دستک
مکمل کتاب : باران رحمت
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12545
زمین پر انسان کی پیدائش سے قبل جنّات آباد تھے ….
جنّات بھی اچھے اور برے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ﷲ تعالیٰ نے اچھے کاموں کا حکم اور برے کاموں سے منع فرمایا ہے …… ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ، سرکشی ، جھوٹ ، لڑائی، فساد ،قتل اور خون خرابہ یہ سب برے کام ہیں۔
آہستہ آہستہ جنّات میں برے کام زیادہ ہونے لگے، جس سے ﷲ تعالیٰ ناخوش ہوئے اور کئی مرتبہ جنّات کو سزا دی گئی لیکن وہ نافرمانی سے باز نہ آئے ….
جب زمین پر جنّات کی سرکشی، نافرمانی اور فساد زیادہ ہو گیا تب ﷲ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور اُسے اپنی صفات کا علم سکھایا۔
انسان کو زمین پر بھیجا گیا اور حکم دیا:
– اچھے اور برے کام کے درمیان فرق کرو
– ہم تمہیں سیدھا راستہ دکھائیں گے۔ ہمارے پیغمبر تمہاری اولاد کو نیک اور اچھے کاموں کا حکم پہنچائیں گے
– جو شخص سیدھا راستہ اختیار کرکے نیک کام کرے گا، اس کے لیے خوف اور غم نہیں ہو گا
– جو شخص پیغمبروں کی بات نہیں مانے گا وہ جوابدہ ہو گا
– زمین پر شکرگزار بندوں کی طرح رہو اور نیک عمل سے دوسرے انسانوں کی خدمت اور خیر خواہی کرو …. اس طر ح تم وہ نعمتیں دوبارہ حاصل کر لو گے جو جنّت میں حاصل تھیں
– شیطان تمہارا کھلاد شمن ہے ….
– جو کوئی شیطان کے دھوکے میں آکر دنیا کی مختصر زندگی کے آرام و آسائش کے لیے نافرمانی کرے گا اور برے کاموں سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچائے گا وہ شیطان کا دوست اور ساتھی بن کر جہنم میں جائے گا۔
روایت ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اچھائی اور بُرائی کا فرق سمجھانے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000) پیغمبر اس دنیا میں بھیجے ۔
’’یہ سارے رسول خوشخبری سنانے والے اور آگاہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس ﷲ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے اور ﷲ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے ۔‘‘
(سورۃا لنساء ۔ آیت 165)
حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلّی ﷲ علیہِ وسلّم اور دوسرے تمام پیغمبران علیہم السّلام نے توحید کے ساتھ ساتھ رواداری کی تعلیمات دی ہیں۔
رواداری کیا ہے ؟
بندہ یہ جان لے کہ ہم مخلوق ہیں، ہمارا خالق ﷲ تعالیٰ ہے اور ہمارا خالق یہ چاہتا ہے کہ مخلوق خوش رہے …. پوری نوع انسانی پُرسکون اور پُرامن زندگی گزارے۔ سب ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں، بزرگ خواتین و حضرات کا ادب کریں، والدین کا احترام کریں، بچوں سے شفقت سے پیش آئیں، بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و ملّت اور ذات و قوم ایک دوسرے کی عزّت اور جان و مال کا احترام کریں۔
ہر انسان کے دو وجود یا دو جسم ہیں اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کے بھی دو وجود یا دو رخ ہیں۔
اسی طرح زمین بھی مخلوق ہے …. اس کے بھی دو وجود یا دو جسم ہیں۔
جس طرح مادی وجود میں مختلف گیسز کا عمل دخل ہے یا مادی وجود کی وریدوں اور شریانوں میں خون دوڑ رہا ہے …. اسی طرح زمین کے مادی وجود میں بھی گیسز کا براہِ راست عمل دخل ہے اور زمین کی وریدوں اور شریانوں میں بھی انرجی، توانائی اور پانی دوڑ رہا ہے۔
زمین کے اوپر جو آبادیاں ہیں …. ہروقت ان میں تغیّر ہوتا رہتا ہے۔
گول کڑوں (Ring) کی طرح پہاڑ ہیں ….
گول کڑوں (Ring)کی طرح پہاڑوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے
زمین مسلسل محوری اور طُولانی گردش میں سفر کررہی ہے ….
اس گردش کو پہاڑ کے گول کڑے کنٹرول کرتے ہیں ….
یہ پہاڑ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔‘‘
(سورۃ النباء ۔ آیت 6 تا 7)
زمین کو اداس دیکھ کرایک صاحبِ دل اﷲ تعالیٰ کے بندے نے زمین سے پوچھا ….
اے میری ماں!تو کیوں بے قرار ہے؟ کیوں اداس ہے اور کیوں پریشان ہے؟
زمین کی آنکھیں پانی بن گئیں …. زمین لرزتے ہوئے اور روتے ہوئے بولی ….
‘‘میرے بچے!
میں بھی تمہاری طرح کا ایک وجود ہوں …. جس طرح تمہارے دو وجود ہیں اسی طرح میرے بھی دو وجود ہیں …. جس طرح تمہارے جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکلتی ہیں اور جس طرح تمہارے جسم میں سڑاند پھیل جاتی ہے اور جس طرح تمہارے جسم زہریلے ہو جاتے ہیں …. اسی طرح میرے ظاہری وجود میں بھی تمہارے برے اعمال سے …. خودغرضی سے …. حق تلفی سے …. دولت پرستی سے …. اور ﷲ تعالیٰ اور ﷲ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃ و السّلام کی نافرمانی سے …. داغ پڑ گئے ہیں …. زخم ناسور بن گئے!‘‘
زمین نے انکشاف کیا کہ میرے بچے جانتے ہیں کہ
زمین پر موجود ہر وجود وائبریشن پر قائم ہے …. وائبریشن انسان میں بھی ہے …. وائبریشن درختوں میں بھی ہے …. پہاڑ بھی وائبریشن کے محتاج ہیں …. اور زمین بھی وائبریشن کی پابندہے۔
وائبریشن میں اعتدال ہوتا ہے تو ہر چیز ٹھیک ہے اور جب وائبریشن میں خلل واقع ہو تو توازن بگڑ جاتا ہے …. وائبریشن ضرورت سے زیادہ کم ہو جائے تو جمود طاری ہوجاتا ہے …. وائبریشن ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو تباہی پھیل جاتی ہے۔ بربادی زمین پر اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے …. دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے …. وہ چھوٹا ہو یا بڑا …. وائبریشن کے نظام میں مقداروں کی بے اعتدالی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب زمین پر بےانصافی، حق تلفی، حسد، خود غرضی، ظلم، ناانصافی، دولت پرستی، مال و زر کا لالچ اور غرور و تکبر اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ سسٹم میں اعتدال قائم نہ رہے تو سسٹم ٹوٹ جاتا ہے۔ سسٹم ٹوٹنے کیلئے آندھیاں چلتی ہیں …. طوفان آتے ہیں …. ہریکین (Hurrican) …. ٹائیفون (Typhon)…. اور سونامی (سمندری زلزلے) آتے ہیں۔
جب کوئی قوم اپنی زمین اور اپنے وطن سے محبت نہیں کرتی تو دراصل وہ زمین کے تحفظات سے خود کو دور کرتی ہے …. اور ﷲ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔
جب کوئی قوم الٰہی قوانین سے اِنحراف کرتی ہے تو دراصل وہ قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرتی ہے۔
قدرت اس کو سسٹم سے باہر پھینک دیتی ہے …. زمین تو موجود رہتی ہے …. لیکن آدم زاد ہلاکت کے گہرے گڑھوں میں دفن ہوجاتا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مادّی استحکام کیلئے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں …. ہر فنا ہوجانے والی چیز پر بھروسہ کر لیا گیا ہے …. عارضی آسائش و آرام اور زر پرستی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے اختلاف …. تفرقے بازی …. ملاوٹ …. قتل وغارت …. زمین پر فساد …. قدرت سے انحراف ہے۔
قدرت سے اِنحراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی قدرت کا تعاون نہیں چاہتا ….!
اس وقت بھی نوعِ انسانی مستقبل کے خو فناک تصادم کی زد میں ہے۔ زمین اپنی بقا کی تلاش میں لرز رہی ہے۔ آندھیاں چل رہی ہیں، سمندری طوفان آ رہے ہیں …. کیونکہ انسان قدرت سے اِنحراف کر رہا ہے۔
ایٹمی ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے …. جسکا منفی استعمال نصبُ العین بنا لیا گیا ہے۔ چالیس ہزار سے زیادہ ایٹم بم دنیا سے زندگی کا چراغ گل کرنے کو تیار ہیں۔
ہر طرف مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصّب کے الاؤ جل رہے ہیں۔
خودغرضی عام ہو گئی ہے …. واعظوں نے ﷲ تعالیٰ کی آیتوں کو کاروبار بنالیا ہے …. ہر آدمی نصیحت کرنے والا بن گیا ہے …. لیکن کسی کو اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہے …. کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ سے معاشرہ زہرناک بن گیا ہے …. ترقی کے فسوں میں ہر آدمی بیمار ہے …. لوٹ کا بازار گرم ہے …. کوئی جادو کے نام پر لوٹ رہا ہے اور کوئی سِحر کے نام پر لُٹ رہا ہے …. زندگی بکھر رہی ہے …. معاشرہ ٹوٹ رہا ہے!
انسانی تاریخ میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام رواداری کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ قومی اور عالمی سطح پر امن کے قیام اور رواداری کے فروغ کے لئے رحمۃَ لّلعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی سیرت و حیات نمو نۂِ عمل ہے۔
موجودہ تناظر میں ملکی سطح پر بالخصوص نسلی، علاقائی ، گروہی ، لسانی ، مذہبی و مسلکی اختلافات ، تفرّقے کے خاتمہ اور مکمل طور پر امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ …. حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا جا ئے کہ یہی انسانیت کے لئے نمونۂِ عمل اور ابَدی نجات ہے۔
اسلام امن کا داعی، صدا قت کا علمبردار اور انسانیت کا پیامبر ہے ۔ اس کی نگاہ میں بنی نوع انسان کا ہر فرد مساوات کا مستحق ہے ۔ وہ رنگ و نسل کے عیوب سے پاک ہے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ و السّلام نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لئے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اُس دَور میں فرمائیں کہ جب لو گ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے مذہبی رواداری کی محض تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ عملی اقدامات بھی فرمائے۔
مفتوحہ قوموں اور غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی۔ ان کے جان و مال، عزت و آبرو اور عقیدہ و مذہب کا جس قدر تحفظ کیا گیا تاریخِ عالَم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید ﷲ (بین الاقوامی قانون کے ماہر اور سیرت نگار) لکھتے ہیں:
’’قرآنِ مجید میں یہ اصول ملتا ہے کہ ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خود مختاری دی جائے۔ ان کو عقائد کی آزادی حاصل ہو اور اپنی عبادات وہ اپنی طرز پر کر سکیں اور اپنے مقدمات کا فیصلہ اپنے ہی ججوں کے ذریعہ اپنے قانون کے مطابق کرائیں ۔ کامل داخلی خود مختاری کا قرآن کی کئی آیات میں ذکر ہے ،جن میں سے ایک آیت یہ ہے:
’’ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو ﷲ نے اس میں نازل کیا ہے۔‘‘
(سورۃ المائدۃ ۔آیت 47)
یعنی: انجیل والوں کو چاہیئے، ان قواعد کے مطابق احکام دیا کریں جو ﷲ تعالیٰ نے انجیل میں نازل کئے ہیں۔ ان احکام کے تحت عہدِ نبوی علیہ الصلوٰۃ و السّلام ہی میں آبادی کے ہر گروہ کو خود مختاری مل گئی تھی، جس طر ح مسلمان اپنے دین، عبادات، قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طو ر پر آزاد تھے، اسی طرح دوسرے مذاہب وملت کے لوگوں کو بھی کامل آزادی تھی۔‘‘
یہود و نصاری کو تعاون و یکجہتی کی دعوت دی پھر یہ کہا گیا!
’’ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔‘‘
(سورۃ الرعد ۔ آیت7)
’’ہر امّت کے لئے ایک رسولؑ ہے ۔‘‘
(سورۃ یونس ۔ آیت 47)
’’اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوںؑ کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوںؑ کے نہیں کئے۔ ‘‘
(سورۃ النساء ۔ آیت 164)
مذہبی رواداری اور آزادی پر مبنی یہ مثالی تعلیمات آج بھی تمام دنیا کے لوگوں کا احترام کرنے اور ان کو تسلیم کرنے کا واضح فیصلہ ہے۔
’’مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کو ئی بھی ﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اُن کا اجر اُن کے ربّ کے پا س ہے اور اُن پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ غم۔‘‘
(سور ۃ البقر ہ ۔ آیت 62)
تمام مذاہب کے پیروکاروں میں باہمی احترام و رواداری کا جذبہ پیدا کرنا ……اور سب کو ایک ہو جانے اور متحد ہو کر ﷲ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت اسلام ہے۔
‘‘اِسی طریقے پر چلنے کی ہدایت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو دی تھی اور اِسی کی وصیّت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گئے تھے کہ میرے بچّو! ﷲ نے تمھارے لئے یہی دین پسند کیا ہے۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔آیت132)
اسلام بتاتا ہے کہ تمام مخلوق ﷲ تعالیٰ کا کنبہ ہے ۔ جو مذہب ہر مخلوق کو ﷲ تعالیٰ کا کنبہ سمجھے وہ بھلا مخلوق کو ناحق نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے ۔ مذہب سب کے لئے سراپا رحمت، امن اور سلامتی ہے۔
دینِ اسلام یہ ہے کہ ……ہم دوسرے انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا احترام کریں۔ کسی دوسرے کے مذہب اور عقیدے کو مجروح کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
ہم سب رنگ و نسل اور مختلف مذاہب کے باوجود ﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا ایک ہی پانی پیتے ہیں …. ﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ہَوا سے مشترکہ طور پر زندہ ہیں …. سورج کی روشنی سب کے لئے یکساں ہے …. ہم سب ایک ہی مادے سے تخلیق ہوتے ہیں …. ہم سب کے غم، خوشی، جذبات اور احساسات یکساں ہیں …. ہم سب اس دنیا میں آتے ہیں …. مقرّرہ وقت تک زندہ رہتے ہیں …. اور پھر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ….
ہمیں چاہیئے کہ زندگی کے مختصر وقفے کو پیار، محبت، اتفاق اور بھائی چارے کی تصویر بنا دیں …. اور خوش رہیں!
۲۷جنوری ۲۰۱۲ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 12 تا 16





براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔