حدیبیہ میں کنواں
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13056
صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں نےایسے پتھریلے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا تھا جہاں پانی نہیں تھا۔ البتہ ایک کنواں تھا۔ جو عرصے سے خشک پڑا تھا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک تیر حضرت ناجیہؓ کو دیتے ہوئے فرما یا ’’اس خشک کنویں میں اترو اور اس کے بیچ میں یہ تیر گاڑ دو‘‘ تیر گاڑتے ہی کنویں میں سے پانی کا چشمہ ابل پڑا۔
بنو سعد کا کنواں
بنو سعد بن ہذیم کا ایک وفد حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں تبوک کے مقام پر حاضر ہوا اور عرض کیا؟ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے کنویں میں پانی بہت کم ہے۔ گرمیوں کا موسم ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارا خاندان پانی کی تلاش میں منتشر ہوجائے گا۔ ہمارے لئے دعا کریں کہ کنوئیں میں پانی پورا ہوجائے۔ ’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کنکریاں طلب کرکے ان کو ہاتھ میں لے کر ملا اور فرمایا، ’’یہ کنکریاں بسم اللہ پڑھ کر ایک ایک کرکے کنویں میں ڈال دینا۔‘‘
بنو سعد بن ہذیم کے وفد کے لوگ کنکریاں لے کر چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کنکریاں کنویں میں ڈال دیں۔ کنویں میں کنکریاں کا ڈالنا تھا کہ کنویں میں پانی بھر گیا اور پھر کبھی پانی کی قلت نہیں ہوئی۔
تبوک کے راستے میں پانی
تبوک کے راستے میں وادیء مشقق کی ایک چٹان میں پانی کا چشمہ تھا۔ چشمہ سے پھوٹنے والا پانی اس قدر تھا کہ صرف تین آدمی اس سے سیر ہوسکتے تھے۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے آگے جانے والوں سے فرما دیا تھا کہ وہ چشمہ سے پانی نہ نکالیں جب تک کہ ہم نہ پہنچ جائیں۔ منافقوں کا گروہ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے وہاں پہنچا اور اس کا سارا پانی نکال کر ضائع کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو انہیں اس امر کی اطلاع دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے نیچے اتر آئے اور چٹان کے نیچے ہاتھ مبارک رکھا اور دعا فرمائی تو چٹان سے پانی فوارے کی طرح ابل پڑا۔
مشکوں میں پانی کم نہیں ہوا
ایک سفر میں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پانی ہے نہیں اور پیاس بہت زیادہ لگ رہی ہے۔ حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ نے دیکھا کہ ایک عورت پانی سے بھری ہوئی دو مشکیں اونٹ پر لے کر آرہی ہے۔ اس سے پوچھا کہ پانی کا چشمہ یہاں سے کتنا دور ہے۔ اس نے جواب دیا میرے قبیلے اور چشمے کے درمیان ۲۴ گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ حضرت علیؓ اس عورت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن منگوا کر ایک مشک سے تھوڑا سا پانی انڈیلا اور دعا فرمائی۔ پانی دوبارہ مشک میں ڈال دیا۔ صحابہ کرامؓ نے سیر ہوکر پانی پیا اور برتن پانی سے بھر لئے لیکن مشکیں پانی سے بھری رہیں۔ عورت حیرت و استعجاب کی تصویر بنی یہ سارا ماجرا دیکھ رہی تھی۔ جب سب لوگ پانی پی چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس عورت کو کھجوریں دے کر رخصت کردو۔
**********************
پانی ایسا سیال ہے جو پھیلنے اور سمٹنے کی بدرجۂ اتم صلاحیت رکھتا ہے۔ پانی ایک پیالہ میں ہو، گلاس میں ہو یا مٹکے میں ہو، تالاب، دریا اور سمندر میں ہو جتنا چاہے خود کو پھیلا دیتا ہے اور جتنا چاہے خود کو سمیٹ لیتا ہے۔ پانی کی یہ صلاحیت پانی کا لاشعور ہے۔
ہر زندگی میں پانی کا عمل دخل تین حصے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پانی کی فطرت نشیب میں بہنا ہے لیکن اس کے برعکس پانی ۸۰ فٹ ناریل کے اونچے درخت میں سربند پیالے (ڈاب) میں جمع ہوجاتا ہے اور جب نشیب میں طوفانی صورت اختیار کرتا ہے تو پورے پورے شہر اپنے قدموں میں روند کر ویران کر دیتا ہے۔
زمین جب سے وجود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک سمندر کئی بار اپنی جگہ بدل چکا ہے، جہاں اب خشکی ہے، کبھی وہاں پانی تھا اور جہاں اب سمندر ہے، وہاں کسی زمانے میں زمین پر آبادی تھی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے بہت سے حصوں میں سمندر خشکی کی طرف بڑھ رہے ہیں، بہت سے جزیرے سمندر میں چھپ گئے ہیں اور سمندر میں غرق خشکی کے حصے دوبارہ نمودار ہو رہے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق زمین کی سطح متحرک ہے۔ سطح زمین کے نیچے پگھلی ہوئی چٹانیں ہیں۔ سیاہ چٹانوں پر مشتمل مادہ(Matter) بھی سست روی سے متحرک ہے۔ جس کی وجہ سے قشرِ ارض بڑی بڑی پلیٹوں میں ٹوٹ گیا ہے۔ پلیٹیں جہاں سے کھسک جاتی ہیں، زمین وہاں سے پھٹ جاتی ہے اور کھائیاں اور سمندر بن جاتے ہیں۔ بعض جگہوں پر کھنچاؤ کی وجہ سے سلوٹیں بن جاتی ہیں۔ زمین کی سطح پر نمودار ہونے والی یہ سلوٹیں پہاڑی سلسلے ہیں۔
زمین پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایک خلیئے پر مشتمل جاندار سے لے کر بارہ کھرب سیلز سے مرکب آدمی اور عظیم الجثہ حیوانات سب کی زندگی پانی سے شروع ہوئی ہے۔ خشکی پر رہنے والی مخلوق اور پانی میں آباد مخلوق سمیت تمام جانداروں کے خون میں سوڈیم، پوٹاشیم اور کیلشیم کی نسبت وہی ہے جس نسبت سے یہ کیمیاوی عناصر سمندر کے پانی میں پائے جاتے ہیں۔
سمندر میں نمک، گھانس پھونس، Sea Foodاور دیگر سمندری مخلوق کے علاوہ بیش بہا معدنیات اور کیمیائی اجزاء موجود ہیں۔ ایک مکعب میل سمندری پانی میں بارہ کروڑ تراسی لاکھ ٹن سادہ نمک، ایک کروڑ اسی لاکھ ٹن میگنیشیم کلورائیڈ ، اٹھترلاکھ ٹن میگنیشیم سلفیٹ، انسٹھ لاکھ ٹن کیلشیم سلفیٹ اور تین لاکھ ساٹھ ہزار ٹن میگنیشیم برومائڈ کے علاوہ آیوڈین، لوہا، تانبا، چاندی اور سونا بھی شامل ہوتا ہے۔
سمندر کا پانی کھاری ہوتا ہے لیکن بعض ساحلوں کے قریب اس میں میٹھے پانی کے چشمے ملتے ہیں۔ سمندروں کی تہہ کے نیچے میٹھے پانی کے چشمے جاری رہتے ہیں۔ میٹھا پانی سمندر کے پانی سے ہلکا ہوتا ہے۔ جہاں کہیں سمندر کی تہہ کو توڑ کر میٹھا پانی باہر نکلتا ہے اور ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے ایسی جگہ سمندر کی سطح پر بلبلے دکھائی دیتے ہیں۔
سمندر کے پانی میں نمک کی مقدار دیگر کیمیاوی اجزاء کی نسبت زیادہ ہے۔ جن مقامات میں دریا میٹھا پانی لے کر سمندر میں آملتے ہیں وہاں سمندری پانی میں نمک کم ہے اور جہاں میٹھے پانی کی آمیزش کم ہے یا جہاں جہاں پانی زیادہ مقدار میں بخارات بن کر اڑتا ہے وہاں سمندر کے پانی میں نمک زیادہ ہے۔
سورج کی گرمی سے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ بخارات بادل بن جاتے ہیں اور ہوا بادلوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ پہاڑوں اور میدانوں میں بارش برستی ہے۔ فضا میں موجود گیسز اور پہاڑوں سے مختلف عناصر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ پانی زمین کی مٹی میں نمی پیدا کرتا ہے جو حیاتیاتی پروسس کا لازمی جزو ہے۔
بخارات سے بھری ہوئی ہوا کا درجۂ حرارت کسی وجہ سے کم ہو جائے تو بخارات قطروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لئے فضا میں موجود خاکی ذرات پر بسیرا کرتے ہیں۔ جب یہ قطرے بھاری ہو جاتے ہیں تو بارش کی شکل میں زمین پر گرنے لگتے ہیں۔
بادلوں کے اندر موجود پانی کے ہر قطرے پر مثبت یا منفی چارج موجود ہوتا ہے۔ یہ ذرات جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو بیشتر مثبت چارج بادلوں کے اوپر کے حصے میں اور بیشتر منفی چارج بادلوں کے نچلے حصے میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس چارج کی طاقت لاکھوں وولٹ ہوتی ہے۔ ایک بادل کے منفی ذرات جب دوسرے بادل کے مثبت ذرات سے ٹکراتے ہیں یا بادل کے منفی ذرات زمین پر موجود اشیا کے مثبت ذرات سے ٹکراتے ہیں تو بجلی کا کوندا (Spark)لپکتا ہے۔ اسپارک سے آس پاس کی ہوا شدید گرم ہوجاتی ہے۔ ہوا کا درجۂ حرارت تقریباً تیتیس ہزار سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔ گرم ہوا تیزی سے پھیلتی ہے اور اردگرد کی سرد ہوا سے ٹکراتی ہے۔ جس سے شدید دھماکہ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ گرج اور چمک کا یہ عمل اگرچہ بہ یک وقت واقع ہوتا ہے لیکن آواز کی لہریں روشنی سے کم رفتار ہونے کی وجہ سے گرج، چمک کے بعد سنائی دیتی ہے۔
سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک سیکنڈ میں دنیا بھر میں تقریباً ایک سو اسپارک وجود میں آتے ہیں اور بجلی کے ایک اسپارک میں اتنی توانائی موجود ہوتی ہے جس سے ایک چھوٹے شہر کی ایک سال کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ بجلی کی چمک سے پیدا ہونے والی حرارت اور توانائی سے بادلوں میں پانی کے ذرّات شکست و ریخت کے عمل سے گزرتے ہیں اور فضا میں موجود دیگر گیسز کے ساتھ کیمیائی تعامل کرتے ہیں۔ جس سے آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن کی ایسی کیمیائی ترکیب بنتی ہے جس کا اصطلاحی نام امونیم نائٹریٹ ہے۔ یہ ایک بہترین کھاد ہے۔ یہ کھاد پانی میں حل ہوکر جب زمین میں جذب ہوتی ہے تو پودوں اور فصلوں کو نئی زندگی عطا کر دیتی ہے۔ ایک مرتبہ کی چمک سے پیدا ہونے والی کھاد ہزاروں لاکھوں ٹن مقدار میں ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار مکعب کلومیٹر پانی بارش کی صورت میں دنیا کے براعظموں کو مہیا ہوتا ہے۔ یہ مقدار سطحِ زمین پر موجود پانی کا صرف ایک فیصد ہے اور زیرِ زمین پانی کا ہزارواں حصہ ہے۔ بارش کا پانی ندی، نالوں، جھرنوں، آبشاروں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں مل جاتا ہے۔
بارش کا چار حصے پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے یا بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے، ایک حصہ پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ زمین کے اندر چٹانوں میں مسام ہوتے ہیں۔ پانی مٹی اور مسام دار چٹانون سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پانی کی گزرگاہ میں جہاں غیر مسام دار چٹانوں کی کوئی تہہ آجاتی ہے، پانی وہیں رک جاتا ہے۔ پانی آگے نہیں بڑھتا اور جمع ہوتا رہتا ہے اور اس طرح مسام دار چٹانوں کے مسام اور دراڑیں پانی سے بھرجاتی ہیں۔
زمین دوز پانی کے ذخائیر ہزاروں کلومیٹر سالانہ کی رفتار سے زمین کے اندر سفر کرتے رہتے ہیں۔ زمین کی نچلی تہوں میں ہزاروں سال تک پانی محفوظ رہتا ہے۔ زمین دوز پانی کی بالائی سطح موسم کے ساتھ ساتھ اونچی نیچی ہوتی رہتی ہے۔ خشک موسم میں زمین تھوڑا پانی جذب کرتی ہے اور برسات میں چٹانوں کی دراڑیں اور مسام بالکل بھر جاتے ہیں، جہاں کہیں زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہوتی ہے پانی کا چشمہ ابل پڑتا ہے اور جہاں ضرورت ہو کنواں کھود کر زیر زمین پانی کے ذخائر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ترجمہ :
’’ لوگوں! بندگی کرو اپنے رب کی جس نے بنایا تم کو اور تم سے اگلوں کو شاید تم پرہیزگاری اختیار کرو جس نے بنا دیا زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے تمہارے لئے رزق، پس تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کے برابر نہ بناؤ۔‘‘ ( البقرہ۔۲۱۔۲۲)
ترجمہ :
’’اور جس نے خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا۔ اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو زندگی دی اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کئے جاؤگے‘‘۔ (الزخرف۔ ۴۳)
ترجمہ :
’’اس نے آسمانوں اور مین کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ اور سورج اور چاند اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ سب ایک وقت مقررہ تک حرکت کرتے رہیں گے۔ دیکھو وہی غالب بخشنے والا ہے‘‘۔ ( الزمر۔ ۵)
ترجمہ :
’’اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتا ہے۔ پھر وہ پانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سرزمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر طرح طرح کے پھل نکالتا ہے اور اسی طرح ہم مردوں کو حالتِ موت سے نکالتے ہیں شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق حاصل کرو۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو کہ شکر کرنے والی ہے‘‘۔
(الا عراف۔ ۵۷)
ترجمہ :
’’ خدا ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔ دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح زندہ کر دیتا ہے۔ یقیناً وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثرات سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفرانِ نعمت اور نا شکری کرنے لگیں‘‘۔
( الروم ۔ ۴۸)
آیتِ مقدسہ کے معانی اور مفہوم پر غور کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی کا دارومدار پانی کے اوپر ہے۔ خود اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم آسمان سے پانی نازل کرتے ہیں اور اس میں سے تمہارے لئے رزق اور پھل پیدا کرتے ہیں اور جب مردہ زمین پر بارش برستی ہے تو اس کے اندر زندگی دوڑ جاتی ہے۔ خشک زمین بظاہر بنجر نظر آتی ہے لیکن زمین کے اندر مخلوق کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ جوسطح زمین پر نظر نہیں آتیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک گرام مٹی میں کھربوں جراثیم ہوتے ہیں۔ جب طویل عرصہ تک بارش نہیں ہوتی تو زمین کے اندر یہ جراثیم بے حرکت ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب بارش برستی ہے تو یہ کھربوں جراثیم زندہ اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ بارش کے بعد زمین کے اندر نمو کا یہ عمل ہزاروں جاندار اشیاء کیڑوں، مکوڑوں درختوں، پودوں اور پھلواری کی پیداوار کا سبب بنتا ہے۔ بارش کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ زیر زمین شہر کے شہر آباد ہوگئے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ پانی زندگی کے لئے نا گزیر ہے۔ تحقیقات کے عمل میں پانی کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تخلیقی عمل پر غور کیا تو زمین پر تمام تولیدی سلسلہ پانی کے اوپر قائم ہے۔
جب ہم پانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو روحانی نقطہ نظر سے دو رخوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک پانی اور دوسرے پانی کی ماہئیت۔ جس طرح ہر انسان میں شعور اور لاشعور کام کررہے ہیں اور انسان کی ساری زندگی لاشعور سے شعور کے اوپر انفارمیشن پر قائم ہے اسی طرح پانی کی ماہئیت اور خاصیت پر پانی کا وجود ہے۔ پانی کا پھیلنا، سمٹنا، زمین کے اندر پانی کا بہنا، چشمے، آبشار، نالے، دریا، سمندر اور آسمان سے بہنے والا پانی اپنے باطنی وجود ( لاشعور) پر قائم اور متحرک ہے۔
باعثِ تخلیقِ کائنات سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کے اسرار و رموز کے امین، اللہ کی نیابت اور خلافت کے اعلٰی منصب پر فائز، حامل علم لدنی، تخلیقی فارمولوں کے ماہر، بحروبر، شجر و حجر، سماوات اور زمین کے حاکم ہیں اور انہیں اللہ کی نیابت کے تحت حاکمیت کے تمام اختیارات حاصل ہیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جب چاہا کہ پانی میں اضافہ ہو یا خشک کنویں میں پانی کا چشمہ ابل پڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے باطن ( لاشعور )میں تصرف فرمادیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف سے پانی کے ظاہر میں پھیلنے اور بہنے کی صلاحیت متحرک ہوگئی۔ خشک کنویں سے چشمہ ابل پڑا۔ اور یہی تصرف جب مشک کے پانی پر ہوا تو قانون الہی کے تحت آدمیوں کی بہت بڑی تعداد نے پانی پی لیا لیکن مشک خالی نہیں ہوئی۔
ترجمہ :
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخّر کردی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں۔‘‘
( سورۃ نحل ۔۔ ۱۲)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 161 تا 173
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔