انسان، فرشے اورجنات
مکمل کتاب : تذکرہ بابا تاج الدینؒ
مصنف : قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14813
مرہٹہ راجہ رگھو راؤ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتاتھا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کوئی درخواست کرتا تو اس طرح جیسے دیوتاؤں کے حضور میں۔ ایک مرتبہ انہوں نے راجہ کے مندر کا بت توڑ ڈالا ۔ پجاریوں نے شور مچادیا۔ لیکن راجہ صورتِ حال سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ محل والوں کی شکایت پر راجہ نے مسکرا فقط ایک جملہ کہا۔’’ باباصاحبؒ بھی دیوتا ہیں۔ یہ معاملہ دیوتاؤں کا ہے، آپس میں خود نمٹ لیں گے۔ ہماراتمہارا بولنا بے ادبی ہے۔‘‘ اس جملہ سے محض راجہ کی عقیدت کا ہی نہیں اس طرزِ فکر کا بھی اندازہ ہوتاہے جو روحانی شخصیتوں کے بارے میں راجہ کے ذہن میں تھی۔ جو لوگ روحانی قدروں سے کچھ بھی مانوس ہیں وہ اتنا ضرور جان سکتے ہیں کہ راجہ مخفی علوم سے مس رکھتا تھا اور اس کے اندرفیضان حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہاں وہ چند باتیں پیش کرنا بھی ضروری ہیں جو میری موجودگی میں راجہ اورنانا رحمۃ اللہ علیہ میں ہوا کرتی تھیں۔ ان اوقات میں کوئی اورصاحب بھی سوال کرلیا کرتے اور پوری مجلس جواب سے مستفیض ہوتی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال کیا۔ ’’بابا صاحبؒ! ایسی مخلوق جونظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات، خبر متواتر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں بدروحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلی اور علمی توجیہات نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتاہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ہم سمجھ گئے۔ تجربات جو کچھ زبان زد ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ آپ اس مسئلہ پر کچھ ارشاد فرمائیں۔‘‘
نانا رحمۃاللہ علیہ نے اس بات میں کچھ فرمایا وہ فقط تبصرہ نہیں بلکہ میرے اندازے میں ایسے الہامات کا مجموعہ ہے، قدرت نے ان کی ذات کو جن کامرکز بنایا تھا۔ صاحبِ فراست انسانوں کے لئے یہ ملفوظات حد درجہ محلِ تفکر ہیں۔ ان کے جواب سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ قدرت اور ان کے ذہن کی سطح قریب قریب ایک ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ کی وضاحت جن خیالات کے ذریعے کی گئی ہے وہ قدرت کے رازوں میں کس طرح سمائے ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سوال کیا گیا، نانا تاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی۔ فرمانے لگے۔ ’’میاں رگھو راؤ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں، شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں،ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں،ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔‘‘
فرمایا۔’’جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو، پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتاہوں۔ یہ چیزیں دورپرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں، ان پر بھی نظر ڈالتے جاؤ۔ دن طلوع ہوتاہے۔ دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے۔ اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوعِ انسانی کایہی تجربہ ہے۔
میاں رگھوراؤ، ذرا سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہوجائے گا؟ دن رات، فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فردواحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے، اس لئے قابلِ یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اوراندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اوربصارت دیتاہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ہرذی ہوش تفکرہے۔
فرمایا کہ اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آجاتا ہے جہاں کائنات کے کئی راز منکشف ہوجاتے ہیں۔ غور سے سنو، ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہےـــــ۔ فرشتے اورجنات۔ ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتارہتاہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتاہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لامتناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔ ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرزِعمل کا ایک جزو ہے۔انسان پابگِل ہے جنات پابہ ہیولیٰ ہیں۔فرشتے پابہ نور۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں توربط ٹوٹ جائے گا اور کائنات منہدم ہوجائے گی۔
ثبوت یہ ہے کہ ہمارا تفکر ہیولیٰ اور ہیولیٰ قسم کے تمام جسموں سے فکری طورپر روشناس ہے۔ ساتھ ہی ہمارا تفکر نور اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طور پر روشناس ہے حالانکہ ہمارے اپنے تفکر کے تجربات پابگِل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہیولیٰ اورنور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے ہیں۔
عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتاہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتاہے کہ جن کو مجموعی طورپر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اورذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یابہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلۂ خیال ہوتا رہتاہے۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اورہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلۂ خیال کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اورتبادلۂ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔‘‘
نانا تاج الدین اس وقت ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے ’’کہکشانی نظاموں اورہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اوران کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویرخانوں کو ہم اپنی زبان میں توہّم، خیال، تصوراورتفکر وغیرہ کانام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطۂ مشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطۂ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتاہے۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتاہے تصویرخانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرزِعمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآنِ پاک میں انسان، فرشتہ اورجنات کے نام سے کیاگیاہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیاہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کا رکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہوکر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کرکے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔
میں یہ کہہ چکا ہوں کہ تفکر،انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر یہ انا، تفکر اورشخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمارکیفیات کی شکلوں اورسراپا سے بنی ہیں۔ مثلاً بصارت، سماعت، تکلم، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اورسراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہوگئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تاہم ہرنوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔
انسان لاشمار سیّاروں میں آبادہیں۔ اوران کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اورجنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں،جنات ہوں یا فرشتے، ان کے سراپا کا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جلی ہوتی ہے یاخفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آجاتی ہے، خفی ہوتی ہے تو لاشعورمیں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع وایجاد کہتاہے لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے۔ حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ البتہ یہ مظاہر محض انسانی لاشعور کی پیدا وار نہیں ہیں۔ انسان کا خفی کائنات کے دوردراز گوشوں سے مسلسل ربط قائم نہیں رکھ سکا۔ اس کمزوری کی وجہ نوعِ انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ اس نے اپنے تفکر کو کس مقصد کے لئے پابگِل کیا ہے یہ بات اب تک نوعِ انسانی کے شعور سے مارواء ہے۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہاہے، اس کا تقاضہ کوئی ایسی مخلوق پورا نہیں کرسکی جو زمانی، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست وپا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اس کے خالی گوشوں کو مکمل کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ چنانچہ کائناتی تفکر سے جنات اورفرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تاکہ خلا پر ہوجائے۔ فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رونما نہیں ہوسکے جن سے کائنات کی تکمیل ہوجاتی۔
کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتاہے۔ دراصل زمان اورمکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دخان جس کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے اس مخلوط کا نتیجہ اورمظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اورجنات منفی کی پیداوار ہیں۔ رہا فرشتہ، ان دونوں کے ملخص سے بناہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب وشہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموّج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دور نابود میں گم ہوجاتاہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب وغریب کرشمہ برسرِعمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کانام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہوجائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتاہے۔ اگرکسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہوجائے تو اس میں ثقلِ وزن پیدا ہوجاتاہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتاہے اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہوجائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔
طریقِ کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقدار کم کرکے فرشتوں کی طرح زمانی مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہوسکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 206 تا 213
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔