خواب میں مستقبل کا انکشاف ہوتا ہے
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6590
سوال: انسان اپنی زندگی کا بہت سا حصہ سو کر گزارتا ہے۔ سونے کے دوران وہ خواب بھی دیکھتا ہے۔ یہ خواب کیا ہیں؟ کیا ان کی انسانی زندگی میں کوئی حقیقت ہے۔ انسان کے لئے یہ کیا معنی رکھتے ہیں؟
جواب: خواب ہماری زندگی کا حصہ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ایسے حواس بھی کام کرتے ہیں جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو۔’’ (سورہ یٰسین)
آیت مقدسہ کی روشنی میں ہمارے اندر کام کرنے والے دونوں حواس (بیداری کے حواس اور خواب کے حواس) ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ایک ورق میں دو صفحے چپکے ہوئے ہوتے ہیں الگ الگ ہونے کے باوجود ورق ایک ہی رہتا ہے دونوں صفحے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے ہیں۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس کی نوعیت بھی ورق کی طرح ہے۔ ورق کا ایک صفحہ بیداری اور دوسرا صفحہ خواب۔ دونوں صفحوں پر ایک ہی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ صرف زاویۂ نظر کا فرق ہے۔ نظر ایک صفحہ پر تحریر کو زیادہ روشن اور واضح رکھتی ہے اور دوسرے صفحہ کی عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے۔ روشن اور واضح دیکھنے کی حالت میں نظر ذہن کو عبارت کے مفہوم سے باخبر کر دیتی ہے اور جب نظر اس عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے تو ذہن اس عبارت کے مفہوم سے قاصر رہتا ہے یعنی اس میں کوئی معانی نہیں پہنا سکتا۔ چونکہ ورق کے دوسرے صفحہ (خواب کے حواس) کی عبارت، بیداری میں کام کرنے والی نظر کے لئے دھندلی ہے۔ اس لئے اس میں زیادہ غور اور فکر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب فکر اس عبارت کے اندر مرکوز ہو جاتی ہے تو انسان عبارت کی معنویت میں حقیقت کو تلاش کر لیتا ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ورق کے ایک صفحہ کی عبارت کو جو بظاہر روشن ہے۔ ہم سرسری طور پر پڑھ کر کوئی نہ کوئی معنی پہنا لیتے ہیں جس میں حقیقت کا پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور ورق کے دوسرے صفحہ کی عبارت میں (جو بہت غور اور فکر کے بعد مطالعہ کی جاتی ہے) حقیقت کے چھپے ہوئے پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں وہ دراصل ورق کے دوسرے صفحہ کی وہ عبارت ہے جو بیداری کے حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس، بیداری کے ہوں یا خواب کے۔ غیب سے براہ راست ایک ربط رکھتے ہیں کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ انسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصہ کا نام ظاہر اور دوسرے حصہ کا نام غیب رکھ لیا ہے۔ فی الواقع یہ طرز فکر اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نکالتے ہیں رات کو دن سے اور نکالتے ہیں دن کو رات سے۔ اور داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔ سورۃ یسین
یعنی رات اور دن کے حواس ایک ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم نے ان دو حواسوں میں سے ایک حواس کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے چونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے اس لئے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نے ہمیں اسپیس اور ٹائم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
خواب یا خواب کے حواس میں ہم اسپیس اور ٹائم کے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں بلکہ ٹائم اور اسپیس ہمارے لئے بنی ہوئی ہے۔
تاریخ کے صفحات میں ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہیں۔ ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سورۂ یوسف میں مستقبل کے آئینہ دار خوابوں کا ذکر آیا ہے۔ یوسف نے کہا۔ اے میرے باپ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند۔ میں نے دیکھا کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب نے فرمایا۔
میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہیں اس طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت عطا ہوئی تھی۔ اپنے لخت جگر کو یہ بھی کہا کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں کو نہ بتانا۔ (قرآن)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خواب میں موجود حضرت یوسف علیہ السلام کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جگر گوشہ کو ہدایت فرمائی کہ اپنے بھائیوں سے اس خواب کا ذکر نہ کرنا۔ خواب کی تعبیر میں یہ بات ان کے سامنے آ گئی تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔
اس طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام زندان مصر میں قید تھے۔ قیدیوں نے جن میں ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا باورچی تھا۔ اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنےاپنے خواب سنائے۔
ایک نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا۔ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔
قرآن پاک میں بیان کردہ چوتھا خواب بادشاہ مصر کا ہے۔ بادشاہ نے تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا۔ میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں۔ انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔
بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ رکھا ہو گا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں بیان شدہ خوابوں میں ایک خواب پیغمبر کا ہے اور تین خواب عام انسانوں کے ہیں۔
انجیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے خواب کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
“اور خدا نے رات کو خواب میں اسرائیل سے باتیں کیں اور کہا۔ اے یعقوب۔ اے یعقوب۔ اس نے جواب دیا۔ میں حاضر ہوں۔”
اس نے کہا۔ میں خدا تیرے باپ کا خدا ہوں۔ مصر جانے سے نہ ڈر کیونکہ میں وہاں تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔ میں تیرے ساتھ مصر کو جاؤں گا۔ (یعنی میری نگہبانی تیرے ساتھ ہے) اور پھر تجھے ضرور لوٹا بھی لاؤں گا۔ اور یوسف اپنا ہاتھ تیری آنکھوں پر لگائے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ حالات و واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح خوابوں میں نشاندہی کی گئی تھی۔
خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ زبیدہ کا خواب بھی قابل غور ہے کہ ملکہ زبیدہ نے اپنے بیٹے امین الرشید کی پیدائش کی رات خواب دیکھا کہ چار عورتوں نے امین الرشید کو کفن میں لپیٹنا شروع کر دیا ہے۔ لپیٹتے وقت ایک عورت نے دوسری عورت سے کہا۔ کم عمر، تنگ دل، بدخو بادشاہ۔ دوسری نے کہا، بدچلن، ظالم، ناسمجھ اور فضول خرچ فرماں روا۔
تیسری نے کہا۔ گنہگار۔ بے وفا۔ کم عقل اور ناتجربہ کار حکمران۔
چوتھی نے کہا۔ دھوکہ باز، عیاش اور مغرور تاجدار۔
تاریخ بتاتی ہے کہ خواب ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا۔ اس خواب سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ذہن بیداری کی طرح خواب میں بھی معنویت اور مفہوم کی طرف متوجہ رہے تو خواب اور خواب کی تعبیر ساتھ ہی ساتھ ذہن نشین ہو جاتی ہے۔
خواب میں پیشین گوئیاں:
علامہ اقبال کی پیدائش سے قبل ان کے والد نے بھی خواب دیکھا تھا۔
خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے اس میں لوگوں کا ہجوم ہے۔ فضا میں رنگا رنگ پروں والا ایک نہایت خوبصورت پرندہ اڑ رہا ہے۔ لوگ دیوانہ وار اپنے ہاتھ بڑھا کر اس پرندے کے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے والد بھی اسی ہجوم میں شریک ہیں۔ وہ پرندہ باوجود جدوجہد کے ہجوم میں سے کسی صاحب کے ہاتھ نہیں آتا۔ اور ایک دم فضا سے اتر کر علامہ اقبال کے والد صاحب کی گود میں خود بخود آ کر گرا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی ولادت سے پہلے ان کے والد نے خواب دیکھا کہ تمام دنیا میں اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ سور اور بندر لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یکایک مجدد صاحب کے والد کے سینہ سے ایک نور نکلا اور اس میں سے ایک تخت ظاہر ہوا۔ اس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے جس کے سامنے ظالموں اور ملحدوں کو ذبح کیا جا رہا ہے اور کوئی شخص بلند آواز سے پکار رہا ہے۔
و قْل جآء الحقُّ و زَھَقَ البٰطلُ اِنّ البٰطلَ کان زھُوقا ۔
(حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل کے مقدر میں مٹ جانا ہی ہے)۔
تعبیر یہ بتائی گئی کہ تمہارے ایک لڑکا ہو گا اور اس کے ذریعے حق کا بول بالا ہو گا اور کفر و الحاد کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تاج الاولیاء حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی والدہ ماجدہ نے حضرت بابا تاج الدین کی پیدائش سے قبل خواب دیکھا کہ ایک ایسا میدان ہے جس کی وسعت کا اندازہ ممکن نہیں۔ اس میدان کے اندر ہزاروں شہر آباد ہیں اور ان شہروں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ رہتے ہیں۔ سردی کا موسم ہے، چودہویں رات ہے، چاندنی ہر سمت پھیلی ہوئی ہے۔ ہر شخص چاندنی کے حسن میں سرشار اور پر کیف ہے۔ حضرت کی والدہ نے دیکھا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کی گود میں آ گیا اور اس چاند کی کرنیں پورے عالم کو منور کر رہی ہیں۔
مندرجہ بالا خواب ہمیں اس حقیقت میں تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ خواب ہماری زندگی کا اسی طرح حصہ ہے جس طرح بیداری ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ انسان جس طرح سونے پر مجبور ہے بالکل اسی طرح جاگنے اور بیدار رہنے پر بھی مجبور ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 165 تا 170
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔