اکیڈمی میں ورکشاپ
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11540
ممتاز روحانی اسکالر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ان دنوں برطانیہ کے دورے پر ہیں۔ اس ورکشاپ کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے ورکشاپ کے لئے برطانیہ سے بذریعہ Faxخصوصی پیغام بھیجا۔ کلاس سوئم کے طالب علم آغا منصور الحسن اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نے یہ پیغام پڑھ کر سنایا۔
حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا۔۔۔
خالق کی آواز گونج رہی ہے۔۔۔الست بربکم۔۔۔میں تمہارا رب ہوں۔۔۔(سورۃ الاعراف۔ آیت ۱۷۲)
خالق کائنات کی آواز اجزائے کائنات میں منتقل ہو گئی ہے اپنے اندر، اپنے من میں، خالق کی صدا کی گونج سنو۔۔۔
رب۔۔۔رب کا مطلب ہے پالنے والا۔ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی نے اپنا تعارف رب کی حیثیت سے کرایا ہے۔ ہر لمحہ، ہر آن صفت ربانیت کا ظہور ہو رہا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ اپنے پالنے والے سے واقف ہے۔ اس کا تابع فرمان ہے۔
تابع فرمان، ذرات سے مرکب، اے انسان! دیکھ اور تفکر سے کام لے۔ ازل میں فرمایا ہوا لفظ ’’کن‘‘ اجزائے کائنات کے لئے آج بھی حکم کا وہی درجہ رکھتا ہے جو کائنات کی ابتداء کے پہلے روز تھا۔ کائنات پھیل رہی ہے۔ کن کی صدا گونج (Echo) رہی ہے۔ کہکشاؤں کی جھرمٹ کے درمیان خلاء پھیل رہا ہے۔
سائنس کہتی ہے کہ مادہ کثیف حالت میں گندھا ہوا تھا اور اس کا درجہ حرارت کروڑوں ڈگری (Farenheit) تھا۔ بہت پہلے کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب تھیں اور کائنات ایک نقطہ میں مرکوز تھی پھر ایک عظیم دھماکہ ہوا۔ کثیف دہکتی ہوئی اور گرم کائنات میں یکایک چکا چوند روشنی ہوئی اور یہ روشنی کائنات کے افراد بن گئی۔
’’خدا نے کہا روشنی۔۔۔اور روشنی ہو گئی۔‘‘(انجیل)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے!
’’اللہ تعالیٰ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘(سورۃ النور۔ آیت ۳۵)
سائنسدان یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز عقل سے ثابت نہ ہو وہ قابل قبول نہیں ہے۔ سائنسدان کائنات کے پھیلاؤ اور کہکشاؤں کے درمیان رفتہ رفتہ بڑھنے والے فاصلے کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن کائنات کے وجود کو ایک مربوط نظام میں تخلیق کرنے والی ہستی خالق کی پہچان کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔
کائنات ہر لمحہ حرکت اور تغیر کا نام ہے۔ ایسی حرکت جس میں ایک قاعدہ ہے۔ ایسا تغیر جس میں نظم و ضبط ہے۔ آغاز سے پہلے کوئی طاقت نہیں ہوتی تو یہ مربوط نظام کیسے قائم رہتا؟ شیر کے ہاں انسان اور انسان کے ہاں بکری پیدا ہوتی۔ گائے کے بطن سے کبوتر جنم لیتا اور امرود کے درخت سے کبھی سیب اترتے تو کبھی ناشپاتی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 173 تا 175
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔