تبت یدا
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=7153
ابو لہب اور اس کی بیوی محمد رسول اللہؐ کے چچا چچی تھے۔ جب حضورؐ دعوت حق دیتے تو ابو لہب مجمع کے پاس جا کر کہتا تھا کہ اس کی بات نہ سنو یہ مجنوں اور دیوانہ ہے ۔ اس کی بیوی ام جمیل جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں چن چن کر لاتی اور حضورؐ کے راستے میں ڈال دیتی تھی۔ اس کے بارے میں سورۃ لہب نازل ہوئی۔
ترجمہ :
’’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو اس نے کمایا ۔ ضرور وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے ۔ اس کے گلے میں مونج کی رسی ہو گی ۔ ‘‘(پارہ ۳۰)
حضورعلیہ الصّلوٰة والسّلام بیت اللہ میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ ام جمیل حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے مخاطب ہوئی، ’’ابو بکر تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ اس نے میری ہجو کہی ہے ۔‘‘
محمد رسول اللہؐ وہاں موجود تھے۔ لیکن ابو لہب کی بیوی کو نظر نہیں آئے۔
**********************
لہب کے معنی شعلے کے ہیں۔ ابو لہب کا اصلی نام عبدالعزیٰ تھا ۔ ابو لہب سرخ و سفید شعلہ رو تھا ۔ غالبا ً اسی وجہ سے ابو لہب پکارا جاتا تھا۔ ابو لہب بیت اللہ کے بیت المال کا نگراں تھا ۔ بیت المال پر اس نے اس طرح قبضہ کر رکھا تھا کہ بیت المال کا بڑا حصہ یتیموں ، مسکینوں اور حاجیوں پر خرچ ہونے کی بجائے اس کے خزانے میں جمع ہوتا تھا ۔حضور علیہ الصّلوٰة والسّلام کی دعوت حق سن کر اسے محسوس ہوا کہ اس کا احتساب کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ اس اعزاز اور مال و دولت سے محروم ہو جائے گا جو اسے حاصل ہے ۔ چنانچہ اس نے آپؐ کی مخالفت کی اور مخالفت میں بڑے بڑے دشمنوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قرآن نے اس سورہ میں حضور پاکؐ کے دشمن کی سیاسی قوت ٹوٹ جانے کی پیشن گوئی کی ہے ، جو پوری ہو ئی ۔ غزوۂ بدر کے کچھ عرصے بعد وہ چیچک میں مبتلا ہوا۔ اس بیماری کے دوران چھوت کے اندیشے سے اس کے ساتھیوں نے ، اس کے بیٹوں نے اور اس کے خاندان نے اس کی تیمار داری بھی نہیں کی ۔ وہ اسی بے کسی کے حال میں مرگیا اور کئی دن اس کی لاش سڑتی رہی ۔ با لآخر لوگوں کے طعنوں سے تنگ آکر اس کے بیٹوں نے مزدوروں کی مدد سے مکہ کے بالائی حصہ میں لاش پھینکوا دی اور اس پر اتنے پتھر پھینکے کہ لاش پتھروں میں ڈھک گئی ۔
ابو لہب کی بیوی اس زمانے میں خاتون اول تھی جو نہایت خوبصورت او رجمیل تھی ۔ اس سورہ میں ابو لہب کی ذلت کی وہ تصویرنمایاں ہے جو قیامت کے دن ہو گی ۔ دنیا میں خاتون اول بن کر ہیرے جواہرات کے قیمتی ہار پہن کر اتراتی پھرتی تھی ۔ قیامت کے دن یہی ہار موٹی رسی کی شکل میں بدل جائیں گے اور وہ اسی طرح پھرے گی جیسے کوئی کنیزگلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں چننے جا رہی ہو ۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل چونکہ حضورؐ کو اذیت پہنچانے میں اپنے شوہر کے ساتھ برابر کی شریک رہی اس لیے جہنم میں اپنے شوہر کے ساتھ ان جرائم کی سزا بھگتے گی جو اس نے حضور علیہ الصّلوٰة والسّلام کی دشمنی میں کئے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 30 تا 32
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔