بی بی سی کے لئے ایک انٹرویو
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6605
آج ہمارے اسٹوڈیو میں خواجہ شمس الدین عظیمی تشریف لائے ہیں۔ آپ روحانی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر ہیں۔ آپ کے جاننے والے جو برطانیہ میں رہتے ہیں وہ آپ کو شاید روحانی ڈاک جنگ لندن کے انچارج ہونے کی حیثیت سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ آج کل آپ برطانیہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ ۱۵ اگست کو امریکہ جانے والے ہیں۔ میں آپ کی بہت مشکور ہوں کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے۔
سوال: عظیمی صاحب سب سے پہلے میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گی کہ روحانی ڈاک جنگ لندن میں آپ نے بہت سے مسائل کا حل رنگ اور روشنیوں کے ذریعہ بتایا ہے۔ ان سے علاج کس طرح ممکن ہے۔
جواب: شکریہ۔ ہم جب غور کرتے ہیں تو کائنات کے اوپر ہمیں کوئی بھی چیز ایسی نظر نہیں آتی جو بے رنگ ہو یہ بھی سائنس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آدمی رنگوں سے متاثر ہوتا ہے اور یہ کہ مختلف رنگوں کی کمی بیشی سے مختلف امراض پیدا ہوتے ہیں۔ اور مختلف رنگوں کی زیادتی سے الجھنیں، ڈپریشن اور پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم رنگوں سے جو علاج پیش کرتے ہیں۔ اس سے تقریباً ساٹھ ۶۰ فیصد لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اس میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ اس میں خرچ کچھ نہیں ہوتا۔ صرف پانی یا لائٹ کا خرچہ ہوتا ہے۔ نیز اس علاج سے کسی قسم کا کاری ایکشن نہیں ہوتا۔
سوال: مجھے بتایئے کہ روحانی علم اور سائنس کا جو علم ہے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
جواب: سائنس خود ہی سارا روحانی علم ہے ۔ ہم اس وقت تک کوئی بھی علم نہیں سیکھ سکتے جب تک کہ اس علم کا خیال ہمارے ذہن سے نہ آئے۔ خیال جہاں آتا ہے اس خیال کو ہم قبول کرتے ہیں۔ اس کو روحانیت میں یہ کہا جاتا ہے کہ خیالات کی قبولیت روح کے اندر ہے۔ اور روح جب جسم سے نکل جاتی ہے تو باوجود اس کے کہ گوشت پوست کا آدمی بھی رہتا ہے۔ دماغ بھی رہتا ہے۔ بھیجا بھی رہتا ہے لیکن اس میں کسی قسم کے علم سیکھنے یا کسی قسم کے علم پھیلانے کی صلاحیت باقی نہیں ہرتی۔
سوال: آپ کے نظریے سے روحانی علم سیکھنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: روحانی علم سیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو ایک وقت مقرر کر کے اپنے ذہن کو کسی ایک نقطے پر مرکوز کر کے کنسینٹریٹ کرنا چاہئے۔ جیسے جیسے انسان کنسینٹریشن (ارتکاز) پر قابو پا لیتا ہے۔ کامیابی حاصل کرتا ہے جس طرح ہم جسمانی آنکھوں سے بہت ساری چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق انسان کے اندر روح بھی ہوتی ہے۔ کنسینٹریشن (ارتکاز) سے روح کی آنکھ کھل جاتی ہے اور اس سے ہم ٹائم اسپیس سے گزر کر ماورائی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔
سوال: یہاں پر آپ جانتے ہیں کہ ماحول مغربی ہے کیونکہ ہم ویسٹ میں رہ رہے ہیں اور ہمارے والدین عام طور پر بچوں کی طرف سے پریشان رہتے ہیں کہ وہ بہت مغربی ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کے نزدیک کوئی ایسا راستہ ہے، آپ کا روحانی راستہ جس سے یہ پریشانی دور ہو سکے؟
جواب: جی ہاں۔ روحانی راستہ یہی ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق خود عمل کرے۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں نے جو یہاں پر تجربہ کیا ہے کہ والدین جو کچھ اولاد سے چاہتے ہیں خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے اولاد والدین کے اثرات کو قبول نہیں کرتی اور ماحول میں جو اثرات ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ قبول کرتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین خود اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالیں کہ اپنی اولاد کے لئے نمونہ بن جائیں۔ نتیجتاً اولاد خود بخود ان کی زندگی کی پیروی کرے گی۔ دوسری بات یہ ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنی اولاد پر غصہ بہت کرتے ہیں۔ ان کی تربیت وہ غصہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ یہاں کے ماحول میں جو تربیت ہے اس میں غصہ نہیں ہے۔ بچے والدین کے غصہ کی وجہ سے ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں کے ماحول سے یعنی اسکول کی اپنی ٹیچر سے قریب ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ان کے ماحول کی جو بنیادی چیزیں ہیں ان کو قبول کر لیتے ہیں اور والدین کے ماحول کو قبول نہیں کرتے۔
سوال: آپ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ پر میدیٹیشن (مراقبہ) کے لئے روح سے واقفیت ضروری ہے۔ کیا آپ بتائیں گے کہ ایسا کیوں ہے؟
جواب: اس لئے کہ ہمارے سامنے یہ تجربہ ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو جسم کا گوشت پوست تو باقی رہتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کی کوئی حرکت باقی نہیں رہتی۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تک روح جسم کے ساتھ ہے جسمانی حرکات و سکنات موجود ہیں۔ جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو جسم رہنے کے باوجود اس میں کوئی حرکت باقی نہیں رہتی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس جسم کی باہر کی دنیا سے یا جسم کی اندر کی دنیا سے واقفیت حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں اس روح سے واقف ہونا پڑے گا جس روح نے اس جسم کو سنبھالا ہوا ہے۔ اور جب روح اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔
سوال: آپ سے ایک سوال یہ ہے کہ میں نے کچھ کالم پڑھے ہیں۔ وطن میں بھی آتے ہیں۔ روحانیت پر جنگ میں بھی آتے ہیں۔
لوگوں نے بحث کی ہوتی ہے کہ ہم درود شریف کا ورد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی طرف سے اجازت ہے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اجازت کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔
جواب: یہاں صورت حال یہ ہے کہ جب ہم کوئی وظیفہ پڑھتے ہیں تو اس وظیفہ کا ہمارے اوپر اثر مرتب ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سے ہمیں فائدہ ہو رہا ہے اس میں کوئی نہ کوئی طاقت موجود ہے۔ تو اجازت اس لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی آدمی کے اندر کتنا وظیفہ پڑھنے کی، کتنا عمل کرنے کی اور کس لفظ کو دہرانے کی کتنی سکت موجود ہے۔ ایک روحانی آدمی یہ جانتا ہے کہ اس آدمی میں کتنی سکت ہے اور جس لفظ کا وہ ورد کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اس کے اندر کتنی سکت ہے۔ اسی حساب سے اسے اجازت دیتا ہے یا اجازت نہیں دیتا۔
سوال: لیکن اخبار کے ذریعے یا خط کے ذریعے آپ کو کس طرح پتہ چلتا ہے کہ اس کی آپ کو اجازت دینی چاہئے یا نہیں؟
جواب: یہ ہم مراقبہ کے ذریعے معلوم کر لیتے ہیں۔ ہمارے پاس جو خط آتا ہے ہم اس کی تحریر اور اس کے نام سے اپنی آنکھیں بند کر کے دیکھتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں اس آدمی کے مطابق معلومات ہوتی ہیں اسی حساب سے ہم اسے اجازت دیتے ہیں یا منع کر دیتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 202 تا 205
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔