بڑی بیگمؓ، چھوٹی بیگمؓ

مکمل کتاب : آگہی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11322

لفظ ابراہیم ’’اب‘‘ اور ’’راحم‘‘ سے مرکب ہیں جس کے معنی ہیں ’’مہربان باپ‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہو گیا تھا ان کے والد کا نام ’تارح‘ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ چچا کا ذریعہ معاش بت تراشی تھا۔ ان کے بنائے ہوئے بتوں کو بادشاہ اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار پوجتے تھے۔

آذر کو ’ادار‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ ’ادار‘ بڑے پجاری یا مندر کے محافظ کو کہتے ہیں۔

قرآن کریم میں آذر کے لئے ’’ابیہ‘‘ (اس کا باپ) کا لفاظ استعمال ہوا ہے۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ’’اور‘‘ میں ہوئی جو جنوبی عراق میں فرات کے کنارہ بابل اور نینوا کے پاس آباد تھا۔ آج کل یہ مقام ’’تل ابیب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
برٹش میوزیم اور فلاڈلفیا میوزیم کی مشترکہ ٹیم نے ایک شہر کے آثار دریافت کئے ہیں۔ وہاں سے ملنے والے کتبات کے مطابق پانچ ہزار بتوں کے نام ملے ہیں۔

بادشاہ کو سورج دیوتا کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ عوام نذر میں نقد رقم اور دوسری چیزیں مندر میں دیتے تھے۔ باغات، مکانات اور زمینیں مندر کے لئے وقف تھیں۔ پجاری کے فیصلے نعوذ باللہ خدا کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ دربار شاہی میں سجدہ کیا جاتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سے پہلے نمرود نے خواب میں دیکھا کہ آسمان میں ایک روشن ستارہ چمک رہا ہے۔ نمرود نے یہ خواب نجومیوں کو بتایا کہ وہ خواب کی تعبیر بتائیں۔ نجومیوں نے کہا!

’’اس سال ملک میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو بادشاہ اور سلطنت کے لئے خطرہ ہے۔‘‘

بادشاہ نے شاہی فرمان کے ذریعے ملک بھر میں ہر عورت اور مرد کے (میاں بیوی) اختلاط پر پابندی لگا دی اور حکم جاری کر دیا کہ جو بھی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے۔

روایت میں ہے کہ اس ظالمانہ حکم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ ’’اوشہ‘‘ شہر سے باہر ایک غار میں روپوش ہو گئیں۔ اس غار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بچپن اس غار میں گزارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب جوان ہوئے اس وقت ایسا ماحول تھا کہ بت خانوں میں ہر طرف بت رکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نور فراست سے نوازا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھتے تھے کہ بت سنتے نہیں ہیں، دیکھتے نہیں ہیں، کسی بات کا جواب نہیں دیتے تو یہ کیسے کسی کو نقصان یا نفع پہنچا سکتے ہیں؟

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔

’’پھر جب رات کی تاریکی چھا گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ستارہ دیکھا۔ فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا، پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں، پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ اے قوم! بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں، میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(سورۃ انعام۔ آیت ۷۷، ۸۰)

روایت کے مطابق جب کنعان کے پورے علاقے میں قحط پڑا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑوسی زرعی ملک مصر کی طرف ہجرت فرمائی۔ مصر میں فراعنہ کا دور تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے یہ چرواہے تھے اور شاہی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ بادشاہ کو جب اطلاع ملی کہ ایک سامی نسل کے بزرگ آئے ہیں۔ بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت خاطر تواضع کی اور قدیم خاندان سے تعلق کی بناء پر بی بی سارہؓ سے نکاح کا پیغام دیا۔ لیکن جب اسے پتا چلا کہ بی بی سارہؓ شادی شدہ ہیں تو اس نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرؓ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر کے تعلق استوار کر لیا۔

مال اور زر اور مویشی بھی پیش کئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک ۸۵ سال تھی۔ ابھی تک وہ لااولاد تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صاحب اولاد ہونے کی دعا کی۔

’’اے میرے رب بخش مجھ کو کوئی نیک بیٹا۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔ آیت ۱۰۰)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’پھر ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔ آیت ۱۰۱)

حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا نام اشموعیل رکھا جو بعد میں کثرت استعمال سے اسماعیل ہو گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت محبت کرتے تھے گود میں لے کر پھرتے تھے اور کبھی اپنے کندھوں پر بٹھا کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سیر کراتے تھے۔

حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ دونوں بیویوں کا اختلاف ختم ہو جائے اور وہ گھر میں پیار محبت سے رہیں مگر دونوں بیگمات میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بی بی ہاجرہؓ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ چلے جائیں۔ جب وادی ام القریٰ پہنچے۔ ماں بیٹے کو وہاں چھوڑ کر کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر کچھ کہے سنے بغیر واپس جانے لگے تو بی بی ہاجرہؓ نے بے قرار ہو کر پوچھا۔

’’اے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے! آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہے ہو؟‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ کے سہارے۔‘‘

بی بی ہاجرہؓ نے پوچھا۔ ’’کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ہاں! اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔‘‘

پاک باطن خاتون حضرت ہاجرہؓ نے عرض کیا۔ ’’آپ تشریف لے جائیں بے شک اللہ تعالیٰ ہمارا کفیل ہے، وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

حضرت ہاجرہؓ چند روز تک کھجوریں کھاتی رہیں اور مشکیزہ سے پانی پیتی رہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں لیکن وہ وقت بھی آ گیا۔ پانی نہ رہا اور کھجوریں بھی ختم ہو گئیں کیونکہ وہ بھوکی پیاسی تھیں اس لئے دودھ بھی نہیں اترا۔
بچے کو جب بہت بھوک لگی تو وہ رونے لگا تو حضرت ہاجرہؓ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں۔ کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفہ پر چلی گئیں۔ سوچا کہ شاید کوئی آدمی نظر آ جائے یا کہیں پانی مل جائے۔ مگر کچھ نظر نہیں آیا۔پھر بچہ کی محبت میں دوڑ کر وادی میں آ گئیں اور کچھ دیر ٹھہر کر دوسری طرف مروہ پہاڑی پر چلی گئیں وہاں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تو تیزی سے دوڑ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس آئیں اور اس طرح سات مرتبہ صفا اور مروہ کی طرف دوڑتی رہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 61 تا 66

آگہی کے مضامین :

انتساب پیش لفظ 1 - روحانی اسکول میں تربیت 2 - با اختیار بے اختیار زندگی 3 - تین سال کا بچہ 4 - مرید کی تربیت 5 - دس سال۔۔۔؟ 6 - قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ 7 - موت حفاظت کرتی ہے 8 - باہر نہیں ہم اندر دیکھتے ہیں 9 - اطلاع کہاں سے آتی ہے؟ 10 - نیند اور شعور 11 - قانون 12 - لازمانیت اور زمانیت 13 - مثال 14 - وقت۔۔۔؟ 15 - زمین پر پہلا انسان 16 - خالق اور مخلوق 17 - مٹی خلاء ہے۔۔۔ 18 - عورت کے دو رُخ 19 - قانون 20 - ہابیل و قابیل 21 - آگ اور قربانی 22 - آدم زاد کی پہلی موت 23 - روشنی اور جسم 24 - مشاہداتی نظر 25 - نیند اور بیداری 26 - جسمِ مثالی 27 - گیارہ ہزار صلاحیتیں 28 - خواتین اور فرشتے 29 - روح کا لباس؟ 30 - ملت حنیف 31 - بڑی بیگمؓ، چھوٹی بیگمؓ 32 - زم زم 33 - خواتین کے فرائض 34 - تیس سال پہلے 36 - کہکشانی نظام 37 - پانچ حواس 38 - قانون 39 - قدرِ مشترک 40 - قانون 41 - پچاس سال 42 - زندگی کا فلسفہ 43 - انسانی مشین 44 - راضی برضا 45 - زمانے کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے(حدیث) 46 - مثال 47 - سائنس اور روحانیت 48 - مادی دنیا اور ماورائی دنیا 49 - چاند گاڑی 50 - تین ارب سال 51 - کائناتی نظام 52 - تخلیق کا قانون 53 - تکوین 54 - دو علوم۔۔۔ 55 - قانون 56 - ذات کا عرفان 57 - روحانی شاگرد 58 - ذات کی نفی 59 - پانچ کھرب بائیس کروڑ! 60 - زندگی کا تجزیہ 61 - عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ 62 - دین فطرت 63 - عید 64 - ملائکہ اعلان کرتے ہیں 65 - بچے اور رسول اللہﷺ 66 - افکار کی دنیا 67 - مثال 68 - تحقیق و تلاش 69 - Kirlian Photography 70 - قرآن علوم کا سرچشمہ ہے 71 - روشنی سے علاج 72 - روشنی کا عمل 73 - چھ نقطے 74 - قانون 75 - امراض کا روحانی علاج 76 - مشق کا طریقہ 77 - نور کا دریا 78 - ہر مخلوق عقل مند ہے 79 - موازنہ 80 - حضرت جبرائیل ؑ 81 - ڈائری 82 - ماں کی محبت 83 - حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 84 - اکیڈمی میں ورکشاپ 85 - زمین اور آسمان 86 - ورد اور وظائف 87 - آواز روشنی ہے 88 - مثال 89 - نگینوں سے علاج 90 - تقدیر کیا ہے؟ 91 - مثال 92 - حضرت علیؓ کا ارشاد 93 - فرشتے، جنات اور آدم ؑ 94 - انسان اور موالید ثلاثہ 95 - سلطان 96 - مثال 97 - دو رخ 98 - سیاہ نقطہ 99 - قانون 100 - کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالی۔۔۔ 101 - تین کمزوریاں 102 - عفو و درگذر 103 - عام معافی 104 - توازن 105 - شکر کیا ہے؟ 106 - قافلہ سالار 107 - ٹیم ورک 108 - سلسلہ عظیمیہ کے ارکان کی ذمہ داری 109 - چھوٹوں کی اصلاح 110 - ایک نصیحت 111 - صبحِ بہاراں 112 - دنیا مسافر خانہ ہے 113 - روح کیا ہے؟ 114 - سانس کی مشقیں 115 - من کی دنیا 116 - بے سکونی کیوں ہے؟ 117 - غور و فکر 118 - روحانی علوم 119 - ہمارے بچے 120 - اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں 121 - اللہ ھُو 122 - اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو 123 - قربت 124 - ہر مخلوق باشعور ہے 125 - کامیاب زندگی 126 - انا کی لہریں 127 - صدقۂ جاریہ 128 - ادراک یا حواس
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)