بجلی آگئی
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18524
ہر انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا ہے۔ یعنی خیالات کی لہریں آدمی کے دماغ پر سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں ایک طرف انفرادی زندگی کو انسپائر کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان لہروں کے اوپر کائنات میں موجود نوعی اشتراک کا عمل دخل بھی ہے۔ ان لہروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اور اس کے اندر تمام مظاہرات ہر آن ہر لمحہ ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں۔ دائرے میں سفر بجائے خود اس بات کی شہادت ہے کہ ہر مظہر ایک دوسرے سے آشنا اور متعارف ہے۔ تعارف کا یہ سلسلہ لہروں کے اوپر قائم ہے اور لہروں کو خیالات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ساری کائنات دراصل لہروں کے تبادلے کے اوپر قائم ہے۔ کائناتی نظام اس سسٹم پر چل رہا ہے کہ لہر ہر وجود میں سے گزرتی ہے۔ وجود میں کسی مخصوص پرت یا کسی نوع کی قید نہیں ہے۔ آج کے دور میں ٹی وی، وی سی آر، ریڈیو، فریج اور اینٹینا اس کی روشن شہادت ہیں۔ زیادہ آسان لفظوں میں یوں کہا جاتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر وجود میں ایک اینٹینا ہے۔ یہ اینٹینا ہر دوسرے وجود کی لہر کو قبول بھی کرتا ہے اور اپنی لہروں کو دوسرے وجود کے اینٹینا میں منتقل بھی کرتا ہے۔ جب تک وجود میں موجود نصب شدہ اینٹینا میں وصول کرنے اور منتقل کرنے کا عمل جاری نہ ہو کائنات کا کوئی ایک فرد نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ لہروں کی ایک وجود سے دوسرے وجود میں منتقلی کو سائنس نے توانائی کا نام دیا۔ سائنس کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف ڈائیوں میں منتقل ہو کر توانائی بن جاتا ہے۔
دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ کی تمازت سے جسم جھلس رہے تھے۔ ہوا بند تھی حبس کا عالم تھا، بجلی لوڈشیڈنگ کے نام پر محو استراحتHumidityکی وجہ سے سبک خرام ہوا اتنی بوجھل تھی کہ درخت کے پتے بھی ساکت و جامد تھے۔ حبس کے اس عالم میں جسم دانوں سے بھر گیا تھا۔ لگتا تھا کہ مسامات میں مرچیں بھر گئی ہیں۔ نہایت اضطراب کی کیفیت تھی۔ دماغ ماؤف تھا۔ خیال آیا کہ جب زمین پر ان گرم لہروں نے ہر وجود کو بے قرار کر دیا ہے تو دوزخ میں کیا حشر ہو گا۔ پھر خیال آیا کہ دوزخی مخلوق کے لئے گرمی کی یہ تمازت مآب لہریں دراصل دوزخ میں رہنے کی پریکٹس ہے، ابھی دوزخ کا نقشہ اور بھڑکتی آگ کا عکس آنکھوں کے سامنے آیا ہی تھا کہ بارہ کھرب خلیوں میں سے ایک خلئے میں جھماکہ ہوا۔ پتہ نہیں اس جھماکہ میں کیا تاثیر تھی کہ دماغ میں ایک دروازہ کھلا۔ دروازہ کے اندر سے جو لہریں دماغ پر منتقل ہوئیں ان لہروں کا مفہوم یہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی سکت اور اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا تھا۔ پاس بیٹھے ہوئے میرے بیٹے حکیم نور عجم نے سوال کیا، جیسے ہی سوال کیا بجلی آ گئی پنکھا چل پڑا۔ دماغ کو آرام ملا۔ سوال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو محبت کے ساتھ خلق کیا۔ اور ساری کائنات ’’کن‘‘ کہنے سے وجود میں آئی۔ مطلب یہ ہے کہ مختلف صلاحیتوں کے لئے الگ الگ کن نہیں کہا گیا۔
جب ایک ’’کن‘‘ سے پوری کائنات وجود میں آئی تو صلاحیتیں بھی سب میں مساوی تقسیم ہوئیں۔ لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہر آدمی میں صلاحیتیں مختلف ہیں اور جب ہر آدمی میں صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں تو مساوات کا قانون زیر بحث آ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افلاطون نے کہا کہ قدرت آزاد اور غلام الگ الگ پیدا کرتی ہے۔ اس نظریہ کی مخالفت میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ بیٹے کے سوال کی گہرائی پر جب میں نے تفکر کیا تو اسکرین پر بجلی کی فلم چلتی نظر آئی۔
سمندر میں اٹھتی لہریں نظر آئیں۔ لہروں کے ٹکرانے سے عمل سے ہی بخارات بنے، ہوا نے انہیں اوپر اچھالا تو بادل بن گئے۔ بادلوں کو پھر ہوا نے دھکیلا۔ کارواں در کارواں اڑتے ہوئے شمال میں جا برسے۔
اونچی اونچی پہاڑیوں کہساروں پر برف جمی۔ سورج نکلا۔ سورج کی لہروں کی توانائی جب برف میں منتقل ہوئی تو برف پانی بن گیا۔ پانی فراز سے نشیب میں اترا دریا بن گئے۔ دریاؤں کو روک کر ڈیم بنے، ڈیم میں سرنگیں بنی۔ سرنگ کے ذریعے ٹربائن چلے اور بجلی کی ولادت ہوئی۔ گرڈ اسٹیشن تک بجلی کی لہروں کی رسائی ہوئی۔ وہاں سے ہائی ٹینشن تار میں ان لہروں کو منتقل کیا گیا اور سب پاور اسٹیشن بنے اور پھر وہاں سے گھروں کے سامنے کھمبے لگا کر گھر گھر بجلی کی لہریں منتقل کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ میں نے اپنے بیٹے نور عجم سے کہا۔ چھت پر دیکھو کیا نظر آتا ہے؟
اس نے بتایا پنکھا چل رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ٹیوب لائٹ کیوں نہیں جل رہی ہے۔ وہ بولا سوئچ آف ہے بیٹے کے باپ نے وضاحت کی۔ بیٹا! تمہارے گھر میں تھری فیز بجلی یا توانائی ہے اور یہ توانائی تاروں کے ذریعے مسلسل تاروں میں دوڑ رہی ہے۔ ان تاروں سے اگر تم چاہو تو دس پندرہ قمقمے اوپر نیچے منزل میں دو فریج، دو ٹی وی، دو وی سی آر، دو اسے سی چلا سکتے ہو۔ اور اگر تم نہیں چاہتے تو صرف پورے گھر میں پندرہ واٹ کا بلب ہی روشن کر سکتے ہو۔ تاروں کے اندر دوڑتی ہوئی توانائی تمہاری خدمت گزار ہے۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم توانائی سے کتنا کام لیتے ہو اور موجود تونائی کو کس حد تک نظر انداز کر دیتے ہو۔
جو اللہ تعالیٰ نے خدمت گزاری کے بے شمار شعبے بنائے ہیں یہ دراصل توانائی کی تقسیم ہے۔ ایک آدمی دھوپ میں بیٹھ کر جوتے گانٹھتا ہے۔
اس کا نام موچی ہے۔ دوسرا آدمی گھر میں بیٹھ کر جوتے سیتا ہے اس کا نام بھی موچی ہے۔ تیسرا جوتے کا کارخانہ کھول کر اس کا نام باٹا رکھ دیتا ہے اس کا نام بھی موچی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ کس آدمی نے توانائی کو کتنا استعمال کیا۔ جس طرح بجلی تمہیں ہزار بلب روشن کرنے نہیں روکتی، اسی طرح تمہارے اندر ہزاروں، لاکھوں توانائیاں اپنے استعمال سے منع نہیں کرتی۔ یہی مساوات ہے۔ اس قانون کو تم موچی، بڑھئی، لوہار، انجینئر، فنکار، تاجر اور سائنس کے تمام شعبوں پر قیاس کر سکتے ہو۔ قدرت نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا کہ وہ اس کی دی ہوئی علمی صلاحیتوں سے استفادہ کر کے سائنسدان بنے۔ قدرت نے صلاحیتوں کے استعمال کے لئے میٹریل تخلیق کیا ہے۔ بلاتخصیص ہر ملک، ہر قوم اور ہر فرد کیلئے یہ میٹریل مفت فراہم ہوتا ہے۔ سائنس دان ایٹم بم بناتا ہے۔ ایٹم بم میں کام آنے والی تمام اشیاء بھی قدرت کی پیدا کردہ ہیں۔ مثلاً زمین، یورنیم، الیکٹریسٹی اور وہ میٹریل جس سے بھٹیاں بنتی ہیں۔ اربوں، کھربوں سال کی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل کا کوئی پیسہ ٹکہ آدم زاد نے اللہ کو نہیں دیا۔ تعمیری شعبوں پر نظر ڈالو، زمین فری، زمین کے اندر جو بیج ڈالا جاتا ہے وہ فری۔ بیج کروڑوں سال پہلے جب بھی پیدا ہوا۔ اس کی کوئی قیمت نہیں لی گئی۔
ہوا فری، دھوپ فری، چاندنی فری، آکسیجن فری، بارش فری، حد یہ ہے کہ جسم انسانی میں خون کو شریانوں اور وریدوں میں دوڑانے کی توانائی فری۔ چھ ارب آبادی میں ایک فرد واحد اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ جسم انسانی میں کام کرنے والی انرجی کی اس نے کبھی کوئی قیمت ادا کی ہو۔ دنیا میں موجود بے شمار صلاحیتیں دراصل توانائیاں ہیں۔ بجلی کی مثال سامنے رکھ کر یہ سمجھ لو کہ جتنی توانائی کوئی بندہ استعمال کرنا چاہتا ہے توانائی اس کی خدمت کرنے سے انکار نہیں کرتی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 235 تا 237
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔