بچانے والا اللہ ہے
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13063
ایک غزوہ سے واپسی پر مسلمان لشکر نے راستے میں پڑاؤ کیا۔ اس جگہ درختوں کے کئی جھنڈ تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ صحابہؓ ان درختوں کے سائے میں سوگئے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام بھی ایک درخت کے نیچے اکیلے آرام فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت کی شاخ سے لٹکی ہوئی تھی۔ ایک بدو جو پہلے سے موقع کی تاک میں تھا۔ چپکے سے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار نیام سے نکال لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گیا۔ بدو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! بتاؤ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے ؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سکون اور اطمینان سے فرمایا، ’’اللہ‘‘۔
یہ سنتے ہی بدو کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔
اونٹ کا سوداگر
ابو جہل نے ایک شخص سے ادھار اونٹ خریدا۔ لیکن رقم ادا نہیں کی۔ سوداگر نے مایوسں ہو کر قبیلۂ قریش کے اجتماع میں کہا۔ ’’اے قریش تم میں سے کوئی جوان مرد ہے جو ابو جہل سے مجھے میرا حق دلا دے۔‘‘
ایک شخص نے ازراہِ تمسخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہا، محمد ابوجہل سے تمہارا حق دلا دیں گے۔ سوداگر نے حضور علیہ والصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا، ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق دبا رکھا ہے۔ میں ایک غریب مسافر ہوں۔ قریش کا کہنا ہے کہ آپ میرا حق واپس دلائیں گے۔ آپ پر اللہ مہر بان ہو مجھے میرا قرض واپس دلادیں۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے اور ابوجہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، ابوجہل باہر آگیا۔ چہرۂ اقدس پر نظر پڑتے ہی ابوجہل گھبرا گیا اور خوف سے اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ مسافر کا حق ادا کردو۔‘‘ ابوجہل بدحواسی کے عالم میں اندر گیا اور رقم لا کر سوداگر کو دے دی۔
اللہ کا رسول
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت بلالؓ کو کعبہ شریف میں اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابو سفیانؓ بن حرب، عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام کے ہمراہ کعبہ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ دو افراد اس وقت تک اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے۔ عتاب بن اسید نے کہا کہ میرے باپ اسید کو اللہ نے یہ آواز سننے سے بچالیا۔ حارث بن ہشام بولے خدا کی قسم میں اگر یہ سمجھتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں تو میں ان کا پیروکار ہوجاتا۔ ابو سفیان بولے میں کوئی بات نہیں کہتا کیونکہ اگر میں نے کوئی بات کہہ دی تو یہ کنکریاں جو ہمارے آس پاس ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کردیں گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 207 تا 209
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔