اے واعظو! اے منبر نژینو!
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18308
خدا اس جہنم کا مالک ہے جس میں آگ کے سمندر کھول رہے ہیں۔ جس میں آگ کے سمندر کھول رہے ہیں۔ جہنم وہ مقام ہے جہاں سانپوں، اژدھوں اور بچھوؤں کا بسیرا ہے۔ اس گرم تپتی آتش فشاں میں غذا تھوہر ہے۔ آنتوں اور شریانوں کی سیرانی کیلئے جو مشروب ہے وہ پیپ ہے۔
اے لوگوں! خدا سے ڈرو۔ خدا تمہیں ایسی سزا دے گا کہ اس سزا کے تصور سے ہی جسم پانی اور ہڈیاں راکھ بن جائیں گی۔ ایک اژدھا تمہارے اوپر پنجے مارے گا۔ تم جہنم کی تپتی زمین میں اندر ہی اندر دھنستے جاؤ گے۔ وہ اژدھا پھر تمہیں نکال لائے گا پھر تمہیں زمین کی انتہائی گہرائی میں دفن کر دے گا۔ پانی ایسا گرم ملے گا کہ ہونٹ ابل کر لٹک پڑیں گے۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پگھلتے سیسہ کی طرح انڈیلے جاتے ہیں۔ ایک کمزور اور ناتواں انسان ایسے خوف ناک خدا سے ڈر ڈر کر خدا کو ایک خوفناک ہستی سمجھنے لگتا ہے۔ خوف ناک خدا کا تصور اسے خوف اور دہشت کے ایسے صحرا میں پھینک دیتا ہے جہاں خدا ایک ڈراؤنا وجود بن جاتا ہے۔
ہمارے دانشور، ہمارے رہنما محراب و منبر سے ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اللہ وہ ہے جو شکم مادر میں ہمیں نو ماہ تک غذا فراہم کر کے ہماری ہر طرح نشوونما کرتا ہے۔ ہزار دو ہزار میل چل کر گھٹائیں ہماری خشک زمین پر پانی برساتی ہیں۔ حسین اور رنگین بہاریں زمین کو دلہن کی طرح سجاتی ہیں۔ آسمان پر جگ مگ کرتی قندیلیں ہماری نظر کو نور اور دماغ کو سرور بخشتی ہیں۔ خدا وہ ہے جس نے رنگ برنگے پھولوں کو زمین کی کوکھ سے پیدا کر کے انسان کے شعور میں رنگینی پیدا کر دی ہے۔ قطار در قطار درخت، پھلوں سے لدے ہوئے اشجار ہمارے منتظر ہیں کہ ہم انہیں خدمت کا موقع دیں۔ درخت کے پتے جب ہواؤں کے دوش پر جھولتے ہیں تو دراصل انسان کی تسکین روح کے لئے گیت گاتے ہیں۔ ہوائیں ساز بجاتی ہیں، ٹہنیاں رقص کرتی ہیں اور خود قدرت وجد میں آ جاتی ہے۔ برساتیں شرماتی ہیں، برسات کے اندھیروں میں برسات کی روشنی میں نور اور کیف و سرور ہوتا ہے۔ سورج برسات کی لجاجت اور حیا کے پسینے سے آنکھیں موند لیتا ہے، دھوپ جس کا نام جھسلا دینا ہے، نرم و ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور فضا دھل جاتی ہے۔ درخت نیا لباس زیب تن کر لیتے ہیں۔
وہ خدا جس نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اتنے وسائل مہیا کر دیئے ہیں کہ انسان ان وسائل کا شمار بھی نہیں کر سکتا۔ جب تو تھک جاتا ہے تو رات تجھے تھپک تھپک کے نیند کی لوریاں سنا کر سلا دیتی ہے اور جب سوتا رہتا ہے تو دن آہستہ خرام تیرے گرد ساز و آواز کے ساتھ مدہم مدہم دستک دے کر تجھے بیدار کر دیتا ہے۔
اے ہمارے دانشور! اے ہمارے راہنما!
تم اس خدا کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے جس نے ہمارے اندر ایک مشین نصب کر دی ہے جس کا ہر پرزہ ہمارے اختیار اور ہمارے ارادے کے بغیر چل رہا ہے۔ دل سارے جسم کو شاداب رکھنے کیلئے خون دوڑا رہا ہے۔ دماغ اعصابی نظام کو بحال رکھنے کے لئے تواتر کے ساتھ زندگی کی اطلاع دے رہا ہے۔ آنتیں غذا کو جزو بدن بنا رہی ہیں۔ آنکھیں مناظر قدرت کی وڈیو فلم بنا رہی ہیں۔
اے ہمارے دانشورو! اے ہمارے رہنما!
تم کیوں صرف ایسے خدا کا تذکرہ کرتے ہو کہ انسان جس خدا کو خوف ناک ہستی، ڈراؤنی ذات سمجھ کر رات دن ڈرتا ہے، لرزتا ہے، جسم کا ہر عضو کانپتا رہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ڈر اور خوف دوری اور جدائی کا اکیسری نسخہ ہے۔ یہ کون نہیں تسلیم کرے گا کہ ڈر گھٹن ہے، ڈر اضطراب ہے، ڈر بے چینی ہے، ڈر خوف ناکی دو دلوں میں جدائی کی ایک دیوار ہے۔
اے میرے بزرگو! میرے اسلاف کی نیابت کے دعویدارو!
اگر تمہیں یہ یقین ہو جائے کہ تمہارا باپ ایک خوف ناک ہستی ہے اور وہ تمہارے وجود کو جلا کر خاکستر کر دے گا تو کیا تم اس کے قریب جاؤ گے؟
دنیا کا یہ قانون ہے کہ امن پسند شہریوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ حاکم امن پسند شہریوں کو اچھا ہی نہیں سمجھتا بلکہ ان سے محبت بھی کرتا ہے ان کی صحت، ان کی ضروریات کا انتظام کرتا ہے۔
اے ہمارے دانشورو!
تم اپنے پیچھے چلنے والی بھیڑ کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ قانون کی پاسداری کرو۔ حاکم اپنے فداکاروں اور اپنی اطاعت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اگر تم اللہ کے پھیلائے ہوئے وسائل کو صبر و شکر کے ساتھ خوش ہو کر استعمال کرو گے تو اللہ خوش ہو گا۔ اس لئے خوش ہو گا کہ یہ سارے وسائل تمہارے لئے ہی تخلیق کئے گئے ہیں۔ آج کا انسان اگر اچھا لباس پہننا ترک کر دے اور موٹا کھدر کا لباس پہننے لگے تو ہزاروں فیکٹریاں بن دہو جائیں گی، فیکٹریاں بند ہو جانے سے لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے۔ آسائش و آرام کے وسائل سے فائدہ اٹھانا منسوخ کر دیا جائے تو اللہ کی مخلوق تہی دست اور مفلوک الحال ہو جائے گی۔
شکر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال کیا جائے اور صبر یہ ہے کہ بندہ راضی بہ رضا رہے اور جب تک بندے شکر کا کفران کرتے ہیں اور صبر سے خود کو آراستہ نہیں کرتے تو ان کے دلوں میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے۔ اس دنیا کی محبت جو عارضی اور فانی ہے۔ خدا نہیں چاہتا کہ عارضی اور فنا ہو جانے والی دنیا کو مقصد زندگی قرار دے دیا جائے۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان سکون کے گہوارے میں ابدی زندگی تلاش کرے اور دنیا کے تمام سازو سامان اور وسائل کو راستے کا گرد و غبار سمجھے۔
اگر تم سعادت مند ہو تو شر سے بچتے رہو کہ اللہ بچنے والوں پر ہمیشہ رحم کرتا ہے۔ رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو اور بے جا دولت خرچ نہ کرو کہ دولت اڑانے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ اور تم جانتے ہو کہ شیطان اللہ کا باغی ہے۔ اگر تم تہی دست ہو اور کچھ نہیں دے سکتے لیکن خدا سے رحمت کی امید ضرور رکھتے ہو تو ان لوگوں کو نرمی سے ٹال دو۔ تم نہ کنجوس بنو اور نہ اتنے فضول خرچ کہ کل نادم ہونا پڑے اور لوگ تمہیں طعنے دیں۔
وعدوں کو پورا کرو کہ وعدوں کے متعلق بازپرس کی جائے گی۔ جب ناپو پورا ناپو پورے اور صحیح ترازو سے تولو۔ یہ خیر ہے اس کا نتیجہ اچھا ہو گا کسی ایسی خبر کے پیچھے مست چل پڑا کرو جس کے بارے میں تم کو یقینی علم نہ ہو۔ اس لئے کہ کان، آنکھ اور دل ہم سب کے بارے میں جواب طلب کریں گے۔ زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کے برابر ہو سکتے ہو۔ یہ وہ حرکات ہیں جنہیں ہم سخت ناپسند کرتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 74 تا 76
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔