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے معجزات کا مظاہر اُمی قوم میں ہوا ہے۔ اس فکر کے تحت اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو امیوں کا رسول کہا۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو استدراج کی حدوں میں مقید دیکھا تو اس سے یہ سوال کیا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے جس کے جواب میں اس نے دخ کہا او رحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ ابنِ صیاد کو معرفت حاصل نہیں ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ترقی نہیں کرسکتا۔
چنانچہ ابن صیاد کی طرح کسی بھی صاحب استداراج کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم استداراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علمِ نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علم نبوت کے زیر اثر کوئی خارقِ عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اورجب کوئی خارقِ عادت ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی علمِ نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔ مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحبِ تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی۔ لیکن استدراج کے زیرِ اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے اثرات بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہوجاتا ہے۔
استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 195 تا 203
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔