خواب اور بیداری
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6607
سوال: آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ انسان کی آدھی زندگی خواب کے حواس میں گزرتی ہے اور باقی آدھی بیداری کے حواس میں گزرتی ہے۔ آپ بیداری کے حواس کو مفروضہ (فکشن) حواس کا نام دیتے ہیں جبکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا کی پوری تاریخ کا دارومدار، دنیا میں موجود نام علوم کا انحصار بیداری کے حواس پر ہے۔ اگر بیداری کے حواس نہ ہوں جن کو آپ مفروضہ حواس بیان فرماتے ہیں تو انسان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، وضاحت فرما دیں۔
آپ نے اپنی تحریر میں جنات کو انسانوں سے زیادہ غم خوار ہمدرد فرمایا ہے۔ کیا ایسا کہنا اشرف المخلوقات یعنی انسان کی توہین نہیں؟
جواب: علم مابعد النفسیات میں ان علوم سے بحث کی جاتی ہے جو طبیعات اور نفسیات کی نفی کرتے ہیں سب سے پہلے ہمیں یہ تلاش کرنا ہے کہ ہمارے اندر جو حواس کام کر رہے ہیں اور جن کو ہم بیداری کے حواس کے نام سے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں وہ کس طرح بنتے ہیں اور ہمیں کہاں سے وصول ہو رہے ہیں؟ یاد رکھئے! ہمارے اندر جو حواس کام کر رہے ہیں ان کا وجود مستقل نہیں ہے، ابھی ہم خوش ہو رہے ہیں اور پھر ناخوش ہو جاتے ہیں کہ ہم ہر قدم پر حواس کی گرفت میں اس طرح جکڑے اور بندھے ہوئے ہیں کہ ہماری اپنی کوئی حیثیت باتی نہیں رہتی۔
من حیث المجموع ہم کسی ایک تصور کسی ایک خیال کسی ایک احساس یا کسی ایک عملے کو خوشی اور راحت کا ذریعہ قرار نہیں دے سکتے۔
ایک خیال ایک تصور یا عمل اگر میرے لئے خوشی اور راحت کا سبب ہے تو یہی عمل دوسرے فرد کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے۔
اگر ایک شخص اولاد کی زیادتی سے پریشان اور بدحال ہے تو دوسرا شخص اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس اور ناامید ہے۔ اگر ایک آدمی افلاس اور تنگدستی سے عاجز آیا ہوا ہے تو دوسرا آدمی عیش و عشرت کی کثرت سے دماغی کشمکش اور اعصابی کشیدگی میں مبتلا اور بے چین ہے۔ ایک آدمی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون کی دولت سے محروم ہے، جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ اس لئے بے چین اور مضطرب ہے کہ اسے وسائل حاصل نہ ہونے کی شکایت ہے اور جس کے پاس وسائل کا انبار ہے وہ اس لئے بے چین اور مضطرب ہے کہ ان وسائل نے اس کی ذہنی آزادی کو سلب کر لیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سے زیادہ محبت ماں کو اولاد سے ہوتی ہے مگر ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماں بھی اولاد کو بھول جاتی ہے۔ شوہر بیوی کو بھول جاتا ہے اور بیوی شوہر کی جدائی کو فراموش کر دیتی ہے، آج اگر ہمارے اوپر خوشی اور مسرت کے حواس غالب ہیں تو ہم غم و اندوہ سے لبریز حواس کو اس طرح نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ کبھی ہمارے اوپر مسلط ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر آج ہمارے اوپر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں تو ہم اس زندگی جس کو خوشیوں سے لبریز زندگی قرار دیتے ہیں، سے اس طرح گزر جاتے ہیں کہ یاس اور ناامیدی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بیداری کے جن حواس میں زندگی گزار رہے ہیں وہ مفروضہ نہیں ہیں۔ یہ بات بہت غور طلب اور اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پابند اور مقید پیدا نہیں کیا۔
قرآن پاک کے بیان کردہ قانون کی روشنی میں اصل انسان حواس کا پابند کبھی نہیں ہوا، حواس ہمیشہ انسان کے پابند رہے ہیں۔
آیئے! یہ تلاش کریں کہ انسان کو حواس، سوچنا، سمجھنا متاثر ہونا، غم زدہ یا خوش ہونا، زندہ رہنے کی کوشش کرنا یا موت سے ہم آغوش ہو جانا کہاں سے ملے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ‘‘اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ اور جہاں سے تمہارا دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو، تمہارے اوپر زمانیت اور مکانیت کی کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن دیکھنا اس درخت کے قریب نہ جانا۔ ورنہ تم اپنے اوپر قید و بند کا عذاب مسلط کر لو گے۔ وہ درخت گندم کا درخت ہرگز نہیں ہے۔ وہ درخت ہے حواس کا، ایسے حواس کا جو انسان کو ہمیشہ پابند اور مقید رکھتے ہیں، درخت معنوی نقطہ نظر سے ایک ایسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس میں شاخ در شاخ پتے اور پھل کی موجودگی پائی جاتی ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اے آدم زماں و مکان کی پابندی قبول نہ کرنا ورنہ تو اس میں اس طرح جکڑا جائے گا۔ جس طرح کسی درخت کی شاخ میں سے شاخ اور پھر شاخ میں سے شاخ اور ہر شاخ میں بے شمار پتے ہوتے ہیں اور جب تو اس قید و بند کو آزادی اور خوشی کے بدلے قبول کر لے گا تو اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ۔ (البقرہ -35)
اور جب آدم نے قید و بند کی زندگی کو اپنا لیا تو جنت نے جو آزاد اور زماں و مکاں کی پابندیوں سے ماوراء مقام ہے۔ اسے رد کر دیا۔
چونکہ انسان جنت کے حواس کھو بیٹھا جو اس کے اپنے اصلی حواس ہیں۔ اس لئے انسان یا آدم کو زمین پر پھینک دیا گیا جہاں وہ پابندی اور قید و صعوبت کے حواس میں گرفتار ہے علم مابعد النفسیات کا یہ کہنا ہے کہ زمین کے اوپر کام کرنے والے حواس مفروضہ ہیں ۔ اس لئے کہ یہ انسان کے اصل حواس نہیں ہیں بلکہ عارضی اور نقلی ہیں۔
انسان کے اصل حواس وہ ہیں جہاں اس پر زماں و مکاں کی حد بندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اگر انسان ان عارضی اور نقلی حواس کے تسلط سے نجات پا جائے تو پھر وہ اپنے اصلی اور آزاد حواس کو حاصل کر سکتا ہے جس میں نہ غم کو دخل ہے نہ پریشانی کو اور نہ جذباتی کشمکش، اعصابی کشیدگی اور دل و دماغ کے کرب کی داستانیں ہیں۔
نوع انسان کی تاریخ میں ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کیا جا سکتی کہ انسان بیداری اور سونے کی حالتوں میں سے کسی ایک حالت پر قدرت رکھتا ہو ۔ انسان جس طرح سونے پر مجبور ہے بالکل اسی طرح بیداری بھی اس کی طبیعت کا ایسا تقاضہ ہے ۔ جس کو وہ کسی صورت میں رد نہیں کر سکتا۔ بیداری کے اعمال و واقعات میں انسان کا دماغ جس طرح توہمات خیالات، تصورات اور عمل کرنے کی تحریات کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ بالکل اس طرح خواب میں انسانی دماغ ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھتا ۔ خواب کے اندر کئے ہوئے اعمال اگر حافظہ کی گہرائی میں نقش ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اسی طرح یاد رہتے ہیں جس طرح بیداری میں کیا ہوا عمل یاد رہتا ہے ۔ اگر بیداری کا عمل حافظہ کی گہرائی میں نقش نہ ہو تو وہ اس طرح بھول کے خانے میں جا پڑتا ہے۔ جس طرح خواب میں کئے ہوئے اعمال فراموش ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی تمثیل نہیں ہے عام تجربات اور مشاہدات ہیں۔ ہر شخص کی زندگی پیاز کے چھلکوں کی طرح لپٹی ہوئی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالیٰ نے خواب کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام ابھی زندان میں ہی تھے کہ بادشاہ نے خواب میں دیکھا ’’سات موٹی گائیں ہیں اور سات دبلی گائیں موٹی کو نگل گئیں اور سات سرسبز و شاداب بالیں ہیں اور سات خشک اور سات خشک نے سات سرسبز شاداب بالوں کو کھا لیا۔’‘ بادشاہ اس عجیب و غریب خواب سے پریشان خاطر اور حیران تھا ۔ درباریوں سے خواب بیان کیا اور خواب کی تعبیر چاہی۔ درباری بھی اس خواب کو سن کر فکر اور حیرانی کے عالم میں گرفتار ہو گئے اور خواب کی تعبیر بیان نہیں کر سکے اور اپنی درماندگی اور بے چارگی کو چھپانے کے لئے کہا۔ ’’بادشاہ! یہ خواب نہیں ہے بلکہ پریشان خیالی ہے ۔ ہم سچے خواب کی تعبیر تو دے سکتے ہیں مگر خیالات کا حل ہمارے پاس نہیں ہے۔’’
بادشاہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔ اسی اثناء میں ساقی کو اپنا خواب اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کا واقعہ یاد آ گیا۔ ساقی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا ۔ اگر آپ فرمائیں تو میں اس کی تعبیر لا سکتا ہوں۔ بادشاہ کی اجازت سے وہ اسی وقت قید خانہ پہنچا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کا خواب سنا کر عرض کیا۔ ‘‘آپ اس خواب کا تجزیہ کیجئے۔ آپ سچائی اور تقدس کے پیکر ہیں۔ آپ ہی اس کو حل کر سکتے ہیں۔’’
قرآن پاک فرماتا ہے:
‘‘کہا یوسف نے، تم لگاتار سات برس کھیتی کرو گے۔ اپنے استعمال کے علاوہ سب کی سب بالوں کو محفوظ کر دو۔ اس کے بعد سات برس سختی کے آئیں گے جن میں کوئی فصل نہ ہو گی۔ اس وقت یہ محفوظ غلہ تمہارے کھانے کے کام آئے گا۔’’
اس خواب سے جہاں خواب یا خواب میں دیکھے ہوئے حالات کی تائید ہوتی ہے وہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خواب مستقبل کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس کو ہم غیب کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔
انسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ اس لئے ہے کہ اس کے ساتھ غیب کے حواس چپکے اور لپٹے ہوئے ہیں۔ اگر انسان کے اندر خواب کے حواس یا مستقبل کے حالات سے متعلق تحریکات نہ ہوتیں تو انسان کبھی بھی مستقبل میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔
جنت جہاں ماضی ہے وہاں مستقبل بھی ہے۔ جو انسان کا اپنا اصلی مقام اور وطن ہے اگر بیداری کے حواس خواب کے حواس سے زیادہ ہوتے تو انسان خواب کی دنیا (جنت، دوزخ) میں اپنے ارادہ کے تحت اپنے لئے کوئی مقام منتخب نہیں کر سکتا تھا۔
جنات کو انسانوں سے زیادہ ہمدرد اور غم خوار کہہ کر انسانوں کی ہرگز توہین نہیں ہوئی۔ کیونکہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ اور یہ بات کہ انسان اشرف المخلوقات ہے تو اس حیثیت میں وہی انسان جنات سے اشرف ہیں جو اشرف المخلوقات کے دائرہ میں قدم رکھ چکے ہیں۔ عام انسان اشرف المخلوقات کہلانے کا ہرگز مستحق نہیں ہے اور اس کی تائید قرآن پاک سے اس طرح ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ زمین پر چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں۔
(سورہ انعام)
حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں مگر یہ واقعہ ہے کہ جنات میں انسانوں سے زیادہ عارف ہوتے ہیں۔ اشرف المخلوقات اس انسان کو کہا جاتا ہے کہ جو زماں و مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر خالق حقیقی کا عرفان رکھتا ہو۔ عرفان بھی کائنات میں عام موجودات کا سا نہیں بلکہ ایسا عرفان رکھتا ہو جس سے خائف ہو کر سماوات و ارض اور جبال نے انکار کر دیا ہے کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔ ہم نے اپنی امانت پیش کی مگر سب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔ اگر ہم نے اسے اپنے نحیف کندھوں پر اٹھا لیا تو بے شک ہم نابود ہو جائیں گے اور انسان نے قبول کر لیا۔
میں نہ قوم کے جذبات سے کھیلنا چاہتا ہوں اور نہ ہی گمراہ کرنا میرا شیوہ ہے ۔ البتہ ہمارے سامنے پروگرام ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ میں نوع انسانی کو اس زندگی سے روشناس کر دوں جس زندگی میں نہ حزن ہے نہ ملال ہے، خوف اور نہ غم ہے اور جس زندگی میں خوشیاں اور راحتیں ان کی ہاتھ باندھی غلام ہیں۔ یہ وہ زندگی ہے جس میں انسان زماں اور مکاں کی پابندیوں سے آزاد ہو کر لامحدود وسعتوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ جہاں کھوکھلے نظریات، گھٹیا اخلاق اور بے ہودہ عبادات کو قطعاً دخل نہیں ہے۔
اگر زندگی میں سے تجسس اور تلاش کو نکالا جائے تو زندگی ناپید ہو کر رہ جائے گی۔ آدم کی پیدائش سے آج تک نوع انسانی کی مجموعی زندگی جن مراحل سے گزری ہے ان میں ہر مرحلہ تجسس اور تلاش کے تانے اور بانے سے بنا ہوا ہے۔ اس صدی کے انسانوں کو جس قدر وسائل آج مہیا ہیں اور جتنی قسمیں علوم و فنون کی آج ہمارے سامنے ہیں، کیا وہ سب تلاش کے بغیر ممکن تھیں؟ آرام و آسائش سے متعلق ایجادات مثلاً ٹیلی ویژن، ٹیلیفون، ریڈیو سب کے سب تجسس ہی کی وجہ سے موجود ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 206 تا 211
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔