حکمرانی
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18202
قرآن پاک کی تعلیمات پوری نوع انسانی کیلئے ہیں۔ جس طرح مٹھاس ہر فرد کیلئے مٹھاس اور نمک ہر فرد کیلئے نمک ہے، قرآنی تعلیمات پر دو طرح عمل ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن میں بیان کردہ احکامات پر غیر مسلم کی حیثیت سے عمل کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان کی حیثیت سے قرآن کی حکمتوں پر تفکر کر کے عمل کیا جائے۔
موجودہ سائنسی دور میں جب غیر مسلم اقوام نے قرآن میں بیان کردہ لوہے کی خصوصیات اور فوائد پر غور کیا، تو سائنس نے اپنے پیروکاروں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔اللہ کریم نے کہا ہے:
’’متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
عالم اسلام تفرقوں اور انفرادی لوٹ کھسوٹ میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے برعکس غیر مسلم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ باوجود یہ کہ عالم اسلام وسائل کے اعتبار سے خود کفیل ہے لیکن چونکہ اتحاد نہیں ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ متحد ہو کر نہیں پکڑا ہوا ہے اس لئے ذلیل و خوار ہے۔ اتنا ذلیل و خوار ہے کہ اپنی حفاظت اور اپنی بقاء کیلئے بھی غیر مسلم اقوام کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ عراق ایران کی لڑائی کے زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور طوفان ِہلاکت نے مسلمانوں کو لقمہ تر سمجھ کر نگل لیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ:
جب بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمر ابن الخطاب کے حوالے کی جا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔مسجد کی دوسری منزل پر پادری ایک دوسرے کی داڑھیاں کھینچ رہے تھے۔ اختلافی مسئلہ یہ تھا کہ ایک گروہ کہہ رہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خمیری روٹی کھائی ہے، دوسرے گروہ کی تحقیق یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خمیری روٹی نہیں کھائی۔۔۔۔۔۔اللہ کا قانون اٹل ہے۔ جب مسلمان قانون کے پاسبان تھے اللہ نے انہیں سارے عالم میں ممتاز کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ سود لینے والے اور سود دینے والے اللہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور اللہ کے کھلے دشمن ہیں۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے دشمن کی نمازوں، اللہ کے دشمن کے روزوں کو کس شمار و قطار میں رکھا جائے۔۔۔۔۔۔یہی رد عمل آج ہمیں اس مقام پر لے آیا ہے کہ ہم اپنے مقامات مقدسہ کی خود حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔
لہو لہو اس داستان کی روئداد ’’مشرق میگزین‘‘ نے شائع کی ہے۔ آپ بھی پڑھیئے اور سوچئے کہ۔۔۔۔۔۔کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ فروعی اختلافات کو ختم کر کے سیسہ پلائی ہوئی ایک دیوار بن کر اپنا کھویا ہوا عروج دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔
اللہ کریم کا واضح اور روشن اعلان ہے۔
جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔۔۔۔۔۔
وہ اندھیرا گھر
جس میں داخل ہونے والا کبھی باہر نہیں نکلتا۔
وہ راستہ
جس سے لوٹنے کی کوئی راہ نہیں۔
وہ مکان
جس میں روشنی کا گزر نہیں ہو سکا۔
اور جہاں لوگ دھول پھانکتے اور کیچڑ کھاتے ہیں
اور جہاں دروازوں اور تالوں پر کالی گرد جمی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
ڈھائی ہزار قبل مسیح کی یہ تحریر اس لوح پر کندہ ہے جو عراق کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ان مقامات سے ٹکڑوں کی صورت میں ملی تھیں جہاں اب نئے شہر اور نئی بستیاں آباد ہیں۔ مگر حالیہ جنگ کے دوران ان بستیوں اور شہروں کا یہ حال ہو گیا ہے جیسے بابلی دیو مالا کی ملکہ بہار عشتار نے ایک بار پھر بحر ظلمات کا سفر کیا، عکادی سو میری اور اشوری تہذیبوں کی اس داستان میں تخلیق اور محبت کی دیوی عشتار جب ملکہ ثور یعنی بدی کی دیوی آرائش کی کل کے ہاتھوں گرفتار ہو کر پاتال میں اسیر ہو جاتی ہے تو کرہ ارض پر نہ صرف تخلیق کا عمل رک جاتا ہے
بلکہ آسمان کالا اور زمین سرخ ہو جاتی ہے۔
اور آج پھر عراق کا آسمان کالا اور زمین گرم ہو رہی ہے۔
بغداد کے نواح میں قدیم کھنڈروں پر تعمیر ہونے والی یہ بستیاں اور شہر خوفناک بمباری سے ایسے اندھیرے گھر بن چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے معدوم ہو گئے ہیں۔ ٹوٹے بکھرے دروازوں پر کالی گرد جمی ہے اور یہاں کے بچے کھچے مکین لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھے دھول پھانکنے اور کیچڑ چاٹنے پر مجبور ہیں اور برسوں بعد جب اپنے شاندار ماضی کی تلاش میں سرگرداں کل کا انسان ان شہروں اور بستیوں کی بوسیدہ ہڈیاں چنے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ شہر اور تاریکی کی دیوی آرائش کی کُلِ تہذیب کے ملبے پر کھڑی ان لوگوں کا ماتم کر رہی ہے جو اپنے بیوی اور بچوں کو پیچھے چھوڑ کر بارود کے آتشکدہ میں کود گئے تھے اور ان کے بچوں کے لئے آنسو بہا رہی ہے جن کے پھول سے جسم ایٹمی اور کیمیائی آگ سے سرمہ ہو گئے تھے۔ اور شاید زمین بوس شہروں کے کھنڈرات سے ماہرین ارض کو ایسی کوئی زندگ آلود تختی بھی مل جائے جس پر مہذب دنیا کی زبان میں یہ درج ہو کہ ’’ہم نے دجلہ و فرات کی وادی پر آگ کی بارش کر کے بابلی تہذیب کے ہزاروں سال پرانے تمام احسانات چکا دیئے ہیں۔‘‘
علماء ارض کا کہنا ہے کہ ’’بنی نوع انسان پر دجلہ و فرات کی تہذیب کے بے شمار احسانات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بابل ہی کی شمع علم تھی جس سے یونانی دانش کدوں کے چراغ روشن ہوئے ان کے نزدیک اہل مشرق ہوں یا مغربی اقوام یہودی، عیسائی، پارسائی اور مسلمان سب کے عقیدوں اور رسم و رواج کا رشتہ بابلی تہذیب ہی سے ملتا ہے لیکن مشرق و مغرب کی مہذب اقوام نے عراق کو ان احسانات کا صلہ یہ دیا کہ بصرہ شعلوں میں جھلس گیا ہے، موصل کے کھنڈرات دھواں دے رہے ہیں۔ سامرہ مدائن نجف اشرف اور کربلا سے لہو میں ڈوبے ہوئے اتنے جنازے نکلے ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا گنتی کریں تو زبان تھک جاتی ہے، چپ رہیں تو آنکھیں ابلنے لگتی ہیں۔
خلیفہ ابو جعفر المنصور کے بغداد میں کبھی ہلاکو خاں نے عراقی سروں سے مینار تعمیر کرایا تھا، اتحادی فوجوں نے آج اس شہر کو ننگی لاشوں کا قبرستان بنا دیا ہے، ہزار داستان کی اس الف لیلوی بستی میں اب صرف ایک ہی داستان سنی جاتی ہے کہ ’’زندگی پہلے کبھی اتنی ارزاں نہیں ہوئی تھی۔‘‘
ایک ہزار ایک راتوں کے بغداد میں اب صرف ایک ہی رات باقی بچی ہے اور وہ بھی آنکھوں میں کٹ جاتی ہے۔ عباسی حکمرانوں کا پایہ تخت دریائے دجلہ کا تحفہ ہے۔ یہاں پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت امام ابو حنیفہؒ اور امام غزالیؒ کے مزارات ہیں۔ ایک دیوار ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ اس میں سادات اہل بیت کو زندہ چن دیا جاتا تھا۔ یہ تمام مقدس مقامات بھی بمباری سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اتحادیوں نے ۷۴لاکھ آبادی کے اس شہر پر طیاروں اور میزائیلوں کے ذریعے اتنا بارود گرایا ہے کہ بغداد کے ہر شہری کے حصے میں پون کلو آگ آتی ہے۔ صدر صدام اگرچہ اعتراف نہیں کرتے مگر آنکھوں دیکھی بات یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور کم و بیش ۳۰ ہزار افراد لقمہ اجل ہو گئے ہیں۔ شہر کے وسط میں سے گزرنے والے دریائے دجلہ کا اجلا پانی روزانہ سینکڑوں لاشیں اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور اب تو اس کا پانی زہریلے دھوئیں اور انسانی خون کی آمیزش سے سیاہی مائل سرخ ہو چکا ہے۔
دریائے دجلہ کے دوسرے کنارے پر کاظمین کا علاقہ ہے، کھجوروں کے باغات سے گھری ہوئی اس مرجع خلائق بستی کی آبادی پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ عباسی دور میں جب اس کا نام ’’کرخ‘‘ تھا بغداد کے قبرستان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہاں حضرت امام موسیٰ کاظمؒ اور حضرت امام تقیؒ کے حرمین ہیں۔ حرمین سے بغداد کا فاصلہ چھ میل کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کاظمین مرکزی شہر کا حصہ بن چکا ہے بیچ میں صرف دریا حائل ہے۔ حرم سے باہر سڑک کے کنارے امام موسیٰ کاظمؒ کے دو بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کے مدفن ہیں اور زیارت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتحادی طیاروں کی بمباری سے حرمین کی عمارتوں کو اگرچہ نقصان نہیں پہنچا مگر کاظمین میں واقع سینکڑوں مکان مسمار ہو چکے ہیں۔ امام موسیٰ کاظمؒ کے روضے کی طرف جانے والا راستہ بھی میزائیلوں کا نشانہ بنا ہے۔
بغداد سے کاظمین کی جانب سر راہ ایک مسجد بُراثا کے نام سے معروف ہے اس کا ایک مینار راکٹ لگنے سے شہید ہو گیا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں عام روایت یہ ہے کہ نہروان کی جنگ سے واپسی کے بعد حضرت علیؓ نے یہاں قیام فرمایا تھا۔ مسجد کے اندر ایک کمرہ مقام خانہ مریم کہلاتا ہے۔
دروازے کے باہر سیاہ رنگ کا پتھر رکھا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مقدس ماں نے اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لٹا کر رب ذوالجلال کے حضور نماز ادا کی تھی۔ صحن مسجد میں یوشعؑ نبی اور بہلول دانا کی قبور بھی ہیں۔ ۲۱ جنوری کو جب یسوع مسیح کے نام لیواؤں نے عراق پر لہر در لہر ایک ہزار طیارے اڑائے تو صحن مسجد میں مسیحی اور مسلم زائرین کا ایک ہجوم دعا کے لئے جمع تھا ان میں سے بے شمار لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ سیاہ رنگ کے پتھروں پر زائرین کے خون کے چھینٹے مسیح کی بھیڑیا نما بھیڑوں کی درندگی کے ابھی تک نشانات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ طوفان نوح سے قبل نظام آب پاشی کا بہترین نمونہ تھا، پانی کی نہریں تو صدیوں پہلے سوکھ گئیں اب ادھر سے خون کی ندیاں بہتی ہیں۔
کاظمین سے کربلا ۶۵ میل کی دوری پر واقع ہے اور عالم انسانی کو دنیا کے عظیم ترین سانحہ کی یاد دلا رہا ہے۔ یہاں نواسہ رسولﷺ امام حسینؓ ان کے اہل بیت اور ساتھیوں کے مزارات اور مقابر ہیں۔ چودہ سو سال پہلے کے نینوا اور غاضریہ کے اس میدان میں جگر گوشہ بتولؓ نے یزید وقت کے مقابل صبر و رضا کی انوکھی داستان مرتب کی تھی۔ روضہ حسینؓ سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر باب الحوائج میں حضرت عباسؓ علمدار وفا کی تفسیر بنے لیٹے ہیں۔ جن لوگوں نے کربلا کے نواح میں ایک کارخانے پر بم گرتے دیکھے ہیں ان کا اصرار ہے کہ پگھلتے لوہے کے ٹکڑے حرم امام پر بھی گرے تھے باب قبلہ پر ان کے نشانات صاف نظر آتے ہیں۔ کربلا شہر میں برسوں سے مقیم ایک ہندی خادم نے انکشاف کیا ہے کہ اتحادیوں کے تین جنگی طیاروں نے عراقی فوجیوں کے ایک دستے پر مشین گنوں اور راکٹوں سے حملہ کرتے ہوئے تل زینبیہ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے معرکہ کربلا کے دوران جہاں سے حضرت زینبؓ نے زخموں سے چُور چُور بھائی کو گھوڑے سے گرتے ہوئے دیکھا تھا۔
کربلا کے بعض ایرانی اور یمنی نژاد شہریوں کے بقول مقام حضرت علیؓ کے قریب یکے بعد دیگرے تین میزائل گر چکے ہیں اور ان سے کافی تباہی پھیلی ہے۔ ان لوگوں نے ایک تازہ گڑھے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہزار پاؤنڈ وزنی بم یہاں سے سو گز کے فاصلے پر گرا اور اس کے دھماکے سے زمین کئی جگہ سے شق ہو گئی۔ ان کی گفتگو سے پتہ چلا کہ مقام حضرت علیؓ کو بنی نوع انسانی کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے حوا کی تلاش میں دربدر بھٹکنے والے حضرت آدم کو یہیں ٹھوکر لگی تھی۔ طوفان کے دوران حضرت نوحؑ کی کشتی جب یہاں پہنچی تو ڈولنے لگی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کا گھوڑا بھی یہیں پر بدکا تھا۔ اور جب تخت سلیمانؑ کا گزر ادھر سے ہوا تو ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہاں ہر نوں کو روتے ہوئے سنا تھا۔
بغداد سے کربلا ۶۵ میل اور کربلا سے نجف اشرف کا فاصلہ کم و بیش ۶۰ میل ہے۔ یہاں مولود کعبہ اور شہید مسجد مولا علی مشکل کشا کا روضہ اقدس ہے۔ کرہ ارض کے اس ٹکڑے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا تھا کہ نجف کبھی دنیا کا بلند ترین پہاڑ تھا اور حضرت نوحؑ کے بیٹے نے اس پہاڑ سے پناہ مانگی تھی تو یہ حکم خداوندی سے ریزہ ریزہ ہو کر نرم ریت بن گیا تھا۔ کبھی اسے پشت کوفہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
کوفہ تو ویران پڑا ہے مگر نجف اشرف کی فضائیں رحمتوں اور برکتوں سے معمور ہیں۔ اتحادی طیاروں نے اس شہر کے گرد و نواح میں تین بار بمباری کی ہے جن سے پانچ پھاٹکوں والے روضہ مرتضیٰ کے دو دروازوں باب طوس اور باب فلق کو معمولی نقصان پہنچا ہے البتہ نجف میں آباد بہت سے شہری بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ ایک عراقی اخبار نویس کے بقول وادی اسلام کا قدیم ترین قبرستان جہاں حضور ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے مزارات ہیں بارود کی آگ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ نجف اشرف کے بعض خدام نے بتایا ہے کہ حرم کے احاطے میں حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کی قبور میں شگاف پڑ چکے ہیں اور جب پہلی بار اتحادی طیاروں نے کربلا کے نواح میں بم برسائے تو مدفن علیؓ سمیت قبور انبیاء دوبار ایسے کانپی تھیں جیسے زلزلہ آ رہا ہو۔
عراق کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مقتل جناب امیر المومنین کوفہ اور زنداں امام علی تقی اور امام حسن عسکری سامرہ بھی اتحادی بم باری سے متاثر ہوئے ہیں۔ کوفہ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں فوجی چھاؤنی کے طور پر آباد ہوا تھا جبکہ اس کی قدامت صدیوں اور قرنوں پر محیط ہے بعض روایات کے مطابق یہاں پہنچ کر حضرت آدمؑ کی دعا قبول ہوئی، حضرت ابراہیمؑ کی ولادت اسی خطے میں ہوئی، حضرت ادریسؑ اور حضرت خضرؑ کی رہائش بھی اسی خطے میں تھی، کہتے ہیں کہ حضرت یونسؑ کو مچھلی نے اسی مقام پر اُگلا تھا اور وہ تنور بھی یہیں کہیں تھا جہاں سے سیلاب عظیم پھوٹا تھا، کوفہ سفیر حسین حضرت مسلم بن عقیل کا مدفن ہے اور بابل کے کھنڈرات بھی اسی شہر کے نواح میں واقع ہیں۔
سامرہ جس کا پرانا نام سرمن رائے ہے مغدود سے موصل جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے، خلافت عباسیہ کا دارالخلافہ رہ چکا ہے اور ڈینجرزون سے اس کا فاصلہ ۸۰ میل ہے۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے گوش کا پوتا نمرود یہیں پیدا ہوا تھا۔ امام عصر کی والدہ ماجدہ سیدہ نرجس خاتون اسی جگہ دفن ہیں، سامرہ اور کوفہ سے نقل مکانی کر کے اردن پہنچنے والے جنگی متاثرین کا کہنا ہے کہ اتحادی بم باری سے حضرت ادریسؑ کی رہائش گاہ سے متصل مکانات کو سخت نقصان پہنچا ہے، مقام ابراہیمؑ کا تو نشان ہی مٹ چکا ہے، سامرہ کے وسط میں واقع تاریخی برج کی ایک منزل گر گئی ہے اس برج کے بارے میں مشہور ہے کہ نمرود شہر کا نظارہ کرنے کے لئے یہاں گھوڑے پر بیٹھ کر آتا تھا۔
نبیوں، رسول زادوں، اماموں اور ولیوں کے متبرک اور مقدس سر زمین پر ٹوٹنے والی قیامت کے نتیجے میں شہید مزارات، مقابر اور ہزاروں سال پرانے تاریخی مقامات جس بے دردی سے مسمار کئے جا رہے ہیں ان کے نوحے اور فریاد پوری دنیا نے سنی ہے، خدا کی دھرتی پر اس کے رسولوں کی امتوں نے جو فتنے اٹھائے ہیں ان کا دھواں آسمان تک پہنچ رہا ہے۔ بغداد سے ۲۵ میل دور واقع مدائن سے آنے والے ایک مسافر کی زبانی صحابی رسولﷺ حضرت سلیمان فارسیؓ کے مقبرے کا حال جان کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ:
’’مسجد امام حسن کا گنبد گولیوں سے چھلنی چھلنی ہو رہا ہے، قبور حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عبداللہ بن جابر انصاری کے ساتھ ساتھ نوشیروان عادل کے مسمار محلات بھی کانپ اٹھے ہیں۔‘‘
مہذب قوموں کے نرغے میں جلتی بھڑکتی سرزمین عراق کا وہ شہر الاحمر بھی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جسے بائبل میں کیش کے نام سے پکارا گیا ہے۔ یہ وہی شہر ہے فہرست شایان کے مطابق جہاں طوفان نوح کے بعد اور پانچ ہزار قبل از مسیح آسمان سے دوبارہ بادشاہت اتاری گئی تھی اس بادشاہت کے ایک فرمانروا احمورابی نے خداوند مروک کے حکم سے دنیا کا پہلا ضابطہ قانون مرتب کیا تھا اور اس خطے پر سوا لاکھ برس سے آباد انسانوں کی یہی منظم تہذیب سمجھی جاتی ہے۔ آج یہ تہذیب چیتھڑے چیتھڑے ہو گئی ہے، دنیا کے پہلے ضابطہ قانون کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، وہ یوں کہ جنگ بازوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے، ماضی و حال ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی قانون اور اخلاق۔ وہ زیر زمین پیغمبروں کی صدائیں سنتے ہیں اور نہ ہی ماضی کی پکار پر توجہ دیتے ہیں۔ محمدﷺ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے صرف یہ سوچتے ہیں کہ جس طرح پانی کے سیلاب کے بعد پچھلی قوموں کے لئے آسمان سے بادشاہت اتری تھی اس طرح آگ کے طوفان کے بعد ان کے لئے بھی حکمرانی اتاری جائے گی اور اسی لئے انہوں نے پرانی بادشاہتوں کو مٹانا شروع کر دیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 14 تا 21
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔